شہرقائد میں بورنگ کے ذریعے پانی کا کاروبار شہریوں کو
مشکلات کا شکار کرنے کرسکتا ہے مسلسل بورنگ کا عمل جاری سمندر کو دعوت دینے
کے مترادف ہوگا کہ وہ شہر قائدزیر زمین پانی کی جگہ لے لے اس لحاظ سے کراچی
میں ریورس اوسموسس پلانٹس کا گلی گلی میں موجود ہونا درست نہیں دکھائی دے
رہا ہے منرل واٹر کے نام پر گلی گلی میں آر او پلانٹس لگا دئیے گئے ہیں
جوکہ بورنگ کے پانی سے منسلک کر دئیے گئے ہیں جہاں روزانہ ان گنت پانی منرل
واٹر کے نام پر گھر گھر سپلائی کرکے کاروبار کیا جارہا ہے اسوقت کراچی میں
منرل واٹر کا کاروبار منافع بخش کاروبار ہے لیکن اس کاروبار کی وجہ سے زیر
زمیں پانی میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے جس کیوجہ سے دریاں ،ندیوں سمیت آبی
ذخائر خشک ہوتے جا رہے ہیں جو کراچی کیلئے لمحہ فکریہ کی حیثیت اختیار کرتے
جا رہے ہیں کراچی میں 2000ء تک جب شہر میں پانی کا بحران بھی شدید نہیں تھا
اور کراچی کے تیس فیصد علاقوں میں کنوں کے ذریعے پانی فراہم ہورہا تھا 80فٹ
بورنگ پر پانی دستیاب تھااب یہ پانی 200 سے 300 فٹ بورنگ پر حاصل ہو رہا ہے
آر او پلانٹس پر بے تحاشا پانی استعمال ہونے سے یہ سطح ہر سال بڑھ رہی ہے
جبکہ کراچی میں کنوں کے ذریعے پانی کی فراہمی کا نظام تقریبا ختم ہو چکا ہے
جس کی اہم وجہ کنوں کا خشک ہوجانا ہے یاد رہے کہ واٹر کمیشن نے زیر زمین
پانی پر پابندی عائد کی تھی سپریم کورٹ نے اسے پانی چوری قرار دیکر قانونی
کاروائی کرنے کا کہا تھا سپریم کورٹ نے یہ احکامات بھی صادر کئے تھے کہ زیر
زمین پانی پر سرکار کا حق ہے زیر زمیں پانی سرکار کی مرضی کے بغیر استعمال
نہیں ہونا چاہیئے مگر ان تمام احکامات کو ایک طرف رکھ کرکراچی کا زیر زمین
پانی بے خوف وخطر بیچا جا رہا ہے آر او پلانٹ کی روک تھام یا سرکاری آر او
پلانٹس کے علاوہ پانی کی فروخت روکنا ضروری ہو گئی ہے اسی طرح زیر زمیں
پانی پر پلانٹس لگنے کا عمل جاری رہا توکراچی کے زمیں بوس ہونے کے خدشات سے
انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایک طرف کراچی سے ریتی بجری کی چوری پر قابو
پایا نہیں جاسکا ہے اور دوسری جانب زیر زمین پانی کو چوسنے کا خطرناک کھیل
جاری ہے ریتی بجری اور زیر زمین پانی کا ختم ہونا سائنسی نقطہ نگاہ سے
ساحلی علاقوں پر موجود آبادیوں کیلئے خودکشی کے مترادف ہے کیونکہ دونوں
صورتوں کی خالی جگہیں پر کرنے کیلئے سمندر دستیاب ہوتا ہے یعنی اسوقت جو
صورتحال ہے وہ اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ کراچی کے غیر مقامی اور مقامی
باشندوں نے ایسے کام کر رکھے ہیں جو کراچی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے
کافی ہیں اعلیٰ عدلیہ اس بات سے مکمل طور پر واقف ہے کہ زیر زمیں پانی کی
کیا اہمیت ہے اور پانی جتنا نیچے جاتا جائیگا خالی زمین ایک طرف بے جان سی
ہوکر مضبوط انفراسٹرکچر کو کمزور کر دے گئی جس سے عمارتیں زمین بوس ہونا
شروع ہو جائیں گی دوسری طرف سمندر خالی پانی کی جگہ لینے کو بے چین ہوسکتا
ہے مذکورہ ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت سندھ کو اس سلسلے میں
ناقابل معافی طرز کے اقدامات بروئے کار لانا ہونگے بصورت دیگر معاملات ہر
گزرتے دن کے ساتھ سنگینی کی جانب گامزن ہیں .
|