ہمارا ملک ہندوستان جو بڑی مشقتوں اور قربانیوں کے بعد
انگریزوں کے شکنجوں سے آزاد ہوا ،اس کی آزادی میں جہاں عوام نے اپنا خون
جگر سینچا اور اپنے جان ومال کی قربانیاں پیش کی ہیں ،علمائے کرام کو تحریک
آزادی کی جرم میں سولی پر لٹکایا گیا ہے وہیں اردو صحافت کا بھی اہم کردار
رہاہے ۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں اردو صحافیوں نے جو کارہائے نمایاں انجام
دیئے ہیں ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا اور ساتھ ہی جنگ
آزادی ۱۸۵۷ء میں اردو صحافت کے قائدانہ کردار کا انکار نہیںکیا جاسکتا۔اس
لیے کہ اس جنگ کی چنگاری کو اردو اخبارات ہی نے شعلہ جوالہ بنایاتھا جس سے
پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف نفرت کا آتش فشاں پھوٹ پڑاتھا ،وہ اردو
اخبارات ہی تھے جوعوام کے دلوں میں جنگ آزادی کا صور پھونک رہے تھے اور
مجاہد ین کے دلوںمیں آزادی کا آلائو روشن کررہے تھے ۔وہ اردو صحافی ہی
تھے جو اس ’’جرم عظیم ‘‘کی پاداش میں فرنگیوں کے ظلم واستبداد کے شکار بن
رہے تھے اور دارورسن کو لبیک کہہ رہے تھے ۔
آیئے سب سے پہلے صحافت کی لغوی واصطلاحی مفہوم سمجھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ
وہ کون کون سے خوش نصیب صحافی تھے اور کون کون سے اخبار تھے جواس اہم فریضے
کی ادائیگی اور فرنگیوں کے ظلم واستبداد سے اس ملک کو آزادکرانے میں
اپناخون پسینہ بہارہے تھے ۔
صحافت کا لغوی مفہوم: صحافت عربی زبا ن کا لفظ ہے جو ’صحف‘ سے ماخوذ ہے جس
کے لغوی معنی کتاب یا رسالے کے ہیں۔ یعنی ایسا مطبوعہ مواد، جو مقررہ وقفوں
کے بعد شائع ہوتا ہے صحافت کہلاتا ہے۔ اردو اور فارسی میں یہی اصطلاح رائج
ہے جبکہ انگریزی میں اسے Journalism کہا جاتا ہے۔ جو ’’جرنل‘‘ سے ماخوذ ہے۔
جس کے معنی روزانہ حساب کا بہی کھاتا یا روزنامچہ کے ہیں ۔جنرل کو ترتیب
دینے والے کے لئےJournalist یا صحافی کی اصطلاح رائج ہے۔ ایسے صحافی جو اس
پیشہ کو مکمل طور پر اپناتے ہیں یا اسے ذریعہ روزگار بناتے ہیں
انہیںWorking Journalist کہا جاتا ہے۔ جو صحافی جزوقتی طور پر کام کرتے ہیں
یا کسی ایک اخبار سے وابستہ نہیں رہتے بلکہ مختلف اخبارات میں مضامین،
فیچر، کالم لکھتے ہیں وہ آزاد صحافی (Freelance Journalist) کہلاتے ہیں۔جب
کہ من شاہ جہانم” میںExploring Journalism کے حوالے سے صحافت کی تعریف یوں
تحریر ہے: “صحافت جدید ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی معلومات،
رائے عامّہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا
کرتی ہے”۔ (من شاہ جہانم، ص:38)
صحافت کی جامع تعریف بیان کرنا مشکل کام ہے۔ کچھ صحافیوں اور اساتذہ نے
