مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا
فضل الرحمن14اکتوبر1980ءکے بعد جمعیت علمائے اسلام کے امیر بنے اور یہ
امارت آج تک قائم ہے ان کے والد نے1970ء کے انتخابات میں جہاں اپنے سیاسی
حریف ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دی وہاں مولانا فضل الرحمن اتنے ہی
پیپلزپارٹی کے قریب تصور کئے جاتے ہیں ۔اگر چہ انہوں نے قومی اسمبلی کے
انتخابات ہارے بھی اور جیتے بھی لیکن بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں وہ
پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شریک رہے جنرل پرویز مشرف کے دور میں
2004ءسے2007ءتک وہ قائد حزب ا ختلاف رہے۔ایم ایم اے کے جنرل سیکرٹری بھی رہ
چکے ہیں 18فروری2008کے انتخابات میں جب معلق حکومت بننے کے امکانات بڑھے تو
مولانا صاحب ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت میں شامل ہوگئے جس
میں دیگر جماعتوں میں مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم اور اے این پی شامل تھی لیکن
اس عرصہ میں مولانا صاحب نے اپنی سیاست کو” 73ء کے دستور اور آئین وقانون
کے مطابق“ اپنے مخصوص تلفظ کے ساتھ چلایا، وہ حکومت کو بلیک میل بھی کرتے
رہے اور کبھی بلیک میل بھی ہوتے رہے یعنی ایم کیو ایم کی طرح تھالی کے
بینگن ثابت ہوئے جو لڑھکتے بھی ہیں لیکن تھالی سے باہر جانے کے تاثر دینے
کے باوجود تھالی میں ہی رہتے ہیں لیکن بالاخر حج سکینڈل کے مسئلے پر اعظم
سواتی اور حامد سعید کاظمی کی بر طرفی کے فیصلے پر جے یو آئی ف نے حکومت سے
اعلانیہ علیحدگی اختیار کر لی اب یہی کام متحدہ قومی موومنٹ وفاق کے بعد
سندھ میں کر رہی ہے جبکہ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے آخری دن شروع
ہوگئے ہیں اور کسی بھی وقت ’بگ بریکنگ نیوز‘ آسکتی ہے۔اس تناظر میں مولانا
فضل الرحمن کی اپنی جائے رہائش ڈیرہ اسمعیل خان میں دیئے جانے والا حالیہ
بیان کہ حکومت کو لگے ہوئے ایم کیو ایم کے انجکشن کا سیاسی اثر ختم ہو رہا
ہے اور یہ کہ حکومت سمجھ جائے کہ کھیل اس کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے ہم تو
جمہوریت سے لاتعلق ہوچکے ہیں اب صرف تسبیح پڑھ سکتے ہیں جو گاﺅں میں بیٹھ
کر پڑھ رہا ہوں ۔معلوم نہیں مولانا کی جمہوریت کے کیا معنی ہیں کہ جب وہ
شریک اقتدار ہوں تو جمہوریت اپنے مخصوص معنی پہن لیتی ہے اور جب وہ اقتدار
سے باہر ہوتے ہیں تو لاتعلقی کا اظہار کرنے لگتے ہیں جہاں تک تسبیح کا تعلق
ہے تو یہ یقیناً بے نظیر بھٹو والی تسبیح ہوگی جس پر آیت الکرسی کم اور
کرسی زیادہ پڑھی جاتی ہو گی ،ویسے ہمارے کچھ اور سیاست دان بھی پارلیمنٹ
میں موجود ہیں جو باقاعدگی سے تسبیح پڑھتے ہیں بلکہ دو دو دانے بیک وقت
پڑھتے ہیں،کچھ تو پڑھتے بھی ہیں اور میڈیا کے نمائندوں سے باتیں بھی کرتے
رہتے ہیں ایسا انہماک ہمیں مولانا فضل الرحمن کی شخصیت میں نظر نہیں آیا کہ
وہ پارلیمنٹ میں عوامی خدمت کے جذبے سے آتے ہیں اور تسبیح کو چھوڑ دیتے ہیں
اب جبکہ خدمت خلق بذریعہ اسمبلی کا رستہ بند ہوگیا ہے تو وہ اپنے گاﺅں میں
بیٹھ کر تسبیح کے دانے پڑھنے لگے ہیں،جو یقیناً اچھی بات ہے لیکن کیا
مولانا فضل الرحمن بتائیں گے کہ اب کے بار اگر تسبیح” کا میاب“ ہو گئی تو
وہ کتنی اراضی،کتنی وزارتیں اور کتنے عہدے لیں گے؟ |