مدارس کے طلباء اور مذہب کے نام پر سیاست ۔؟

مولانافضل الرحمن کے اکتوبرمیں اسلام آبادکی طرف مارچ کے اعلان کے بعد حکومت اورچندعناصرکی طرف سے دوباتیں بڑے زوروشورسے کہی جارہی ہیں پہلی بات یہ کہ مولانافضل الرحمن مدارس کے طلباء کوسیاست کے لیے استعمال کررہے ہیں دوسری بات مذہب کوسیاست کے لیے استعمال کیاجارہاہے ،ان دونوں باتوں کاجائزہ لیں تویہ محض الزامات نہیں ہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک ایجنڈہ کارفرماہے اسی ایجنڈے کے تحت یہ ،،ریمورٹ کنٹرول ،،سیاستدان اوردانشورمنفی پروپیگنڈہ کررہے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔

جہاں تک مدار س کے طلباء کوسیاست میں استعمال کرنے کاالزام ہے تومولانافضل الرحمن کومبارک باددینی چاہیے کہ گزشتہ چندسالوں میں دینی مدارس کے خلاف دہشت گردی اورانتہاپسندی کاملکی وبین الاقوامی سطح پرجوپروپیگنڈہ کیاگیا مولانانے وہ پروپیگنڈہ ختم کروادیاہے،یہ منفی مہم انتہائی زہریلی تھی مدارس کاکردارختم اورمعاشرے سے اس کے اثرات زائل کرنے کی جستجوتھی جواﷲ کاشکرہے کہ ختم ہوگئی ہے۔ اب مدار س کے طلباء پرنیاالزام آیاہے کہ وہ سیاست کے لیے استعمال ہورہے ہیں یہ الزام پہلے والے الزام سے کمترہے مگراس کے پیچھے بھی مدارس دشمنی ہی ہے اس الزام سے قبل ہمیں فیصلہ کرناہوگا کہ سیاست اچھی چیزہے یابری چیز؟اگرسیاست اچھی چیزہے توپھرمدارس کے طلباء کوبھی اس اچھائی میں شریک ہونے سے روکناظلم وزیادتی ہے اگریہ بری چیزہے توپھرمدارس کے طلباء کیاکسی کوبھی اس کے قریب نہیں جاناچاہیے ۔

ایک طرف حکومت اوراس کے ادارے مدارس کے طلباء کوقومی دھارے میں لانے کی کوشش کررہے ہیں ان کے نصاب اورنظام امتحان کوبدلناچاہتے ہیں حکومت اوراس کے اداروں کی خواہش ہے کہ مدار س کے طلباء بھی ڈاکٹر،انجینئر،سائنسدان بنیں ۔ اگرایسے میں مولانافضل الرحمن مدارس کے طلباء کوسیاسی سوچ دے رہے ہیں انہیں ملکی سیاست میں شامل کرنے کے لیے ان کی نظریاتی وفکری تربیت کررہے ہیں توہمیں مولاناکاشکریہ اداکرناچاہیے کہ جواتنابڑاکام کررہے ہیں بجائے اس کے کہ ہم ان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کریں ۔مگرچوں کہ ہمیں مدار س کے خلاف بات کرنے کی وجہ سے ہی ڈالرزملتے ہیں یہ ڈالراسی وقت ہضم ہوں گے جب ہم ہرصورت مدارس کے خلاف بات کریں گے یامنفی پروپیگنڈہ کریں گے ۔اس لیے یہ مہم جاری رہے گی ۔