صحافت کی تعریف بیان کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ مختلف انسکائیکلوپیڈیا بھی
صحافت کی تعریف یا مفہوم درج ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں صحافت کے
معنی اس طرح دیئے گئے ہیں۔ ’’جدید عربی میں اخبار کے لئے ’’جریدہ‘‘ کی
اصطلاح مستعمل ہے۔ اس کا مترادف صحیفہ ہے جو بصورت واحد کم استعمال ہوتا ہے
لیکن اس کی جمع ’’صحف‘‘ کا استعمال جرائد کی بہ نسبت عام ہے۔‘‘اردو
انسائیکلوپیڈیا (جلد سوم) میں صحافت کا مفہوم یوں درج ہے:۔’’اخبارات و
رسائل اور خبر رساں اداروں کے لئے خبروں اور خبروں پر تبصروں وغیرہ کی
تیاری کو صحافت کا نام دیا جاتا ہے یوں تو صحافت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے
جتنی کہ انسانی تاریخ، لیکن جدید دور کی مطبوعہ صحافت کے فن نے پچھلے تین
سو سال میں مختلف منزلوں سے گذر کر موجودہ شکل اختیار کی
ہے۔‘‘انسائیکلوپیڈیا اآف برٹانیکا کی پانچویں جلد میں جرنلزم کی تعریف ان
لفظوں میں بیان کی گئی ہے۔
\”The profession of gathering, writing and editing the news. As
observers, reporters and commentrators on the rest of the society,
journalist enjoy unique status that amply justifies their occassinal
designation as the fourth state\”
ایکسپلورنگ جرنلزم (Exploring Jounralism) کے مصنفین ای اولزلے اور کیمپ
بیل نے صحافت کی تعریف نہایت اختصار کے ساتھ یوں بیان کی ہے۔
’’صحافت‘‘ جدید وسائل ابلاغ کے ذریعہ عوامی معلومات، رائے عامہ اور عوامی
تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے۔‘‘
بقول سید اقبال قادری کہ ’’صحافت ایک ہنر ہے ایک فن ہے یہ ایسا فن ہے جس
میں تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال ہوتا ہے۔‘‘ عموماً لوگ صحافت کو ادب کے
دائرے سے باہر ہی رکھتے ہیں لیکن یہ ادب کا ہی ایک حصہ ہے۔ ادب اور صحافت
کے درمیان ایک واضح خط ہوتے ہوئے بھی کئی ایک امور میں دونوں مشترک ہیں۔
دونوں کا بنیادی مقصد ابلاغ ہے۔ اس لئے برنارڈشاہ نے صحافت کی مختصراً
تعریف یوں بیان کی ہے۔\”All great literature is Journalism\”اعلیٰ ادب
دراصل صحافت ہے۔ قرب زمانی اور تازگی صحافت کی جان ہے۔
صحافت کی اہمیت اور اس کی امتیازی خصوصیات :صحافت کی اہمیت ہر دور وزمانے
میں مسلم رہی ہے ،ہمارے اسلاف اور اکابرین نے اسی فن کے ذریعہ بڑے بڑے
کارنامے انجام دیئے ہیں ،تفسیر ،حدیث ،فقہ ،علوم الحدیث والقرآن ،سیاسیات
،معاشیات ،سماجیات اور ادبیات وغیرہ غرض ہر فن پر کتابیں لکھ کر امت کی
اصلاح کا فریضہ انجام دیاہے ۔غرض ماضی ہو یا حال اپنے ہوں یا غیر ہرایک کے
یہاں ہر دور میں صحافت کی اہمیت مسلم رہی ہے،چنانچہ اسی اہمیت کے پیش نظر
مشہور فرانسیسی قائد نیپولین بونا برٹ کہاکرتاتھا کہ: ’’ میں توپوں کی گھن
