آخر کب مظلوموں کو انصاف ملے گا ۔

پچھلے دنوں جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو منظر عام پر آئی میں نے اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ' دوستوں نے پوچھا کہ تم نے تبصرہ کیوں نہیں کیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ معاملہ تبصرے والا نہیں بلکہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے, دوسرا میں انتظار کرکے قوم کا ردعمل دیکھنا چاہتا تھا , میں اپنے ملک کے دانشوروں کے دانشمندانہ تجزیات کو سننا چاہتا تھا - مگر افسوس اکیسویں صدی میں میرے ملک کے دانشور دو حصوں میں بٹ گئے کچھ کے خیال میں جج صاحب بیگناہ اور کچھ کے خیال میں وہ گناہ گار ٹھہرے - میری عادت ہے ہمیشہ دوسروں سے ہٹ کر سوچتا ہوں ۔ میرے نذدیک یہ پوری قوم کے لئیے باعث شرم ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے طاقتور لوگ موجود ہیں جو ججوں کو اپروچ بھی کرسکتے ہیں اور بلیک میل بھی کرسکتے ہیں -

یہ تو پاکستان کے ایک پاورفل خاندان کی کہانی ہے ' انکے علاوہ بھی ایسے طاقتور لوگ موجود ہیں جو ایسے گھناونے کام بڑے فخر سے کرتے ہیں اور مظلوموں کو انصاف سے محروم کردیتے ہیں , اگر کوئی مظوم دل جلا اس ظلم ناروا کے خلاف آہ کرتا ہے تو اسکی آواز جبر کے ساتھ دبا دی جاتی ہے - آخرکار مظلوم پھڑپھڑا کر جب تھک جاتا ہے تو اپنے دل نادان کو یہ سمجھانے کی کوشیش کرتا ہے کہ پاکستان کے سسٹم میں عام آدمی کو دینے کے لئیے کچھ نہیں- ایتھے کجھ وی نہیں بن دا - بہت کچھ جانتا ہوں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں چیخ چیخ کر حق سچ بتانا چاہتا ہوں مگر نہ لکھ سکتا ہوں نہ کہہ سکتا ہوں کیونکہ یہ اندھے بہروں کی گھٹن زدہ بستی ہے , یہاں ایسے ایسے قانون ہیں جو کمزور کے ہاتھ کی کڑی اور پاؤں کی بیڑی ہیں مگر وہی قانون طاقتور کے گلے کا ہار ہے ۔

کمزور آدمی عدالتی فیصلے پر آہ کرے تو میرے دیس کا قانون حرکت میں آتا ہے اور اسے توہین عدالت میں دھر لیتا ہے یہی کام اگر تگڑا بندہ کرے تو توجیع آجاتی ہے کہ عدالتی فیصلے پر فئیر کمنٹ کرسکتے ہیں ۔ میں نے عمرآن خان صاحب کو ووٹ دیا تھا کہ وہ ایک پاکستان کا نعرہ لگاتے تھے مگر افسوس نعرہ ایک انتخابی وعدہ ہی رہا دوسرے وعدوں کی طرح - ہوسکتا ہے کسی شخص کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ بڑے بڑے طاقتور لوگ پابند سلاسل ہیں تو گذارش ہے کہ وہ اک الگ ایشو ہے حکومتوں کی مجبوری ہوتی ہے آپ ان بڑی بڑی گرفتاریوں کا انجام دیکھنا اگر تو اس قوم کی پائی پائی قومی خزانے میں وآپس آگئی تو سمجھ لینا کہ قانون طاقتور کے لئیے بھی ہے وگرنہ کحھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔

میرا معاشرہ اتنا گھٹن زدہ ہے کہ یہاں ذہن تنگ ہوچکے ہیں ہم پارٹیوں کے غلام بن چکے ہیں , ہماری پارٹی جو کرے وہ جائز دوسری پارٹی کرے وہ ناجائز ۔ مہنگائی بے روزگاری کا طوفان آیا ہوا ہے مگر کیمرے کے سامنے ڈھٹائی سے لوگ مکر جاتے ہیں عجیب عجیب طویلیں دیتے ہیں ۔ جو بھی برسر اقتدار آتا ہے غریبوں مظلوموں کا مسیحا بن کر آتا ہے ہر کوئی کہتا ہے کہ میں غریب کا ہمدرد ہوں مگر بعد میں انتخابی وعدہ کہہ کر مکر جاتے ہیں ۔ میرے عظیم قائد نے پچاس لاکھ گھروں کا نعرہ مستانہ لگایا آج پتہ چلا یہ کام تو بڑا مشکل ہے , بیرون ملک سے نوکریوں کی تلاش میں لوگ تو نہ آئے مقامی لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے ۔ خدارا اور کچھ دو نہ دو مظلوموں کو انصاف مہیا کردو ۔ آخر کب تک یونہی بھٹکتے رہیں گے حصول انصاف کی خاطر ۔
 

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186403 views System analyst, writer. .. View More