مہنگائی کے اثرات

روزانہ اخبارات کی شہ سرخیاں ہوتی ہیں کہ مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ پچھلے ایک برس میں مہنگائی حد سے بڑھ گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ غریب کو ٹاٹ پر پُر سکون نیند آجاتی ہے اور امیر کو مخمل کے نرم و گداز بستروں پر بھی سکون نصیب نہیں ہوتا ہے۔ آج کل غریب کی نیند مہنگائی نے غائب کردی ہے ، غریب شخص سے اپنے گھر کا معمولی سا بجٹ ٹھیک نہیں ہونے پاتا اور اُس کی راتوں کی نیند اسی حساب کتاب کو ٹھیک کرنے میں ضائع ہو جاتی ہے۔ اوپر سے ظالمانہ لوڈ شیڈنگ رہی سہی کسر نکال دیتی ہے، بے چارے غریب عوام کو دن میں مکھیاں اور رات کو مچھر ستاتے ہیں۔ یہ سب اشیاء کی قیمتوں کا آمدن کے مقابلے میں بڑھ جانا ہے، یعنی آمدن میں اضافہ نہ ہو ، وہ اپنی جگہ ساکت ہو لیکن اس کے برعکس اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں۔ آج کل سرکاری ملازمین جو رونا رو رہے ہیں وہ یہی وجہ ہے۔ حالیہ بجٹ میں اُن کی تنخواہوں میں جتنا اضافہ کیا گیا ہے وہ مہنگائی میں اضافے ( اشیاء کی قیمتوں میں اضافے ) کی نسبت اُونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ معاشیات کی زبان میں مہنگائی کی تعریف کچھ یوں کی جاسکتی ہے کہ زَر کی بہت زیادہ مقدارکے مقابلے میں اشیاء کی بہت کم مقدار کا حاصل ہوناہے۔ ہمارے ہاں مہنگائی اگرچہ سارا سال رہتی ہے لیکن اس کے اپنے موسم بھی ہیں جن میں رمضان میں مہنگائی کا موسم ، پیٹرول کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ سے مہنگائی کا موسم اور بجٹ سے مہنگائی کا موسم قابل ِ ذکر ہیں۔ میری اپنی ذاتی رائے کے مطابق مہنگائی کی وجہ حکومت کی اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول میں ناکامی ہے اور عوام خود ساختہ مہنگائی میں ایسے پھنس جاتے ہیں جیسے کہ سارا شریف خان دان نیب کیسوں میں پھنس چکا ہے اور سرکاری نرخ نامے محض ہاتھی کے دانت ہوتے ہیں جو صرف دکھانے کے لئے ہیں۔اگر حکومت کی رِٹ اپنے مقرر شدہ نرخوں پر قائم ہو جاتی ہے تو بڑی حد تک مہنگائی کے طوفان کا سد باب ممکن ہے اور اگر ایسا کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو پھر غریب عوام مہنگائی کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔ اَب ذرا مہنگائی کے اثرات دیکھتے ہیں۔ کچھ روز قبل ایک دوست فرما رہے تھے کہ اُن کا بسلسلہ تربیت کسی اور شہر جانا ہوا ۔ کہتے ہیں کہ ہم تو ایک چھوٹے اور پسماندہ شہر سے آئے تھے، جب کھانے پینے کے لئے بازاروں اور ہوٹلوں کا رُخ کرتے تو وہاں کھانا تو چھوڑیں ، چائے کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کرتے تھے۔ پس ہم میں سے زیادہ تر دوستوں نے صرف روٹی اور سلاد کھانے پر اکتفا کیا۔ جب سے مہنگائی کا جِن کچھ زیادہ ہی بے قابو ہوچکا ہے ، ہم نے بھی عوام کا مطالعہ زیادہ کرد یا ہے۔گزشتہ دنوں ایک ہوٹل میں کھانا کھا رہاتھا کہ ایک شخص وارد ہوا اور کرسی سنبھالتے ہوئے ہمارے قریب بیٹھ گیا۔ ویٹر آیا اور آرڈر مانگا۔ اُس شخص نے چکن ، مٹن اور سبزیوں کی فی پلیٹ کے نرخ پوچھے، اس کے بعد چٹنی کا پوچھا ۔ ویٹر نے کہا کہ وہ مفت میں ملتی ہے۔ وہ شخص اسی انتظار میں تھا اور فوراً سے بولا کہ آپ فی الحال چٹنی لے آئیں ۔ ویٹر چٹنی سیکنڈوں میں لایا ، اُس شخص نے اپنی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا اور دو روٹیاں نکال کر میز پر رکھ دیں اور چٹنی سے تناول کرنا شروع کردیں۔ یہ ہے مہنگائی کی صورت حال ، جس نے عوام کو سلاد اور چٹنی کھانے پر مجبور کردیا ہے۔ میری حکومت سے مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ بچوں کی درسی کتب سے متوازن غذا وغیرہ کے اسباق نکال دے کیوں کہ والدین اس کی استدعا نہیں رکھتے ہیں اور بچے کتابوں میں ان کے متعلق پڑھ کر والدین کو بے جا پریشان اور تنگ کریں گے۔ ہاں ! متوازن غذا کے ساتھ ساتھ جنک فوڈ وغیرہ وغیرہ بھی نکال دیں کیوں کہ ان کا کھانا صحت کے لئے ویسے ہی سود مند نہیں ہے۔ چٹنی سے مجھے اپنے بچپن کا واقعہ یاد آیا۔ جب ہمارے والد مرحوم کام سے فارغ ہو کر واپس گھر آتے تو راستے میں پھل ، پکوڑے یا کوئی اور کھانے کی چیزیں بھی خرید کر ساتھ لاتے، یہی وجہ تھی کہ ہمیں شام کا شدت سے انتظار ہوتا تھا اور اگر خالی ہاتھ لوٹتے تو ہم اگلے دن کا بے صبری سے انتظار کرتے۔ یاد رہے کہ یہ اسّی کی دہائی کی بات ہے۔ مجھے اُن کے یہ الفاظ من و عن یاد ہیں جو انہوں نے ایک دکان دار کے ساتھ مکالمے کی صورت میں ادا کئے تھے۔ والد مرحوم فرماتے تھے کہ پکوڑوں والے دکان دار سے اچھی علیک سلیک تھی ، ایک دن میں نے گپ شپ میں اس سے پوچھا کہ پکوڑے کتنے روپے کلو ہیں اور چٹنی کے کیا بھاؤ ہیں۔ دکان دار بولا کہ پکوڑے پانچ روپے کلو اور چٹنی مفت میں ملتی ہے۔ اس پر والد مرحوم نے کہا کہ آپ مجھے صرف چٹنی پیک کر کے روزانہ دے دیا کریں۔ جب یہ قصہ گھر میں سناتے تو ہنسی سے ہمارے پیٹ میں بَل پڑجاتے تھے۔ مہنگائی سے ہمارے رویوں میں بھی بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ میں اور میرا دوست جوس پینے گئے ، درمیانی عمر کا شخص آیا اور پوچھا کہ کون سا جوس پینا ہے۔ میں نے کہا کہ بھائی ٹھنڈا پانی پلا دیں۔ مالک کے چہرے پر ناگواری سی گزری اور وہ بھی بے دلی کے ساتھ پانی کے کولر کی جانب روانہ ہوا۔ میں نے اپنے دوست سے آہستہ سے کہا کہ جوس بنانے والے شخص کے پاس جا کر مِکس جوس کا آرڈر دیں۔ بس آرڈر دینے کی دیر تھی کہ وہاں ناگوار رویوں میں تبدیلی آگئی۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص بڑا مہمان نواز تھالیکن مہنگائی کی وجہ سے وہ مہمانوں سے تنگ آگیا ہے لہٰذا اُس نے اپنے نوکروں کے نام کھارا ، باسی اور مہنگا رکھ لئے ہیں۔ جب کوئی مہمان آتا ہے تو وہ پکارتا کہ کھارا۔پانی لے لاؤ۔ مہمان جھٹ انکار کردیتا کہ مجھے پیاس نہیں لگی ہے۔ پھر پکارتا کہ باسی۔کھانا جلدی سے لے آؤ۔ مہمان اٹھ کھڑا ہوجاتا اور کہتا کہ مجھے بھوک نہیں لگی ہے اور گھر جانا ہے۔پھر وہ پکارتا کہ مہنگا۔رکشہ لے آؤ۔ یہ سب سُن کر مہمان رفو چکر ہوجاتا ہے۔ اختتام محمد مشتاق قریشی کے اس شعر سے کرتا ہوں۔جس میں موصوف نے گیس ، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے کہا تھا کہ کرایوں میں اضافہ ہو گیا اور ویگنوں کی جگہ چھکڑوں نے لے لی ہے اور گدھا نہ صرف ریڑھی بان کے خان دان کی کفالت کر رہا ہے بلکہ خود بھی پیٹ بھر کے چرتا ہے۔
ویگن کی جگہ چل پڑا چھکڑا
پیٹ بھرکر گدھے نے کھایا ہے
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 205 Articles with 265683 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.