گرج سے جتنا خوف کھاتاہوں ،اس سے کہیں زیادہ صریر خامہ سے ڈرتاہوں‘‘۔
نیپولین سے یہ بھی منقول ہے کہ :’’ چار اخبار اگر مخالفت پر تل جائیں تو
ہزار سپاہیوں کی فوج سے زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں ‘‘ ۔
اسی طرح حاخام راستورون نے کہاتھا کہ ’’ اگر پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم
کرنے کے لیے ہم سونا کو اپنی اولین طاقت قرار دیتے ہیں تو ’’صحافت‘‘ کو
دوسری طاقت سمجھنا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے مقننہ ،منتظمہ اور عدلیہ کے ساتھ
صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیاگیاہے ۔ (ماہنامہ’’ نورتوحید
‘‘کرشنانگرنیپال مئی تااگست ۲۰۰۳ء )
۱۸۹۷ء میں سوئزلینڈ میں حکماء صہیون کی پہلی کانفرنس میں شرکاء نے بیک
زبان کہاتھا کہ :’’ اسرائیلی حکومت کے قیام کا ہمارا منصوبہ اس وقت تک
کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک ذرائع ابلاغ پر عموما اور صحافت پر خصوصا ہمارا
مکمل تسلط قائم نہ ہوجائے ‘‘۔ ( ماہنامہ محدث ‘‘ بنارس،مئی -جون ۱۹۹۳ء)
صحافت یعنی میڈیا چاہے وہ الیکٹرانک ہو یا پرنٹ ،دونوں کی اپنی اپنی جگہ پر
اہمیت ہے ۔الیکڑانک میڈیا کا اثرفورا ہوتا ہے جبکہ پر نٹ میڈیا کا کچھ
تاخیر سے ،مگر دیر پا ہوتاہے ،آئیے دیکھتےہیں کہ پرنٹ میڈیا یعنی مطبوعہ
مواد کی امتیازی خصوصیات میں سےچند قابل ذکر اور اہم خصوصیات یہ ہیں :
(۱) قاری اپنی فرصت اور خواہش کے مطابق جس وقت چاہے اس سے مستفید ہوسکتاہے
۔ جیسے کتابیں ،اخبارات اور رسائل وجرائد وغیرہ
(۲) ایک سے زائد مرتبہ اس کی طرف رجوع کرسکتاہے ۔ (۳) مطبوعہ مواد کو عام
طور پر لوگ سو فیصد حقیقت اور حرف آخر سمجھتے ہیں ۔
(۴) اس کی تاثیر کا عالم یہ ہے کہ کہاجاتاہے کہ فوجیں تو ہزیمت سے دوچار
ہوسکتیں ہیں مگر صحافت کی طاقت کو زیر کرنا بس کی بات نہیں ۔ وغیرہ (
ماہنامہ نورتوحید ‘‘ مئی -اگست ۲۰۰۳ء )
ہندوستان کی آزادی میں اردو صحافت کا کردار : ملک عزیز کی آزادی میں جہاں
ایک طرف علماء عوام ،لیڈران اور ہندومسلم ،سکھ عیسائی غرض ہر طبقہ اور مذہب
ومسلک کے لوگوں نے مل کر فرنگیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا اور تحریک
آزادی کے نعرہ کو بڑے زور وشور کے ساتھ لگایاتھا۔ فرنگیوں کے سیاہ کرتوتوں
اور مکروفریب کو عوام الناس کے سامنے واضح کیا ،خطباء نے اپنی تقریروں اور
صحافیوں نے اپنی تحریروں سے اس فریضے کی انجام دہی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت
نہیں کیا ۔ چنانچہ پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک اردو صحافت کا جو
انقلابی اور مزاحمتی کردار رہاہے وہ ناقابل فراموش رہاہے ،غرض اردوصحافت نہ
