کوٹ لکھپت جیل کے قیدی کے جس بیانیے کو لیکر اپوزیشن چلی
تھی انہی کے سلیکٹڈ سینٹرز نے اسکو بری طرح ریجیکٹ کردیا ہے جسکے بعد حکومت
گرانے کا دعویٰ کر نیوالی اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے اور وہ اپنی
پہلی کوشش میں ہی بری طرح ناکام ہوگئی حالانکہ ابھی محبتوں کے امتحان اور
بھی ہیں اس لیے اب اپوزیشن کو سمجھ لینا چاہیے کہ انکے اپنے لوگ بھی غیر
جمہوری اقدام میں انکا ساتھ دینے کو تیار نہیں عوامی محاذپر ناکامی کے
بعداپوزیشن بلخصوص ابو بچاؤ تحریک کے بانی اب اپنی سیاسی دکانداری چمکانے
کیلئے ملک میں انتشار اور فساد کی سیاست کر نا چاہتے ہیں مگر جو بدترین
شکست انہیں سینٹ سے ملی ہے اسی سے سبق حاصل کرلیں تو بہتر ہوگا ورنہ تو
انہوں نے حکومت کے خلاف جو بھی تحریک ،احتجاج یا جلوس نکالا اسکا التا اثر
انہیں ہی پڑا کیونکہ سینٹ میں واضح اکثریت کے باوجود صادق سنجرانی اور سلیم
مانڈوی والا کیخلاف عدم اعتماد کی قراردادیں مسترد ہو گئیں اس میں حیران کن
بات یہ تھی کہ اپوزیشن اتحاد سینیٹ میں عددی اکثریت ہونے کے باوجود چیئرمین
کو ہٹانے میں ناکام رہاصادق سنجرانی کیخلاف قرار داد پیش کرنے کی تحریک کے
حق میں 64اپوزیشن سینیٹرز جبکہ قرار داد پر خفیہ رائے شماری میں50 سینیٹرز
نے ووٹ دیا ،صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی قرار داد پر خفیہ رائے
شماری میں100ووٹ کاسٹ ہوئے،عدم اعتماد کی قرار داد کے حق میں50،مخالفت
میں45 ووٹ پڑے جبکہ5ووٹ مسترد ہو گئے،صادق سنجرانی کے حق میں اپوزیشن کے
9ووٹ بھی پڑے ۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کیخلاف حکومتی عدم
اعتماد کی تحریک کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا اور ووٹ کاسٹ نہ کیا۔لیکن اس
فیصلے کے خلاف 5اپوزیشن اراکین نے ووٹ کاسٹ کیا جن میں پیپلز پارٹی کے سلیم
مانڈوی والا، روبینہ خالد، محمد علی جاموٹ اور قرا العین مری جبکہ ن لیگ کے
ساجد میر شامل تھے۔ سلیم مانڈوی والا کیخلاف عدم اعتماد کی قرار داد پر
خفیہ رائے شماری میں39ووٹ کاسٹ ہوئے،عدم اعتماد کی قرار داد کے حق
میں32،مخالفت میں6 ووٹ پڑے جبکہ1ووٹ مسترد ہو۔ایک حکومتی سینیٹر نے بھی
سلیم ماندوی والا کے حق میں ووٹ دیا ۔جماعت اسلامی کے سینیٹر سراج الحق اور
سینیٹر مشتاق ایوان سے غیر حاضر رہے اور عدم اعتماد کی قراردادوں کی رائے
شماری میں حصہ نہ لیا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر بیرون ملک
ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہ ہو سکے۔بی این پی مینگل نے سینیٹ میں بھی
حکومت کا ساتھ دیااس ساری تفصیل کا مطلب یہ ہے کہ عوام نے اپوزیشن کے
بیانیے کو نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ نیب زدہ سیاستدانوں کو بتا بھی دیا ہے
کہ اب ہمیں گمراہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سینٹ ہی وہ ادارہ ہے جہاں نہ
صرف قانون سازی پر مہر تصدیق ثبت کی جاتی ہے بلکہ اسے ایوان بالا بھی کہا
