میں اسے پاکستان کی بد قسمتی پر
ہی معمول کرو ں گا کہ اس کی تخلیق کے ا بتدائی سالوں میں ہی بابا ئے قوم
حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح اس جہانِ فانی سے ر خصت ہو گئے۔ ان کی رخصتی
سے جو خلا پیدا ہوا تھا اس خلا کو پر کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ قائدِ اعظم
محمد علی جناح جیسی نابغہ روزگار شخصیتیں تاریخ میں کبھی کبھار جنم لیتی
ہیں۔ خان لیاقت علی خان تحریکِ پاکستان کے ایک انتہائی اہم را ہنما تھے اور
آزادی کی تحریک میں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوا یا تھا۔ وہ
قائدِ اعظم کے معتمدِ خاص تھے اور ان کی بحیثتِ وزیرِ اعظم پاکستان نامزدگی
بھی قائدِ اعظم محمد علی جناح نے خود ہی کی تھی لہٰذا قائدِ اعظم کی بے وقت
رحلت سے ان کی قیادت امید کی ایک کرن تھی۔ان کی موجودگی میں اسٹیبلشمنٹ اور
فوجی جنتا کو حکومتی امور میں مداخلت کی ہمت نہیں تھی۔ لیاقت علی خان ملکی
معاملات کو تحریکِ پاکستان کی سینئر اور جہاندیدہ قیادت کی باہمی مشاورت سے
رو بعمل لاتے تھے لہٰذا کسی طالع آزما کے لئے جمہو ری روایات کو روندھنے
اور شب خون مارنے کی گنجائش نہیں تھی۔
خان لیاقت علی خان کی شہادت کے ساتھ ہی محلاتی سازشوں کا آغاز ہو گیا اور
کچھ غیر جمہو ری طاقتوں نے جمہوری بساط کو لپیٹنے کی در پردہ تیاریاں شروع
کر دیں۔ اس سازش کا با قاعدہ اظہار اس وقت ہوا جب اس وقت کے کمانڈر انچیف
محمد ایوب خان کو وزیرِ دفاع بنا دیا گیا ۔ ان کی بحثیتِ وزیرِ دفاع
نامزدگی ملکی معاملات میں فوج کے عمل دخل کا نقطہ آغاز تھا اور پھر دیکھتے
ہی دیکھتے فوج کا اثرو رسوخ دن بدن زور آور ہو تا چلا گیا اور جمہو ریت
لمحہ بہ لمحہ کمزور ہو تی چلی گئی۔ اقتدار کی خاطر سیاستدانوں کی باہمی لڑا
ئی اور سر پھٹول کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہو ئے فوج کے کمانڈر انچیف محمد
ایوب خان نے اکتوبر ۸۵۹۱ کو ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کر دیا اور تحریکِ
پاکستان کی ساری قیادت کو ایبڈو کے قانون کے تحت دس سال کے لئے نا اہل قرار
دے دیا ۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان جیسی قد آور
شخصیات کی عدم موجودگی میں کسی راہنما کو بھی فوجی حکومت کے سامنے کھڑے
ہونے کی جرات نہ ہو سکی۔مارشل لا لگنے کی دیر تھی کہ بہت سے سیاست دان فوجی
حکومت کے دست و با زو بن گئے اور جمہوریت پر جنرل ایوب خان کے شب خون کے
حمائیتی بن کر شریکِ اقتدار ہو گئے اور یوں پاکستان اپنی تخلیق کے ابتدائی
سالوں میں ہی فوجی آمریت کے بے رحم پنجوں میں گرفتار ہو گیا جس نے اس کی
یکجہتی اور اتحاد کو پارہ پاہ کر کے رکھ دیا۔۔
سیاست دانوں کی طرح عدلیہ نے بھی فوج کے ساتھ ساز باز کر رکھی تھی لہٰذا
عدالتوں نے نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لا کو جائز قرار دے کر ملکی معاملات
میں فوج کی مداخلت کا قانونی جواز مہیا کر دیا۔ عدلیہ کے انہی جمہوریت کش
فیصلوں کا سہارا لیتے ہو ئے وقفے وقفے سے فوجی جنرل ملک پر مارشل لا نافذ
کرتے رہے اور پچھلے ساٹھ سالوں سے ہم یہی تماشہ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ فوج
عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ سیاستدان باہم مل کر اس اس ملک کو نوچ رہے
ہیں اس کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہے جس کا سب سے بڑا المیہ ۱۷۹۱ میں مشرقی
پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ جمہو ریت کے لئے پاکستانی عوام