ہوتی تو ہمارے ملک کو آزادی کو مزید دشواری نہ ہوتی ،اس لئے کہ اردو نے ہی
’’ انقلاب زندہ باد ‘‘ جیسا پرزورنعرہ دیا، جو تمام مذہبی اورلسانی حدود کو
توڑ کر قومی احساس اور جذبہ کا ترجمان بن گیا ،چنانچہ اسی کی برکت ہے کہ
آج ملک میں کشمیر سے لے کرکنیا کماری تک یہی ایک نعرہ ہے جو گونجتارہتاہے
،چنانچہ اردو صحافت نے حق گوئی ،بے باکی اور بے خطری کی جو روایت قائم کی
اسکاملک کی آزادی میں اہم رول وکردار رہاہے۔ اردو صحافت نے ہندوستانیوں کے
قلوب واذہان میں آزادی کی جو شمع روشن کی اور تحریک پیدا کی اس کی مثال
دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آزادی کی وہی زبان
پارٹیشن کے بعد تقسیم کی تلوار بن گئی ،ہندوستان کی سیاسی ،سماجی اور
ثقافتی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اردو صحافت نے ہر نازک موڑ پر مسائل کو
چاہے وہ خارجی ہوں یا داخلی ،حکومت وقت پہنچانے میں ایک اہم کردار اداکیاہے
۔ ملک وقوم کی تعمیر چاہےتعلیمی ہو یا معاشی اور اقتصادی یا سماجی اس میں
اردو صحافت کے نمایاں اور قائدانہ کردار سے سرِمو بھی کوئی انحراف نہیں
کرسکتا ۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے لے کرملک کی آزادی ۱۹۴۷ء
تک پیدا ہونے والے حالات ،واقعات اور طویل جدوجہد کا اردو صحافت میں مستقل
عنوان رہا ہے ۔ اردو صحافت کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ اردو کے چھوٹے
چھوٹے اخبار نے اپنی تنگ دامانی ،قانونی پابندی اور ذرائع ابلاغ ورسائل کی
کمی کے باوجود برطانوی سامراج کے جبروتشدد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرکے
اپنی بے خوفی اور عوام کے مسائل کی ترجمانی کا حق اداکیاہے ۔چاہے اس کی وجہ
سے بے شمار پریشانیوں کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑاہو۔اس کی بے شمار مثالیں
ہیں کہ اردو صحافیوں نے آزادی کی اس تحریک کو آگے بڑھانے میں بے شمار
مصائب جھیلے ،جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالے گئے ،سولی پر لٹکائے گئے ،رنگون
اور کالاپانی کی سزا ہوئی لیکن اس کے باوجو دان کے پائے استقلال میں لغزش
نہیں آئی ،انہوں نے ہمت نہیں ہارے اور ملک کی آزادی کی خاطر تمام تکالیف
برداشت کرتے رہے اور اپنی صحافتی وخطابتی ذمہ داریاں بخوبی انجام دیتے رہے
۔
ہندوستانی اردو اخبارات جنہوں نے آزادی میں نمایاں خدمات انجام دیئے ہیں :
ہندوستان کی آزادی میں اردو اخبارات ورسائل نے جو نمایاں اور کلیدی رول
ادا کیاہے اگر ہم اس کا بالاستعیاب مطالعہ کریں تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ
اردو صحافت ہر گام اور ڈگر پر آزادی کی نقیب رہی ہے ،اردو صحافت نے جس جوش
