سینٹ الیکشن اور منافقت کی سیاست

گزشتہ روز ہونے والے سینٹ الیکشن میں جتنے منہ اتنی باتیں اور کہنانیاں سامنے آرہی ہے۔ سینٹ الیکشن سے ایک روز پہلے اپوزیشن کی جانب سے نامز امیدوار میر حاصل بزنجو سے جب نجی ٹی وی کے سینئر صحافی حامد میر نے پوچھا کہ سینٹرز کو خریدنے یا کوئی دباؤ سامنے آیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی دباؤ یا پیسے کا استعمال کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں۔ یہی سوال عوامی نیشنل پارٹی کے خواتین سینٹر ستارہ ایاز سے بھی پوچھا کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ کوئی آفر یا دباؤ نہ مجھے آیا ہے اور نہ ہی میرے علم میں ہے۔ اس طرح تقریباً سب سینٹرز کی الیکشن سے پہلے رائے تھی جو اپ ریکارڈ کا حصہ ہے۔

سینٹ کیا ہے اس کا اہمیت یا رول کیا تھا اور اب کیا ہے اس بارے میں بتانے سے پہلے اس الیکشن کے متعلق بتا ؤ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سینٹ الیکشن یعنی سینٹرز منتخب ہونے میں بعض اوقات ملک کے دوسرے صوبائی ممبران کے علاوہ قبائلی اور بلوچستان کے ممبران کو پیسے دیے جاتے رہے ہیں جس کے بنیاد پر وہ پارٹی سے ہٹا کر ووٹ دیتے ر ہیں لیکن پیسے کے استعمال جس کو ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے اتنا نہیں کیاجاتا ، جتنا اس بارے میں واویلا یا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ۔ زیادہ تر اسمبلی ممبران پارٹی ہدایت کے مطابق ووٹ ڈالتے ہیں جبکہ چیئر مین سینٹ کو منتخب کرنا ان 104سینٹرز کا کام ہے لہٰذا یہاں پیسے کا استعما ل بہت ہی کم ہوتا ہے ۔ جتنا ہارس ٹریڈنگ یا خریدو فروخت کے متعلق بات اور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اس سے زیادہ اس میں صرف تعلقات اور اثرو رسوخ کی بات ہوتی ہے۔باقی سب پروپیگنڈا اور منافقت ہے۔

اس الیکشن میں بظاہر اپوزیشن کی تعداد زیادہ تھی لیکن اس کے باوجود تین ووٹوں سے اپوزیشن ہار گئی ۔ن لیگ ، پیپلز پارٹی ، مولانا فضل الرحمن سمیت سب کی چال اورتحریک عدم اعتماد ناکامی سے دو چار ہوئی ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار اپویشن کو کیا ضرورت پڑی یا چیئرمین سینٹ پر اعتراض تھا کہ انھوں نے تحریک عدم اعتماد جو سینٹ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا وہ لانے کی کوشش کی تو اس کا جواب صرف سیاسی گیم کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ بس صرف اس پر سیاست کی جائے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی پر پہلے تو پی ٹی آئی کے خود بھی اعتراضات تھے کہ وہ حکومت سے زیادہ اپوزیشن کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ سینٹ اچھی طرح چلا رہا تھا لیکن اپوزیشن نے تاریخ میں پہلی دفعہ اس راستے کا آغاز کیا جس پر چیئرمین سینٹ کو تبدیل کرنے کیلئے ووٹنگ ہوئی تو تین ووٹوں سے اپوزیشن کو شکست کا سامنا کرنا پڑاجس کے بعد اپوزیشن نے واو یلا شروع کیا کہ اس میں پیسے کا استعمال ہوا ، اپوزیشن کانامزد چیئرمین میر حاصل بزنجو جو کل تک کہہ رہا تھا کہ کوئی پیسے یا دباؤ نہیں انھوں نے الزام عسکری اداروں پر لگایا کہ ان کیوجہ سے میں الیکشن ہار جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے ہمنواؤں اور صحافیوں نے بھی یہ پروپیگنڈا زور و شور سے جاری کیا کہ اس میں عسکری ادارے انوال ہوئے جبکہ حکمران جماعت نے ایک ایک سینٹرز کو 70کروڑ روپے دیے جس کی وجہ سے عام قاری یا لوگ بھی ان کے پروپیگنڈے میں آتے ہیں کہ شاید یہ بات درست ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو ووٹ ڈالتے ہیں وہ عسکری اداروں کے لوگ نہیں بلکہ ان ہی سیاسی جماعتوں کے افراد اور سیاست دان ہوتے ہیں جنہوں نے ووٹ ڈالے اگر ان پراعتراض ہے کہ مخالف میں ووٹ کیوں ڈالا ہے تو پھر الیکشن کرانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ۔ ویسے ہی اس غریب اور مقروض قوم کا پیسہ ضائع کیا جاتا ہے ۔ان نام نہاد سیاسی جماعتوں کی سوچ یہ ہے کہ ہمارے ارکن صرف ہمارے کہنے پر ہی ووٹ ڈالے ، پھر جب ان کی جیت ہو تی ہے تو سب اچھا ہو تا جب ہار ملتی ہے تو ملک میں جمہوریت آزاد بھی نہیں ہوتی ان کے نمائندے بھی خرید ے جاتے ہیں ان کو دھمکیاں کی وجہ سے ووٹ مخالف پارٹی کو دینا پڑتا ہے ۔ یہ سب ڈرامہ بازی اور سیاست کی بنیادی تعلیم ہی کے منافعی باتیں ہے۔ اگر یہ سب کچھ اپ کے ارکان کرتے ہیں تو اس کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپکو نہیں مانتے یا اپ کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں جو کہ الیکشن کا بنیادی مقصد ہوتا ہے ۔ دس سال پہلے ان سیاسی جماعتوں نے ترامیم لائی تھی کہ کوئی شخص پارٹی ڈسپلن کے خلاف ووٹ نہیں ڈالے گا ورنہ اس کو پارٹی سے بدخل کیا جائے گا ۔ یہ ہے ہماری جمہوری پارٹیوں کی سوچ اور جمہوریت جس میں کوئی رکن ان کے خلاف رائے یا ووٹ نہیں ڈالے گا ورنہ ان کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔لیکن خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ارکان آزاد ہوتے ہیں کہ جس کو چاہے ووٹ ڈالے ۔ اگر اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ نہیں ڈالنے دیا جاتا اور واقع عسکری ادارے ان پر دباؤ ڈالتے ہیں تو ان سیاست دانوں سے گلی کا عام ووٹر ہزار گنا بہتر ہے کہ کم ازکم اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالتا ہے۔ ایسی سیاست میں ان جمہوریت پسندوں کو اسی دن خیر باد کہنا چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنا نقصان جمہوریت کو ان جمہور یت پسندپارٹیوں خاص ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے پہنچا یا وہ کسی ڈکٹیٹر نے بھی نہیں پہنچا یا ہے۔ خود ہی ہمیشہ سازشوں میں انوال رہے ہیں اور اپنے ارکان کی نیت اور جمہوریت پر شک کرتے ہیں وجہ صاف ظاہر ہے کہ لیڈرشپ خود جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی ،پہلے پارٹیوں میں جمہوریت پیدا کرو اس کے بعد اپنی نالائقی اور شکست دوسروں پرڈالوں۔