جاتا ہے اور اس ایوان کا چیئرمین پیپلز پارٹی کا اپنا ہی بندہ تھا مگر
پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے ہاتھوں کھیل گئی جی ہاں یہ وہی جماعت ہے جسکے
سربراہ جناب میاں نواز شریف صاحب ہیں جو اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں ایک قیدی
کی زندگی گذار رہے ہیں اور انکے بارے میں جناب آصف علی زرداری کہا کرتے تھے
کہ میاں صاحب نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا تھااس لیے انکے ساتھ کسی قسم کی
کوئی راہ رسم نہیں بڑھائی جاسکتی مگر ایک بار پھر پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن
کے ہاتھوں سینٹ میں بری طرح ناکام ہوگئی اور اپنے ہی منتخب کیے ہوئے
چیئرمین سینٹ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی بلاول بھٹو زرداری نوجوان اور سیاسی
سوجھ بوجھ رکھتے ہیں اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ بار بار دھوکہ کھانے کی
بجائے اپنی سیاسی منزل کا تعین خود کریں نہ کہ کسی کے ہاتھوں کھلونا بن کر
اپنی رہی سہی سیاست کو بھی داؤ پر لگادیں کیونکہ انہی کاموں کی وجہ سے
پنجاب میں پیپلز پارٹی تقریبا ختم ہوچکی جو باقی بچی ہوئی ہے انکے لیڈروں
میں جنگ چل رہی ہے اور نیا ورکر پیدا نہیں ہورہا اس لیے بلاول بھٹو ایسے
مفاد پرستوں سے باہر نکلیں خواہ انکی پارٹی والے ہوں یا دوسری پارٹی والے
کیونکہ نقصان انہی کو پہنچے گا ایک اور اہم بات کہ جس طرح مسلم لیگ ن پنجاب
کو اپنا قلعہ سمجھتی تھی اور یہاں پر خادم اعلی اپنی انگلی کے اشارے سے
پورے پنجاب کو چلا رہے تھے انکے ایک اشارے پر بیوروکریسی الٹا لٹکنے کو بھی
تیار ہوجاتی تھی مگر حالات نے پلٹا کھایا اور اب پنجاب پر پی ٹی آئی کی
صورت میں عثمان بزدار حکمران ہے جو صوبے کے معاملات کو انتہائی سمجھ داری
سے چلا رہے ہیں اور اب خادم اعلی اپنی اور اپنے خاندان کی سیاست کو بچانے
میں مصروف ہیں جبکہ سندھ ابھی تک آپکے پاس ہے اور جو حال شیخ رشید نے
لاڑکانہ کا بتایاہے اس سے تو محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سندھ بھی
آپکے ہاتھ سے جاتا رہے گا اس لیے آپ نیب کے قیدیوں کے جھانسے میں آنے کی
بجائے سندھ میں اپنی سیاست پر زور دیں وہاں کے لوگوں کو مشکلات سے نکالیں
ابھی آپ نے بہت لمبی انگز کھیلنی ہے مخالفین کے جھانسہ میں آکر رن آؤں نہ
ہوجانا آخر میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری سینٹ کی
موجودہ صورتحال کے بعد ایک دلچسپ بیان بھی ملاحظہ فرمالیں کہ نہ ن لیگ کے
پاس کوئی بیانیہ ہے نہ پیپلزپارٹی کے پاس،صادق سنجرانی کی کامیابی سے سینیٹ
مضبوط ہوا ہے جمہوریت مضبوط ہوئی ، صادق سنجرانی خود بھی بہت بڑے کھلاڑی
ہیں ،پانچ ووٹ کس کے ضائع ہوئے ، پانچ ارکان تو سینیٹ میں جے یو آئی کے ہیں
سیاست مشکل کھیل ہے یہ غصے میں نہیں کھیلا جاتا ، ہم نے کوشش کی کہ اپوزیشن
اپنی تحریک واپس لے لے ،چیئرمین سینیٹ کو ہٹانا مناسب نہیں تھا ، وہ سینیٹ
کا توازن قائم کئے ہوئے تھے۔ |