اور گھن گرج کے ساتھ تحریک آزادی میں حصہ لیا وہ عدیم المثال ہے ۔ انہی
میں سے چند رسائل وجرائد کا تذکرہ نیچے کیاجارہاہے :
(۱) -جام جہاں نما: اردو زبان کا سب سے پہلا اخبار ۲۷؍مارچ ۱۸۲۲ء میں
’’جام جہاں نما‘‘ کے نام سے کلکتہ سے نکلا ، اس کے ناشر پنڈت ہری ہردت بنگو
تھے جو ایک ماہر اور جانباز صحافی تھے ، لیکن مئی ۱۸۲۳ء میں اردو ضمیمہ
نکلنے لگا جو چار سال آٹھ مہینے جاری رہنے کے بعد ۲۳؍جنوری ۱۸۲۸ء کو بند
ہوگیا ۔ (اردو صحافت ،مسائل اور امکانات از -ڈاکٹر ہمایوں اشرف ص : ۳۰۱)
(۲) -سیدا لاخبار : مصلح قوم سرسید احمد خاں کے بھائی سید محمد خاں نے
۱۸۲۷ء میں دہلی سے ’’سیدالاخبار‘‘ جاری کیا۔ (میڈیا اور مسلمان ص ۱۳)
(۳) - دہلی اردواخبار: مولانا محمد حسین آزا دکے والد محترم مولوی محمد
باقر نے ۱۸۳۶ء میں یہ ہفت روزہ جاری کیاتھا جو دہلی کا مکمل پہلا اخبار
اور اردو کا دوسرا اخبارتھا ۔ (ایضا : ۱۳)
(۴) -صادق الاخبار: یہ اخبار دہلی سے ۱۸۴۴ء میں شیخ امداد حسین کی
زیرادارت نکلا ۔ ( تاریخ صحافت -محمد افتخار کھوکھر : ۵۲)
(۵) -کریم الاخبار: مولوی کریم الدین نے اپنےنام کی مناسبت سے ۱۸۴۵ء میں
دہلی سے اردو میں ’’کریم الاخبار ‘‘ کا اجراء کیا ۔ ( ایضا: ۵۲)
(۶)- اسعد الاخبار: مئی ۱۸۴۷ کو آگرہ سے قمرالدین نے اردوہفت روزہ ’’
اسعدالاخبار‘‘ جاری کیا ۔( ہندوستانی اخبارنویسی کمپنی کے عہد میں
-محمدعتیق صدیقی ص : ۲۸۷)
(۷) -بنارس کے اخبار : ۱۸۴۸ء کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق بنارس کے تین
اخباروں کا ذکر ملتاہے ۔(۱) سدھاکر اخبار (۲) بنارس اخبار (۳) -بنارس گزٹ ۔
( ایضا: ۲۹۴)
(۸) -آفتاب عالم تاب : یہ مدارس کا ہفتہ وار اخباررہا اس کا اجراء ۱۸۴۹
میں ہوا ۔ ( ایضا: ۳۱۰)
(۹)- شملہ اخبار: مولوی عبداللہ نے شملہ سے اردو زبان میں ۱۸۵۰ء میںہفت
روزہ کی شکل میں جاری کیا ۔ ( تاریخ صحافت : ۵۲)
(۱۰) -جامع الاخبار: اس کے مہتمم سید رحمت اللہ تھے ،اس کا سن اجراء ۱۸۵۲ء
ہوا ۔ ( ہندوستانی اخبارنویسی کمپنی کے عہد میں: ۳۱۰)
(۱۱) - آفتاب ہند : ۱۸۵۴ء میں بابو کاشی داس نے بنارس سے اس ہفت روزہ کا
اجرا ءکیا ۔ ( ایضا: ۲۹۶)
اس کے علاوہ آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانے اور اسے استحکام واستقلال
بخشنے میں لکھنو کے جو اخبارات پیش پیش رہے، ان میں ’’طلسم لکھنو‘‘ محمد
یعقوب انصاری فرنگی محلّی ۱۸۵۶ء ، ’’سحر سامری ‘‘ گھیر نرائن عیاش
۱۷؍نومبر ۱۸۵۶ء ، ’’ اودھ پنچ ‘‘ منشی سجاد حسین ۱۸۷۷ء وغیرہ خاص طور پر
قابل ذکر ہیں ۔ اسی طرح قومی یکجہتی کے علمبردار منشی نولکشور نے ۱۸۵۹ء
میں ’’ اودھ اخبار‘‘ کا اجراء کرکے قوم وملت اور مجاہد ین آزادی کے قلوب
واذہان میں تحریک آزادی کی روح پھونکی او ران کے اندر جنم لے رہے آزادی