کی محبت کا اندازہ اس امر سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اس نے تمام آمروں کے
خلاف اپنی شاندار جمہو ری جدو جہد سے انھیں اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ سب
سے پہلے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی آمریت کے خلاف بھر پور تحریک چلا کر
انھیں مستعفی ہو نے پر مجبور کیا۔ یہی کچھ یحیی خان کی آمریت کے ساتھ بھی
کیا اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف تو پاکستان کا بچہ بچہ سڑکوں پر
نکل آیا تھا تبھی تو جنرل پرویز مشرف کواقتدار چھوڑ کر جلاوطنی اختیار کرنی
پڑی تھی لیکن باعثِ حیرت ہے کہ میاں برادران فوج اور عدلیہ کو اقتدار پر
قبضے کی دعوت دے کر آمریت کی اسی المناک کہانی کو ایک بار پھر دہرانا چاہتے
ہیں اور اس ملک پر ایک نئے فوجی شب خون کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے
ہیں۔
میاں شہباز شریف نے چند دن قبل ایک تجویز پیش کی کہ سیاستدان فوج عدلیہ اور
سول سوسائٹی باہم مل کر اس ملک کے معا ملات کو چلا ئیں کیونکہ پاکستان ایک
ایسے دوراہے پر آن پہنچا ہے جہاں پر سارے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر
ملکی معاملات کو چلا نا ہو گا۔ میاں شہباز شریف کی خدمت میں مودبانہ گزارش
ہے کہ ابھی چند دن قبل تو آپ نے پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب کی مخلوط (
کو لیشن) گورنمنٹ سے بڑی بے رحمی سے باہر نکا لا ہے۔کیا آپ کو پی پی پی کو
پنجاب کی حکومت سے بے دخل کرتے وقت قومی مفادت یاد نہیں تھے اور قوم کے درد
سے آپ کو سینے میں کسی تموج کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ اس
عجوبہ روزگار نئی تجو یز کے پیچھے میاں برادران کے بہت سے ذاتی عزائم چھپے
ہو ئے ہیں جو پی پی پی کو اقتدار سے بے دخل کر کے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
یہ نئی تجویز پی پی پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی سب سے بھونڈی کوشش ہے۔۔
لوٹے کیا ملے میاں برادران سارے سیاسی اور جمہو ری آداب بھو ل گئے ۔اس میں
کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چائیے کہ موجودہ عدلیہ اور پی پی پی کی وفاقی
حکومت میں تعلقات انتہائی خراب ہیں دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کا
کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انتشار بد امنی اور مخا صمت کے اس خاص
دور میں میاں برادران نے فوج اور عدلیہ کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر اپنا
سیاسی مستقبل محفوظ بنانا مناسب سمجھا تاکہ اگر کل کو کوئی جرنیل آئین سے
ماورا قدم اٹھانے کا فیصلہ کرے تو نئے حکومتی اختیار و ارادہ میں میاں
برادران کا کردار زندہ رہے۔ ٹیکنو کریٹ کی حکومت کا آج کل بہت چرچا ہے اور
پاکستانی عدلیہ جس طرح وفاقی حکومت کی درگت بنا ئے ہو ئے ہے اس سے اس خیال
کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ مستقبل قریب میں نئی صف بندی ظہور پذیر ہو گی
لہذا میاں برادرن نے اپنی ترجیحات فوج اور عدلیہ کے ساتھ وابستہ کر کے جمہو
ریت سے اپنی بریت کا اعلان کر د یا ہے۔
ابھی تو کل کی بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف وکلا نے ایک ملک
گیر تحریک چلا ئی تھی جس میں سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے بھر پور حصہ
لیا تھا۔ پی پی پی تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے بھر پور زور لگا یا