حکومت کواسلام آبادمارچ کاخوف ہے وہ اس خوف کوختم کرنے کے لیے بھی مدارس کے طلباء کوڈھال بناکرپروپیگنڈہ کررہی ہے حالانکہ مولانافضل الرحمن نے ایک سال کے دوران پورے ملک (کراچی ،لاہور،سکھر،سرگودھا،رحیم یارخان ،پشاور،ڈیرہ اسماعیل خان ،مردان ،مانسہرہ ،لنڈی کوتل ،کوئٹہ )میں تقریباپندرہ ملین مارچ کیے ہیں جس میں لاکھوں کی تعدادمیں عوام نے شرکت کی مردان اورمانسہرہ ملین مارچ کامیں نے خود مشاہدہ کیا غیرجانب دارانہ تجزیہ کیاجائے توان جلسوں میں تیس فی صدمدارس کے طلباء اورباقی سترفی صدعوام تھے ۔مولانانے نہایت کامیابی سے خیبرپختونخواہ سے نکل کرپنچاب اورسندھ میں بھی انٹری ڈالی ہے ۔ان اجتماعات کی خصوصیت یہ تھی کہ لاکھوں کے اجتماع ہوئے مگرایک پتاتک نہیں ٹوٹا،کہیں دھینگامشتی نہیں ہوئی ،نہایت پرامن طریقے سے یہ ملین مارچ منعقدہوئے اس سے ملکی اوربین الاقوامی سطح پریہ تاثرگیا کہ مذہبی کارکن پرامن ہیں ضابطے اوراصول کے پابندہیں ۔

ملکی سٹیبلشمنٹ اورغیرملکی آقاؤں کوکسی صورت یہ ہضم نہیں ہورہاکہ مدارس کے طلباء یامذہبی جماعتیں ملکی سیاست میں بھی کوئی کرداراداکریں ان کی کوشش ہے کہ انہیں ہرصورت دیوارسے لگایاجائے اسی لیے ان کے خلاف مختلف الزامات کاسہارہ لیاجاتاہے ،ریاست مدینہ کے دعویدارحکومت میں بھی مدارس کے خلاف وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں جوماضی میں کیے جاتے تھے اس لیے یہ حکومت اورمذہب بیزاردانشورمدارس اورمذہبی جماعتوں کے خلاف کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے نہیں دیتے ۔

جہاں تک دوسرے الزام کاتعلق ہے کہ مذہب کوسیاست کے لیے استعمال کیاجارہاہے یہ الزام بھی ان عناصرکی طرف سے عائدکیاجارہاہے جنھیں مذہب سے خوف ہے اس کے پیچھے بھی ایک ایجنڈہ ہے یہی عناصرکل تک کہتے تھے کہ مذہب میں سیاست نہیں مگرجب وقت آتاہے تویہ اپنی سیاست کے لیے مذہب کوخوب استعمال کرتے ہیں موجودہ حکومت کوہی لے لیجیے جومذہب کوسیاست کے لیے استعمال کررہی ہے ریاست مدینہ کانعرہ لگایاجارہاہے اگرچہ اس نعرے کی آڑمیں بھی عوام کودھوکہ دیاجارہاہے مگرمذہب کواقتدارکے لیے استعمال کیاجارہاہے ،جب بھی مولانافضل الرحمن کادباؤبڑھتاہے توحکومت کی طرف سے مشہورمبلغ مولاناطارق جمیل کامذہبی کارڈ استعمال کرکے اس دباؤکااثرزائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

جہاں تک موجودہ حکومت کے ریاست مدینہ کے نعرے کاتعلق ہے توعام آدمی سے پوچھ لیں وہ بھی مذہب کے حوالے سے ان پراعتبارکرنے کوتیارنہیں اس کاعملی مظاہرہ کرواناہوتوکسی بھی مسجدمیں ایک عام عالم اورپی ٹی آئی کے وزیرکوامامت کے مصلے پر کھڑاکرکے دیکھ لیں عوام کس پراعتبارکریں گے ؟پی ٹی آئی کی حکومت نے کرتارپورہ راہداری کھول کرجومذہبی کارڈاستعمال کیاوہ درست تھا ؟وہاں سیاست کے لیے مذہب کواستعمال کرناجائزہے ؟ہمارے وزیراعظم نے بڑے فخرسے امریکہ میں بیٹھ کریہ کہاکہ مخالفت کے باوجود توہین رسالت کی ملزمہ آسیہ مسیح کورہاکرواکربیرون ملک بھیجاکیایہ مذہبی کارڈ اپنے حق میں استعمال نہیں کیا گیا ؟