کی چنگاری کو ابھرنے اور قوم وملت کی خدمت کا بیڑا اٹھانے میں بہت اہم رول
اداکیا ۔
مذکورہ اخبارات ورسائل کے علاوہ ملک کے جن اخباروں نے آزادی کی تحریک میں
حصہ لیا اور جن بے باک اور جیالے صحافیوں نے سرفروشی کا مظاہرہ کیاان میں
کلکتہ سے ’’اردوگائڈ‘‘ ایڈیٹر مولوی کبیرالدین ۱۸۵۸ء ، آگرہ سے ’’ تاریخ
بغاوت ہند‘‘ مکندرلال ۱۸۵۹ء ،مدراس کے ’’ اعظم اخبار ‘‘ غوث خاں ۱۸۴۸ ،
علی گڑھ سے ’’اخبار سائنٹفک سوسائٹی ‘‘ سرسید مارچ ۱۸۶۶ء اور ’’ تہذیب
الاخلاق ‘‘ دسمبر ۱۸۷۰ء ، اجمیر سے ’’خیر خلق خدا ‘‘ ، میرٹھ سے ’’ محب
ہند‘‘ مشتاق احمد ۱۸۷۲ء ، سیتاپور سے ’’ریاض الاخبار‘‘ ریاض خیرآبادی
۱۸۷۴ء ، اور ’’خم خانہ ہند‘‘ مولوی احمد علی شوق ۱۸۸۳ء ، گوجرانوالہ سے
’’ پیسہ اخبار‘‘ منشی محبوب عالم ۱۸۸۸ء ، راولپنڈی سے ’’ شانتی ‘‘ پنڈت
کشن چند ہوہن، ’’قربانی ‘‘ ڈاکٹر شیخ محمد عالم ، ’’چٹان ‘‘ شورش کاشمیری
وغیرہ اور اسی طرح بے شمار اخبار ورسائل نے آزادی کی تحریک میں کارہائے
نمایاں خدمات انجام دیئے تھے ،انہوں نے قربانیاں پیش کرکے اس تحریک کو زندہ
رکھا جو آگے چل کر آزادی کا سبب بنا ۔
اس طرح اس وقت کے مزید اردو اخبارات میں ’’ صادق الاخبار ‘‘ ، ’’پیام
آزادی ‘‘ ، سراج اخبار‘‘ ، ’’ کوہ نور‘‘، ’’ رسالہ بغاوت ہند‘‘، ’’ عمدۃ
الاخبار‘‘ ، وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
ان کے علاوہ بیسویں صدی کے اوائل میں نکلنے والے جن اخبارات ورسائل نے
آزادی کی تحریک کو مہمیز لگائی اور قوم کے عزائم کو فولادی بنانے میں
نمایاں خدمات انجام دیئے ،ان میں علی گڑھ سے ’’ اردوئے معلی ‘‘۱۹۰۳ مولانا
حسرت موہانی ، ’’اہل حدیث ‘‘ مولانا ثناء اللہ امرتسری ۱۹۰۴، ’’ انقلاب ‘‘
لاہور ، الہ آباد سے ’’شانتی ‘‘ نرائن بھٹناگر ۱۹۰۷ء ، ’’ پنچاب سے
’’زمیندار ‘‘ ظفر علی خان ۱۹۱۰ء ، کلکتہ سے ’’ کامریڈ ‘‘ ۱۴؍جنوری ۱۹۱۱ء
، اور ’’ہمدرد ‘‘ فروری ۱۹۱۲ء محمد علی جوہر ، ’’ الہلال ‘‘ ۱۳؍جولائی
۱۹۱۲ء اور ’’ البلاغ ‘‘ ۱۹۱۵ء مولانا ابوالکلام آزاد ، ’’انقلاب ‘‘ غلام
رسول مہر اور عبدالمجید سالک ۱۹۲۷ء ، اور روزانہ ہند ‘‘ ۱۹۲۹ء،مولانا
عبدالماجد درآبادی کا ’’آخبارصدق‘‘ وغیرہ جیسے رسائل وجرائد کے نام آب ِ
زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں ۔ ان اخباروں نے خوابیدہ قوم کی بے حس رگوں
میں حریت کی لہر دوڑائی اور بچے بچے نےجنگ آزادی کے لیے کمر کس لی ، انہوں
نے اپنی تحریروں کے ذریعہ پورے ملک اور عوام کے دلوں میں تہلکہ مچادیا جس
کے ذریعہ ان کے قلوب واذہان آزادی کے خواہاں اور فرنگیوں کے ظلم واستبداد
سے دلبرداشتہ ہوچکے تھے اور مکمل طور آزادی کےخواہاں اور علمبردار تھے
،چنانچہ قدرت نے بھی ان جیالوں کا ساتھ اور ان کے قلم وقرطاس اور بھاگ دوڑ