تھا۔ وکلا برادری اور پی پی پی کے بہت سے کارکنوں کو جان کا نذرانہ بھی پیش
کرنا پڑا تھا۔ چونکہ پوری قوم اس تحریک کے پیچھے کھڑی تھی لہٰذا اس تحریک
کو کامیابی سے ہمکنار ہونا تھا اور یہ کامیابی سے ہمکنار ہو گئی۔لیکن کیا ا
س ساری تحریک کا مقصد آزاد عدلیہ کا قیام تھا یا عدلیہ کو اقتدار کا منصب
عطا کرنا مقصود تھا ۔ کیا یہ وکلا کے خون سے غداری نہیں ہے کہ وہ تحریک جس
نے اس ملک میں آزاد عدلیہ کی بنیا دیں رکھی تھیں اسی عدلیہ کو میاں برادران
اپنے ذاتی اقتدار کے حصول کی خاطر پسِ پشت ڈال رہے ہیں۔دل خون کے آنسو روتا
ہے کہ وہ تحریک جس کا واحد مقصد آزاد عدلیہ کا قیام اور قانون کی حکمرانی
تھا آج اسی تحریک کو سبو تاژ کر کے ذاتی مقاصد کےلئے استعمال کرنے کی ناپاک
جسارت ہو رہی ہے اور ہمیشہ کی طرح اسے ملکی مفادات کے تخفظ کا نام دے عوام
کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
میاں شہباز شریف کی تجویز در حقیقت ان کا اعترفِ شکست بھی ہے کہ ان میں
قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے اور اب انھیں حکومت چلانے کے لئے فوج اور
عدلیہ کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے ۔ پوری دنیا کو علم ہے کہ آئین میں عدلیہ
فوج اور پارلیمنٹ کے دائرہ کار اور اختیارات کا تعین ہو چکا ہے لہٰذا کسی
کو بھی ماورائے آئین تجویز پیش کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہیے ۔کیا دنیا
میں کہیں ایسا ہوتا ہے کہ عدلیہ اور فوج حکمرانی کی مسند پر بیٹھ جائیں اور
سیاست دانوں کے ساتھ مل کر امورِ مملکت سر انجام دینا شروع کر دیں ۔ اندھیر
نگری چو پٹ راجہ کی مملکت میں تو یہ فارمولا چل سکتا ہے لیکن جس ملک میں
آئین و قانون کی حکمرانی ہو وہاں پر اس طرح کی کسی تجویز کے بارے میں سوچنا
بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ کچھ زر خرید صحافی اس
تجویز پر بھی دادو تحسین کے ڈھنڈورے برسا ئیں گے اور اس غیر منطقی اور نا
معقول تجویز کو عقل و دا نش کا بہترین نمونہ قرار دے کر آپنے آقاﺅں کو خوش
کرنے کی کوشش کریں گے۔ک ارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔
اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہو نا چاہیے کہ میاں برادران کی سیاسی تربیت
جنرل ضیا ا لحق کے زیرِ سایہ ہو ئی ہے لہٰذا جنرل صاحب کے بہت سے خصائص
میاں برادران کے اندازِ سیا ست میں بڑے نما یاں نظر آتے ہیں۔پنجاب سے تعلق
رکھنے کی بنا پر میاں برادراں کا جنرلوں سے ایک خاص رابطہ اور تعلق رہا ہے
اور جلا وطنی کے دنوں میں بھی یہ تعلق اسی طرح قائم تھا۔ ۸۸۹۱ کے انتخابات
میں جنرل حمید گل نے ہی اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جی آئی) کی بنیادیں رکھی
تھیں اور پیپلز پارٹی کی جیت کا راستہ روکا تھا۔جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں
لگ گیا داغ اسی دور کا ایک نعرہ ہے جسے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں
پیپلز پارٹی کی فتح کو روکنے کےلئے استعمال کیا گیا تھا۔ فوج کی ایما پر
پنجاب سے اسلامی جمہوری اتحاد کی فتح کو یقینی بنا نے کے لئے بے شمار
اقدامات کئے گئے اور یوں قومی اسمبلی کے انتخا بات میں واضح اکثریت حاصل
کرنے والی پی پی پی صوبا ئی انتخابات میں اقلیتی جماعت بنا دی گئی۔ میاں
محمد نواز شریف کو وزار تِ اعلیٰ کا حلف دلوانے کے بعد محترمہ بے مظیر بھٹو
کو کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھانے
