تحریر: مہک سہیل ،کراچی
وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ ہماری توقعات سے زیادہ کامیاب رہا۔وزیر
اعظم کا تاریخی تین روزہ دورہ امریکا اختتام کو پہنچا۔ اس دورے کا واضح
تاثر یہی ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے مقابلے میں پاکستان اور امریکا کے
تعلقات میں مزید قربت کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ وقت بتائے گا یہ امید کتنی
درست ہے۔ صدر ٹرمپ نے دورہ پاکستان کے لیے وزیر اعظم کی دعوت قبول کرلی ہے
جو ایک مثبت اشارہ ہے تاہم ہمیں اس امید افزا ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے
محتاط رہنا پڑے گا۔ اس دورے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ اور دو
ایٹمی طاقتوں میں متوقع تصادم روکنے کے لئے کشمیر ایشو پر خاص اور کھلے
انداز میں اپنی بات رکھی گئی جسکا حل بہت ضروری ہے اور دنیا کی سب سے بڑی
طاقت کے صدر کی حیثیت سے آپ اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں جس پر ہمارے
وزیراعظم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرآپ ایسا کریں تو ایک ارب سے
زیادہ انسانوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوں گی۔ امریکی صدر کا یہ فی البدیہہ
بیان اس قدر غیر متوقع اور حیرت انگیز تھا، جس نے بھی سنا ایک مرتبہ اْسے
اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا لیکن صدر ٹرمپ سے ایسے بیانات کی توقع رکھی جا
سکتی ہے۔یہ وہی ٹرمپ تھے جنہوں نے 1 جنوری 2018 کو اپنے نئے سال کے پیغام
میں ٹوئٹ کیا تھا کہ ’امریکا نے بیوقوفی سے پاکستان کو15 سالوں سے زائد کے
عرصے میں امداد کی مد میں 33 ارب ڈالرز سے زائد کی رقم دی اور انہوں نے
جھوٹ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔لیکن حالیہ وزیراعظم عمران خان کے
دورے اور موجودہ امن صورتِحال کی ضرورت نے بیانات اور مذاکرات کو ایک نئی
جگہ پہنچا دیا ہے۔وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے دوران افغان امن اور دہشت
گردی خصوصی طور پر موضوع بحث رہے اس دورے میں افغانستان سے متعلق انتہائی
اہم امور زیر بحث آئے۔افغانستان میں 18برس سے جاری جنگ کا خاتمہ صدر ٹرمپ
کے بڑے انتخابی وعدوں میں شامل ہے۔آج کا افغانستان 2001 کے افغانستان سے
بہت مختلف ہے۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ پھر سے کسی باہمی ہلاکتوں کے
تنازع کے مرحلے میں نہ پھنس جائے۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ مورگن اورٹاگس
نے کہا اب پاک امریکا تعلقات میں پیشرفت کا وقت آگیا ہے، افغان امن عمل میں
امریکا کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، امریکا یرغمالیوں کی بازیابی کیلئے
پاکستان کے ساتھ قریبی کام کر رہا ہے دورے کے چند دن بعد ہی طالبان کے
سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے برطانوی خبر رساں ادارے سے فون پر گفتگو کرتے
ہوئے عندیہ دیا ہے کہ پاکستان نے دورے کی دعوت دی تو ضرور قبول کریں گے اور
وزیراعظم عمران خان سے ملیں گے کیونکہ پاکستان ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک
ہے اس حقیقت کو ترک کسی صورت نہیں کیا جاسکتا کہ سوویت یونین کی افغانستان
پر یلغار کے بعد پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کی جس طرح مدد کی پوری دنیا
جانتی ہے اور یہ بھی کہ لاکھوں افغان اب بھی پاکستان میں پناہ گزین
ہیں۔امریکہ، افغان حکومت اور طالبان کا پاکستان پر اعتماد ثابت کرتا ہے کہ
افغان امن عمل میں پاکستان کی کاوشوں کو نہ صرف تسلیم کیا گیا ہے بلکہ اس
معاملے کو خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچانے کے لئے پاکستان کو مرکزی کردار
بھی سونپا گیا ہے۔افغانستان کا معاملہ، جس نے چار دہائیوں سے دنیا بھر کے
امن کو خطرات سے دوچار رکھا، حل کرنے کا یہ اس لئے بہترین موقع ہے کہ
امریکہ اور افغان حکومت اس کی خواہاں ہیں اور طالبان بھی مذاکرات پر آمادہ
جبکہ پاکستان ہمیشہ سے اس کا خواہش مند رہا ہے۔امریکہ افغان امن اور دہشت
گردی کے حوالے سے ہمیشہ پاکستان سے ’ڈومور‘ کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن
پہلی بار صدر ٹرمپ نیاس کے مثبت کردار کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ
پاکستان کبھی جھوٹ نہیں بولتا، وہ افغانستان میں ہماری بہت مدد کر رہا ہے۔
امریکی صدر نے عمران خان کو پاکستان کا مقبول ترین وزیراعظم قرار دیا اور
کہا کہ اب پاکستان کے لئے امریکی امداد بحال ہو سکتی ہے انہوں نے یہ بھی
کہا کہ دونوں ملکوں میں باہمی تجارت دس سے بارہ گنا بڑھ سکتی ہے، نیز
امریکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا خواہاں اور اس کے ساتھ بہتر تجارتی و
اقتصادی تعلقات چاہتا ہے۔افغانستان میں 18برس سے جاری جنگ کا خاتمہ صدر
ٹرمپ کے بڑے انتخابی وعدوں میں شامل ہے، اسی لیے زلمے خلیل زاد کے طالبان
سے جاری مذاکرات کو 2020کے انتخابات سے قبل نتیجہ خیز بنانے کے لیے ان پر
تیزی سے گزرتے وقت کا دباؤہے۔ طالبان سے امن معاہدہ انتخابات میں دوبارہ
کامیابی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے لیے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔پاک امریکہ
تعلقات میں نیا موڑ نہ صرف برصغیر بلکہ عالمی امن کے لئے بھی نہایت اہمیت
کا حامل ہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے کھلے لفظوں میں پاکستان کو عظیم قوم اور
عمران خان کو اس عظیم قوم کا عظیم لیڈر قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ دعوت
ملی تو پاکستان کا دورہ کروں گا۔ ٹرمپ کی بیگم میلانیا نے بھی اپنے ٹویٹ
میں وزیراعظم عمران خاں کی کھلے لفظوں تعریف کی ہے۔اس کے ساتھ امید کی
جاسکتی ہے کہ جلد وزیراعظم عمران خان عافیہ صدیقی کو چھڑوا کر پاکستانیوں
کو مزید خوش کر سکیں گے اور امید ہے کہ جلد ہی پاکستان مزید مذاکرات کرے گا
اور ایک بار پھر ملکی معشیعت کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوگا لیکن ساتھ ہی
اس امید افزا ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے محتاط رہنا پڑے گا۔
|