کی لاج رکھی ان کی عزتوں وعصمتوں کو غیروں کے ہاتھ لٹنے سے بچالیا اور آخر
۱۸۵۷ کی ناکا م بغاوت اور آزادی کے بعد آخر کار ایک دن وہ بھی آیا کہ
ان جیالوں ،اہل علم وصاحب بصیرت کی پرجوش خطابت وصحافت نے اپنا رنگ دکھایا
،مولانا آزاد ،اشفاق اللہ خاں ،سرسید احمد خاں ،مولاناشوکت علی،مولانا
احمدسعید دہلوی،مولانا یحیٰ علی ، مولانا جعفر علی ، مو لانا شفیع لاہوری،
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ، حضر مولانا
ولایت علی صا دق پوری،مولانا حسرت مو ہانی،ڈاکٹر ذاکر حسین ،پنڈت نہرو
،گاندھی اور مولانا محمدعلی جوہروغیرہ جیسے بے باک صحافی اور قائد کی
رہنمائی نے ملک کے عوام کو ان کے عظیم خواب سے ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ کو شرمندہ
تعبیر فرمایا ۔ اور سونے کی چڑیا کہا جانے والا یہ ملک فرنگیوں کے ظلم
واستبداد سے آزادہوا اور ہندوستانیوں کو چین وسکو ن کی روٹی نصیب ہوئی ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون کون سے نامور صحافی اور قلمکارتھے جنہوں نے
تحریک آزادی میں خصوصی طو رپر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے قلم کی
جولانیوں سے ملک کو آزاد کرانے میں اہم کردار اداکیا۔
ارد وکے چند مشہور ہندوستانی صحافی وقلمکار :
’’ انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ برصغیر کی آزادی میں دینے والےاردو کے
صحافیوں نے نامساعد حالات کے باوجود برطانوی سامراج کے خلاف جنگ میں جو
نمایاں حصہ لیا اس کی کوئی مثال کسی دوسری زبان کے صحافی پیش نہیں کرسکتے ،
عام طور پر جنگ آزادی میں حصہ لینے والے اردو صحافیوںکی تعداد ایک دو نہیں
کہ بآسانی تذکرہ کردیاجائے ،جن کے ناموں کی فہرست کے لیے ہی کئی صفحات
درکارہوں گے ۔ ذیل میں چند اردو کے ایسے مایہ ناز صحافیوں کا تذکرہ
کیاجارہاہے جنہوں نے اپنےخون دل سے چمنستان اردو کی آبیاری کی اور جنگ
آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
(۱) -مولوی محمد باقر: وفات ۱۸۵۷ء (۲) - منشی محبوب عالم : وفات ۱۹۳۳ء
(۳) -مولانا محمد علی جوہر : ۱۰ ؍دسمبر ۱۸۷۸ء -۴؍جنوری ۱۹۳۱ء
(۴) - مولانا حسرت موہانی : ۱۸۷۸ ء - ۱۴؍مئی ۱۹۵۱ء
(۵) -ظفر علی خان : ۱۸۷۳ء - ۱۹۵۶ ء (۶) - قاضی عبدالغفار : ۱۸۹۰ ء
-۱۹۵۶ء
(۷) - محمد اسماعیل : ۲۴؍اپریل ۱۹۷۷ ء (۸) -مولاناابوالکلام آزاد ۱۸۸۸ء
- ۱۹۵۸ء
(۹) -منشی دیا نرائن نگم (۱۰) -مہاشہ کرشن : وفات ۲۵؍فروری ۱۹۶۳ء
(۱۱) -دیوان سنگھ مفتون : وفات ۲۶؍جنوری ۱۹۷۵ ء (۱۲) -نیاز فتحپوری :
پیدائش ۱۸۸۴ء
(۱۳) - مولانا عبدالماجد دریاآبادی : ۱۸۹۲- ۱۹۷۷ ء (۱۴) -مولانا محمد
عثمان فارقلیط
(۱۵) - حامد انصاری غازی (۱۶) -عادل صدیقی وغیرہ
قارئین کرام !
