پاکستان کی تاریخ میں ایک بار پھر حالات ایسی نہج پر آگئے
ہیں کہ جہاں ہمارا ملکی وقار اور عزت داؤ پر لگ گئے ہیں۔ ایک محبِ وطن
پاکستانی ہونے کے ناطے میرا دل وطنِ عزیز پاکستان سے ہزاروں میل دور بیٹھے
خون کے آنسو رو رہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ میرا وطن جو اس وقت شاید تاریخ کے
بدترین معاشی و سیاسی حالات سے گزر رہا ہے اور ایسے میں بھارت کے منتخب
ایوانوں نے پاکستان کی شہ رگ کو کاٹ دینے کے پورے منصوبے بنالیے ہیں۔
کشمیریوں کو رسوا اور سرِ بازار شہید کیا جارہا ہے۔ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں
کی عزتیں محفوظ نہیں لیکن عالمِ اسلام خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
چین،ملیشیا اور ترکی کے علاوہ کہیں سے پاکستان کی حمایت میں آواز نہیں اٹھی۔
کل پاکستان کے ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا جو
ایک بہت ہی خوش آئند بات تھی لیکن اجلاس میں جو ہوا وہ سب جانتے ہیں۔ وزیرِ
اعظم پاکستان نے کسی حد تک سلجی ہوئی گفتگو کی لیکن قائدِ حزبِ اختلاف کی
تقریر کے دوران ان کے چہرے کے تاثرات بتاتے تھے کہ وہ اس تقریر کو بادلِ
نخواستہ سن رہے ہیں اور پھر وہی ہوا جو پاکستان کے ایوانوں میں ہوتا ہے جو
کم ازکم اس موقع پر تو نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہ اجلاس تو اس لیے
بلایا گیا تھا کہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے
لیے کسی ایک متفقہ لائحہ عمل پر پہنچا جاسکے اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا
جا سکے کہ من حیث القوم ہم ایک ہیں اور جب بھی کوئی قومی مسئلہ ہو گا ہم
اپنے اختلافات بلائے طاق رکھ کر ملی یکجہتی کا وہ مظاہرہ کریں گے کہ جس کی
دوسری قومیں مثال دیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ایسے موقعے پر بھی حزبِ
موافق اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کے مقابل ہی نظر آئے۔
دوسرے دن کے اجلاس میں تو حد ہوگئی جب ایک بار پھر بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا
گیا۔ قوم کے منتخب نمائندوں کے اجلاس میں کوئی کسی کوبے غیرت کہتا ہے تو
کوئی کسی شٹ اپ کال دیتا ہے۔اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو یہ نئی نسل کو
تباہی کے دہانے پر لے جائیں گے۔ہمیں شاہد حالات کی نزاکت کا احساس نہیں یا
پھر ہم نے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لی ہیں اور اپنی روش پر قائم ہیں۔بقول
غالب:
ع وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
موجودہ پارلیمنٹ جس کا مشترکہ اجلاس ابھی جاری ہے اس میں قوم کے نو نہالوں
کو تاریخ کے سبق پڑھائے جارہے ہیں اور شدتِ جذبات میں کچھ علم نہیں کہ کون
سی بات کہاں اور کس انداز میں کرنی ہے۔ پارلیمنٹ وہ ادارہ ہوتا ہے جہاں
پوری قوم اپنے نمائندوں سے سلجی ہوئی، عاقلانہ، مدبرانہ اور منطقانہ گفتگو
سننے کے منتظر ہوتے ہیں نہ کہ عقل و تہذیب سے عاری۔
اب ذرا اسمبلی سے باہر آجائیے!ذرا دیکھیے کہ ہمارا بحیثیت قوم مزاج کیسا
ہے؟ اس وقت جب کہ ملک اپنے سنگین ترین حالات سے گزر رہاہے اس کے باوجود
پریس کانفرنسوں کی بھر مار ہے۔ خدا کے بندو کسی بھی الزام بھلے کسی پر بھی
لگے اس کا ایک طریقہ کار ہے اور اس کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالتیں موجود
ہیں۔کم از کم ملک کے نازک حالات میں تو صبر کر لینا چاہیے بلکہ ایسے ثبوت
جمع کرکے عدالتوں میں کیسز فائل کر دینے چاہیں نہ کہ صحافیوں کو بلا کر ان
کے ذریعے خبریں پھیلائیں جائیں اور ملک کو مزید انتشاری سیاست میں جھونکا
جائے۔ وزیراعظم کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے دائیں بائیں دیکھیں، کہیں
یہ لوگ آپ کی جگ ہنسائی کا موجب نہ بن جائیں۔
|