کی دعوت دی جو جمہوری اصولوں کی صریحاً نفی تھی۔ آمریت کی باقیات نے مکمل
کوشش کی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا راستہ روکا جائے لیکن انھیں ناکامی کا
سامنا کرنا پڑا کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو عوامی امیدوں کی بھرپور آواز
تھی۔عوامی طاقت کی علامت محترمہ بے نظیر بھٹو ایک طرف تھی اور رجعت پسند
ساری قوتیں دوسری جانب کھڑی تھیں جن کا واحد مقصد عوامی راج کا راستہ روکنا
تھا لیکن کسی کے روکنے سے بھلا سویرا کب رکا کرتا ہے۔اسے تو ظہور پذیر ہونا
ہوتا ہے اور وہ ہو کر رہتا ہے چاہے دھرتی کی ساری قوتیں اسے روکنے پر بضد
ہو جا ئیں۔۔۔۔
میاں شہباز شریف کی یاد دہانی کے لئے عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ جب
میاں محمد نواز شریف وزیرِ اعظم پاکستان تھے تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل
جہانگیر کرامت نے نیشنل سیکورٹی کونسل کے قیام کی کی تجویز پیش کی تھی ۔
انھوں نے مزید کہا تھا کہ حالات کی نزاکت کے پیشِ ِ نظر ملکی معاملات کو
چلانے کے لئے نیشنل سیکورٹی کونسل کا قیام انتہائی ناگزیر ہے تا کہ فوجی
قیادت اور سیاستدان باہم یکجا ہو کر ملک کو موجودہ غیر یقینی صورتِ حال سے
نجات دلائیں۔میاں برادران اس تجویز سے ا تنے سیخ پا ہو ئے تھے کہ جنرل
جہانگیر کرامت کو گھر بلا کر انھیں استعفے دینے پر مجبور کیا۔پاکستان میں
کسی بھی جنرل سے ا س طرح استعفے لینے کا یہ با لکل انوکھا واقعہ تھا اس
واقعہ نے فوج کے اندر نفرت کے بیج بونے میں اہم کردرا ادا کیا جسکا مظاہرہ
ہم نے ۲۱ اکتوبر ۹۹۹۱ کو اس وقت دیکھا جب جنرل پرویز مشرف نے شب خون مار کر
اقتدار پر قبضہ کر لیا اور میاں برادران کو اپنی جان بچا نے کے لئے ایک دس
سالہ معاہدے کے تحت سعودی عرب میں جلا وطن ہونا پڑا لٰہذا اب میاں برادراں
فوج کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتے اور موجودہ تجویز کو اسی تنا ظر میں
دیکھا جانا چاہیے۔ رات کے اندھیروں میں چھپ چھپ کر ملنے والوں سے جمہوری
رویوں کی امید رکھنا بنجر زمین سے ا ناج کی توقع رکھنے کے مترادف ہے۔
بے قدراں دی یاری کولوں فیض کسے نیں پایا ۔۔ ککر تے انگور چڑا یا تے ہر
گچھا زخمایا (میاں محمد)
امید کی موہوم سی چنگاری ر وشن ہو ئی تھی کہ میاں برادر ان دس سالہ جلا
وطنی کے بعد اپنی پرانی عادات کو ترک کر کے جمہوریت کی ترویج کے لئے اپنے
آپ کو وقف کر دیں گے اور جمہو ریت کی راہ میں مزاحم ہو نے والی ہر قوت سے
ٹکرا جائیں گے لیکن عوام کی حیرت کی کو ئی انتہا نہ رہی جب میاں شہباز شریف
نے فوج اور عدلیہ کو حکومت میں سانجھے داری کی دعوت دے ڈالی۔ سانجھے کی
ہنڈیا چو راہے میں صدیوں پرانا معقولہ ہے اور یہ معقولہ ہر دور میں سچ ثابت
ہوا ہے ۔ حکومت میں سانجھے داری کے بغیر ہی آرمی چیف کی دھشت جس طرح
سیاستدانوں پر حاوی ہو تی ہے وہ کو ئی سربستہ راز نہیں ہے لیکن اگر میاں
برادران کے فارمولے کو رو بعمل لانے کا فیصلہ ہو گیا تو سیاستدانوں کی
گھگھی بندھ جا ئے گی اور ان کی وہی کیفیت ہو گی جو جنرل محمد ایوب خان کے
ہاتھوں ۸۵۹۱ میں ہو ئی تھی۔، قوموں کا سفر آگے کی جانب ہو تا ہے لیکن
پاکستانی قوم کی بد قسمتی ہے کہ اس کا سفر پیچھتے کی جانب ہے کیونکہ اس ملک
کی قیادت بڑے فیصلے کرنے کی قوت سے محروم ہے۔
قافلے میں آج میرِ کارواں کوئی نہیں۔۔یہ زمیں ایسی ہے جس پر آسماں کوئی
نہیں
صحنِ گلشن میں کہاں شاخِ چمن پر برگ و بار۔۔اس خزاں دیدہ چمن میں باغباں
کوئی نہیں
(ڈاکٹر مقصود جعفری) |