مذکورہ تمام صحافیوں نے جس عزم وحوصلہ اور جوانمردی کے ساتھ اپنی قیمتی
جانوں کوقربان کرکے اس ملک کو آزاد کرایا اس سے ہر کس وناکس بخوبی واقف
اور آشنا ہیں ۔ اور ساتھ ہی مذکورہ تمام اخبارات ورسائل نے ہندوستانی عوام
کے دلوں میں جس جوش جہاد اور ملک کے خاطر کٹ مرنے کا جذبہ پیدا کیا اس سے
کسی کو انکار نہیں ۔ اگر ہم ماضی اور حال کی صحافت کا موازنہ کریں تو آج
بھی عصر حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھ کرحالات حاضرہ کا صحیح جائزہ اور غیر
جانبدارانہ تجزیہ کرکے اسی صحافت کو دوبارہ زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے جسے
مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’ الہلال اور البلاغ ‘‘اور مولانا محمد علی
جوہر نے ’’کامریڈ‘‘ کے ذریعہ زندہ کیاتھا ۔ جس نے دو سال کی قلیل مدت میں
پورے ملک میں انقلاب وبیداری کی روح پھونک دی تھی ،اس کے علاوہ دیگر تمام
صحافیوں نے جس پانمردی کے ساتھ حق وباطل کی معرکہ آرائی میں بڑھ چڑھ کر
حصہ لیا،اس کے بالمقابل موجودہ دور میں اس کی مثال نہ کے برابر ہے ۔ آج
ملک میں جو اخبارات ورسائل جاری ہیں ان میں اکثرحکومت کے ہاتھوں بکے ہوئے
ہیں ۔ آج میڈیا جانبدار ہوکر اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے ۔ اگر یہی حالت
مزید رہی تو ملک مزید پستی وتنزلی کا شکارہوگا ،اور پوری دنیا میں ذلت
ورسوائی ہوگی ۔آج ملک میں جب مسلمانوں یا اقلیتوںکے خلاف کوئی ہنگامہ یا
مسئلہ ہوتاہے تو میڈیا اس کو نظر انداز کرجاتی ہے اور شرپسند عناصر کے
جذبات کو ہوا دینے میں پیش پیش رہتی ہے ۔آج دہشت گر دی اور ماب لنچنگ کے
حادثات آئے دن ہوتے ہیںلیکن میڈیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے ۔ موجودہ دور
میں ضرورت ہے کہ میڈیا اپنے فریضے کی انجام دہی میں آگے بڑھے ،ملک کے
قلمکار اورصحافی اپنے فریضے کو بخوبی انجام دینے کے لیے حق بجانب اور غیر
جانبدار ہوکر اپنا فریضہ انجام دیں اور خلوص ے ملک وملت اور معاشرہ
وسماج کی خدمت کریں اسی میں ہم سب کی بھلائی اور قوم وملت کا اتحاد ممکن
ہے۔
عبدالباری شفیق
ریسرچ اسکالر ممبئی یونیورسٹی ممبئی
|