عوام کی اضطرابی کیفیت

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ حکومت کی مشکلات بڑھتی اورحکومتی رٹ مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔عمران خان کے دعوؤ ں کے برعکس سیاسی ،معاشی اور اقتصادی حالات بد تر ہوتے جا رہے ہیں ۔دوا ساز کمپنیوں نے ڈرگ رگولیٹری اتھارٹی کا دواؤں کی قیمتیں کم کرنے کا حکم نامہ ہوا میں اڑا دیا ہے اور بدستور دواؤں کی قیمتوں میں 35سے 200فیصد اضافہ برقرار رکھا ہے ۔حالانکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے 9سے 15 فیصد اضافے کی اجازت دی تھی۔یہ سرکار کی حکم عدولی کا معاملہ صرف ادویہ ساز کمپنیوں تک محدود نہیں بلکہ اداروں کا رویہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے ۔کچھ ادارے جس میں بجلی ،گیس کمپنیاں،موبائل فون کمپنیاں شامل ہیں ،حکومت کی آشیرباد سے شہریوں کو بری طرح لوٹ رہے ہیں ۔عوام کی بے دردی سے کھال اتاری جا رہی ہے۔غریب عوام دونوں جانب سے پس رہی ہے،ایک جانب سرکار کے ٹیکس بڑھ رہے ہیں ،جس سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے،حکومت کی اقتصادی پالیسیوں نے ملک میں معاشی سرگرمیاں تقریباً منجمند کر کے رکھ دی ہیں ،جس سے عوام کی آمدنی کے ذرائع محدود ہو کر رہ گئے ہیں ۔دوسری جانب بجلی ،گیس کے بل اور ادویہ ساز کمپنیاں اور دیگر روزمرہ کی اشیاء کا کاروبار کرنے والے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔

عمران خان نے اقتدار حاصل کرنے سے پہلے بہت سے وعدے کئے ،مگر اب عوام کو بتائیں کہ جنہوں نے ان پر اعتماد کیا وہ کہاں جائیں ؟وہ اپنی ضروریات کہاں سے پوری کریں ؟حکومت کا تمام تر دارومدار قرضوں پر ہے ۔قرضے لینے کے لئے اثاثے گروی رکھنے پڑتے ہیں ،عوام اس بات سے بالکل بے خبر ہے کہ ان کے اپنے ملک کے کتنے اثاثے گروی رکھ دیئے گئے ہیں اور کتنے ان کے پاس باقی بچے ہیں ۔قرضے لینے سے کڑی شرائط بھی لاگو کی جاتی ہیں ۔پھر جس طرح ان شرائط کا نقصان ملک اور قوم کو ہوتا ہے ۔اس سے ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہوتا ہے۔

عمرانی حکومت کا دعویٰ تھا کہ تعلیم کو ترجیحات میں پہلا نمبر دیا جائے گا۔ یہ دعویٰ بھی ہوا ہو گیا۔حکومت کو ایک سال ہونے کو ہے ،پنجاب میں کالجز اور یونیورسٹیوں میں 75فیصد اساتذہ موجود نہیں ہیں ۔پنجاب اسمبلی میں وزیر موصوف ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہے ،مگر اس سے بچوں کی تعلیم پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ۔ہم 5000اساتذہ کی بھرتیاں ستمبر تک کر رہے ہیں ۔اسمبلیاں بے معنی ہو کر رہ گئیں ہیں۔اداروں کو متنازیہ بنا دیا گیا ہے ،سیاست الزام تراشی اور کردار کشی کا دوسرا نام ہو کر رہ گئی ہے ۔جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھا ہے ۔

عمران خان کی حکومت سے عوام کو بہت سی امیدیں وابسطہ تھیں ۔ماضی کے حکمران عوام کو بیوقوف بنانے کی سیاست کرتے تھے ۔جیسے پُل ،سڑکیں اور ظاہری پروجیکٹس کو اہمیت دیتے ،کیونکہ اسے دیکھ کر لوگ انہیں ووٹ دیتے تھے۔یہ ان کی سیاست کا انداز تھا ،مگر نئی نسل نے اپنا نمائندہ حکومت میں بھیجا اور اس سے توقع کی کہ وہ طریقہ سیاست کو جدّت دے اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے کام کرے ۔لیکن نمائندے نے بجائے عوام کی خدمت کے اپنی اور مقتدر طاقتوں کی خواہشات پوری کرنے کو اپنا محور بنا لیا ۔قرضوں کی بھرمار کر دی ،ڈالر کو بے لگام کر دیا ،جس سے ترقیاتی منصوبوں کی لاگت دگنی ہو گئی ،یہی وجہ ہے کہ ان کے تسلسل میں مشکلات کا سامنا ہے ۔عمران خان عوام کو مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ،سب ٹھیک ہو جائے گا،مگر کب سب درست ہو گا یہ بتانا گوارہ نہیں کرتے ۔کیونکہ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔کہنے کو عمران خان ملک کے وزیر اعظم ہیں ،مگر حقیقت سب جانتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ۔ورنہ ادارے سرکاری حکم ناموں کو کیسے ہوا میں اڑاتے ۔اوگرا اور نیپرا جیسے اداروں کو لگام دی جائے جو گیس اور الیکڑک کمپنیوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔

حکومت کو سیاسی مخالفین کی جنگ سے باہر نکل کر اداروں پر اپنی رٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ سب کو معلوم ہے کہ حکومت بجٹ خسارے سے دوچار ہے ،مگر کچھ ضروری ایسے کام ہیں ،جہاں پیسے کی ضرورت نہیں ہے ۔جیسے عمران خان انسان سازی کو اہمیت دیتے رہے ہیں ۔لیکن اب موقع ملا ہے تو انسان سازی پر بالکل توجہ نہیں ہے ۔چھوٹے شہروں کو چھوڑیں بڑے شہروں میں خوبصورت سڑکیں اور فٹ پاتھ تعمیر ہوئے ہیں ۔لیکن بے ہنگم ٹریفک نے بڑی سڑک کی افادیت کو ختم کر کے رکھ دیا ہے ۔فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لئے ہوتے ہیں ،مگر فٹ پاتھ پر دکانداروں نے قبضہ کر رکھا ہے ،ایک پیدل چلنے والا فٹ پاتھ کو استعمال نہیں کر سکتا ۔سڑک پر کھڑے ہو جائیں ۔تیزی سے سفر کرنے والوں کا رش ہو گا،لگتا ایسے ہے کہ یہ تمام لوگ اپنے کاموں کی وجہ سے بہت مصروف ہیں ۔لیکن اگر کسی بھی مصروف ترین سڑک پر کھڑے ہو کر پوچھا جائے تو ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جو کسی مثبت کام سے جا رہا ہو گا۔فارغ لوگوں کی بھر مار ہے ۔انہیں کہیں مصروف کرنے کی طرف حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اس سے حکومت کے خزانے سے رقوم نکالنے کی ضرورت نہیں ہے ۔صرف پالیسی بنانے کی ضرورت ہے،سمال انڈسٹری کو فروغ دیا جائے تو بہت سے نوجوانوں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور صرف اعلان کرنے کی نہیں بلکہ عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔اس وقت ملک میں بے روزگاری کے حالات یہ ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں چند ایک اسامیوں پر اشتہار آیا ہے ۔35ہزار نوجوانوں نے درخواست دی ہیں ۔نائب قاصد کے لئے ایم فل کی ڈگری رکھنے والے نوجوانوں نے درخواستیں جمع کروائی ہیں ۔یہ عمرانی حکومت کے لئے شرم کا مقام ہے ،جن نوجوانوں نے عمران خان کو اپنا مسیحا سمجھا اور اقتدار پر پہنچانے کے لئے اپنا پورا زور لگایا ،لیکن انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی ان کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔حکومت کا سال گزر گیا ہے اسی طرح اور وقت گزار لیں گے،پھر ان کا رونا یہی ہو گا کہ بہت بڑا مافیا تھا جن سے مقابلہ کرتا رہا ہوں اور اسی وجہ سے کچھ کر نہیں پایا ۔ لیکن اس وقت یہ مؤقف کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگا۔

کسی بھی حکومت کے رخصت ہونے کا عمل اسی وجہ سے شروع ہوتا ہے کہ با اثر ادارے اور افراد سرکاری احکامات کی علی الاعلان خلاف ورزی کردیتے ہیں ،مگر انہیں کوئی پوچھتا نہیں ۔حکومت اپنے سیاسی حریفوں سے جنگ کرنے اور انہیں دیوار سے لگانے کی بجائے اپنی زیادہ توجہ اپنے ہی اداروں پر رٹ قائم کرنے کی طرف دے ،اپنے حکم ناموں پر عملدرآمد کو یقینی بنا کر عوام کو ریلیف دے ۔ان مسائل پر توجہ دی جائے ،جہاں پیسے کی نہیں بلکہ نیک نیتی اور خلوص کی ضرورت ہے ۔ادارے موجود ہیں ،انہیں انسان سازی کے لئے اچھے طریقے سے استعمال کرنا ہی بہترین فن ہے ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95071 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.