موجودہ حکومت میں شامل کئی وزاراء نے مذہبی کارڈ کوالیکشن میں استعمال کرکے کامیابی حاصل کی وفاقی وزیرریلوے شیخ رشیدنے راولپنڈی کے تمام رکشوں پر مجاہدختم نبوت کے بینرزآویزاں کیے ،صوبائی وزیرصحت یاسمین راشدنے ممتازقادری اورختم نبوت کے نام پرووٹ حاصل کیے اس طرح بے شمارمثالیں موجود ہیں مگراب چوں کہ الیکشن ہوچکے ہیں اس لیے مذہب کااستعمال درست نہیں ۔ حالانکہ مذہبی جماعتیں اگراسلام کے نام نہیں لیں گی توپھردوسری کون سی جماعت اسلام یامذہب کانام لے گی ؟ہم توسمجھتے ہیں کہ پاکستان کاقیام ہی اسلام کے لیے ہواتھا دوقومی نظریہ کی بنیادپربننے والے ملک میں مذہب یا اسلام کانام لیناکیوں جرم بن گیا ؟اورریاست مدینہ میں تومذہبی ریاست تھی ایسی ریاست میں مذہب کوکیسے سیاست سے جداکیاجاسکتاہے ؟

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت ملک کوسیکولراورلبرل بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاست مدینہ کی دعویدارحکومت کے دورمیں یہ بھی ہواکہ ختم نبوت کانفرنس منعقدکرنے پردہشت گردی کے مقدمات قائم کردیے گئے ،دینی طبقوں اورختم نبوت کے محاذپرکام کرنے والی جماعتوں پرقدغنیں لگائی گئیں ان کے قائدین کوپابندسلاسل کیاگیا مگراس کے باوجود مذہبی جماعتیں ملکی سیاست میں بدستوراپناکرداراداکررہی ہیں ملک کے عوام تحفظ ناموس رسالت پرکوئی سمجھوتہ کرنے کوتیارنہیں ،تحفظ ناموس رسالت کے نام پرکسی بھی اجتماع میں عوام بھرپوراندازمیں شرکت کرتے ہیں ایک سال قبل ہونے والے الیکشن میں مذہبی جماعتوں نے پچاس لاکھ سے زائدووٹ حاصل کیے ،اس لیے کچھ قوتوں کویہ ہضم نہیں ہورہاکہ انہوں نے ملک کوسیکولربنانے کے لیے گزشتہ چندسالوں میں جوانوسٹمنٹ کی تھی وہ ضائع ہورہی ہے اب انہوں نے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیاکہ مذہب کوسیاست کے لیے استعمال کیاجارہاہے ۔

کچھ لوگ خفت مٹانے کے لیے یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کے جلسوں میں عوام بڑی تعدادمیں شرکت کرتے ہیں مگرانہیں ووٹ نہیں دیتے حالانکہ یہ بات بھی حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے عوام مذہبی جماعتوں کوووٹ بھی دیتے ہیں مگران جماعتوں کوایک خاص لائن سے آگے نہیں بڑھنے دیاجاتا گزشتہ سال ہونے والے الیکشن کاہی جائزہ لے لیں مذہبی جماعتوں نے حیران کن طورپرپہلے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے مگران کے ووٹ کونتیجہ خیزنہیں بننے دیاگیا اوربعض جگہ پران کاووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے دیگرسیاسی جماعتوں نے فائدہ اٹھا یاصاف وشفاف الیکشن ہوتے توخیبرپختونخواہ اوبلوچستان میں مذہبی جماعتوں کی حکومت ہوتی مگرپہلے الیکشن میں ان کاراستہ روکاگیا اوراب احتجاج سے انہیں روکنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے ثابت ہواکہ موجودہ حکومت بھی مذہبی جماعتوں کودیوارسے لگانے کے منصوبے پرعمل پیراہے ۔اصل میں یہ مذہبی جماعتوں سے خائف ہیں اوراسی طرف بلاول بھٹونے اشارہ کیاہے کہ مولانا کی حکومت آگئی توعمران خان کا کیا بنے گاتوبہ توبہ،،
 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 81688 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.