ہمارے سیاسی پارٹیوں اور حکمران جماعتوں میں جمہو ریت بہت تیزی کے ساتھ ختم ہورہی ہے ۔ سینٹ کا جو مقصد تھا وہ بلکہ ختم ہوا ہے کہ یہاں پر ملک کے بہترین سیاست دان، پڑھے لکھے افراد بیٹھیں گے جو جذبات ، پارٹی وابسطگیوں سے ہٹا کر ملک وقوم کی بھلائی کیلئے قانون سازی اور اظہار رائے دینگے جو اب دس سال سے تقریباً ختم ہوا ہے ۔ یہاں پر پارٹی چیئرمین کے وفادار لوگ سینٹرز بنتے ہیں جو قومی اسمبلی کی طرح صرف سیاست اور پوائنٹ سکورنگ کرتے ہیں ۔ سینٹ کو بالکل ختم کرنا چاہیے ، یہ صرف اس غریب قوم کا پیسہ ضائع کرتا ہے اس کی پاکستانی سیاست میں آج تک کوئی فائدہ سامنے نہیں آیا بلکہ خریدو فروخت اور ہارس ٹریڈنگ جیسے نامناسب الفاظ کی وجہ سے جمہوریت کی بدنامی ہوتی رہی ہے۔ وزیراعظم اور وزراء سینٹ میں جانا بھی پسند نہیں کرتے تو پوری قوم کو اس پر آواز بلند کرنا چاہیے کہ سینٹ کو ختم کرنا چاہیے ۔ باقی جو اپوزیشن سیاست اور پروپیگنڈا کررہی ہے ، یہ سب کچھ ان کا کیا ہوا ہے ۔ اس دفعہ بھی شاید اس طرح الیکشن ہوا جو پہلے ہوا کرتا تھا ، بعض تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اصف علی زرداری نے دوبارہ گیم کھیلی ہے ۔ ان کا نامز کردہ چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ وہی موجود ہے جو پہلے انہوں نے منتخب کیے تھے۔ اس وقت سب کچھ جمہوری تھا جبکہ آج عسکری اداروں کی سازش ہے ۔ منافقت کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے جس نے اس ملک میں سیاست اور عام ووٹر کو بدزن کیا ہے۔
 
جمہوریت میں الیکشن کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ خفیہ رائے شماری سے ارکا ن اپنے سوچ اور ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالے۔ جمہوریت کی بہتری اسی میں ہے کہ سب ارکان ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں۔ جہاں اعتراضات ہو وہاں قانون سازی کے ذریعے ووٹنگ کا طریقہ تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارے یہ سیاستدان پھر عوام کو بے وقوف کیسے بنائیں گے۔سب سے بڑی منافقت تو یہی ہے۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 201476 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More