کیا ہم ہار گئے ہیں؟

امریکی دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس کی ڈرامائی رہائی اور پلک جھپکنے میں افغانستان منتقلی نے پوری قوم کو ہیجانی کیفیت اور مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ اس خبر کے نشر ہوتے ہی ہر پاکستانی افسردہ تھا، ٹیکسی ڈرائیور، ریڑھی بان، کریانہ فروش، مزدور، مستری، کاروباری حضرات، استاد، صحافی اور دانشور سب ہی اپنی پریشانی، بے بسی کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنی اسٹبلشمنٹ ، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو مجرم قرار دے رہا تھا۔ اس ساری گیم سے رفتہ، رفتہ پردہ چاک ہو رہا ہے اور سارے کردار ایک، ایک کر کے سامنے آ رہے ہیں۔ چند ہفتوں میں سارا منظر قوم کے سامنے آ جائے گا۔ پیپلز پارٹی کا حکمران ٹولہ، نواز لیگ، اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ خاموشی سے قوم کا موڈ دیکھ رہے ہیں۔ وزارت خارجہ تک نے بریفنگ موخر کردی اور کوئی سرکاری اہل کار اس معاملے پر بات کرنے پر تیار نہیں۔ نواز لیگ کے شاہ سوار شہباز شریف خاموشی سے بیرون ملک چلے گئے، نواز شریف بھی اچانک علاج کی غرض سے لندن روانہ ہو چکے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ ڈرامہ کئی دنوں سے جاری تھا اور سارے کردار موقعہ واردات سے فرار ہونے کی تیاری کر چکے تھے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے علاوہ ساری سیاسی قوتیں خاموش ہیں اور کوئی اپنا موقف تک دینے پر تیار نہیں۔

جو کچھ ہوا، پس پردہ ہوا، قانون کی دھجیاں بکھیری گئیں، مذاق اڑایا گیا بلکہ توہین کی گئی۔ اب تو پاکستان میں مقید کسی بھی قیدی کو جیلوں میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ ہماری عدلیہ کو اب جواب دینا چاہیے کہ جب ریمنڈ جیسا دہشت گرد مقتول کے ساتھ معاملات کرنے کے بعد غیر قانونی اسلحے، دہشت گردی کے ارتکاب کرنے اور بغیر دستاویزات اور اجازت کے بغیر شہر کے مصروف علاقوں میں گھومنے پھرنے، جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی استعمال کرنے اور کاروباری ویزے پر جاسوسی جیسا جرم کرنے جیسے الزامات سے کیسے بری ہوا اور جن دفعات میں اس کی ضمانت ہوئی تھی ان کا فیصلہ تک نہ ہونے کے باوجود اسے جیل سے رہا کرنے اور بیرون ملک منتقل ہونے کے احکامات کس قانون کے تحت دئے گئے۔ ہمارے خفیہ داروں کو بھی بتانا ہوگا کہ مقتولین کو کون ہراساں کرتا رہا اور کن، کن لوگوں نے پس پردہ گیم میں کیا، کیا کردار ادا کیا۔ دیت کی رقم کہاں سے آئی، کتنی آئی اور کس، کس کو کیا ادا کیا گیا۔ جب تک ان سارے کرداروں سے پردہ نہیں اٹھتا، تب تک پوری کہانی سامنے نہیں آئے گی۔

امریکی ایمبیسی کا دوسرا اہل کار جس نے ایک نوجوان کو ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی لینڈ کروز تلے روند دیا تھا، وہ آج تک گرفتار کیوں نہیں ہوا اور اگر وہ بیرون ملک فرار ہو گیا ہے تو پھر ہمارے ادارے کس کام کی تنخوا ہ لیتے ہیں۔ ہماری وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ پر خرچہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ حکومت پنجاب نے قانون کو حرکت کیوں نہیں دی اور امریکی قونصلیٹ لاہور کو مجرم کی گرفتاری تک کام کرنے سے کیوں نہیں روکا۔مجر م کو پناہ دینے والے افراد اور ادارے کے خلاف اب تک کیا کاروائی کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں تو پچاس روپے کی چوری کے ملزم کو پناہ دینے والے جو جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے جبکہ سرعام دہشت گردی کرنے اور جان بوجھ کر بے گناہوں کو گاڑی تلے روندنے والوں کو پناہ دینے والوں کے لیے قانون کبھی حرکت میں نہیں آتا۔ یہ ہے ہماری قانون کی حکمرانی۔

ہمارے مقتدر اور امریکی ڈالروں سے مستفید ہونے والے غلط فہمی میں ہیں کہ وہ ریمنڈ کی طرح قانون کو پامال کرتے ہوئے محفوظ رہیں گے۔ ریمنڈ امریکہ چلا گیا، یہ کہاں جائیں گے، ان کی اولادیں کہاں جائیں گی اور ان کی اربوں روپے کے اثاثے کہاں جائیں گے۔ یہ سب کچھ امریکہ نہیں جا سکتا اور نہ امریکہ معاوضہ ادا کرنے کے بعد کسی کو برداشت کرتا ہے۔ اس نہ ہی شاہ ایران کو پناہ دی اور نہ پرویز مشرف ان کی میزبانی سے مستفید ہو سکا۔

قوم نہ آندھی ہے، نہ بہری ہے، نہ مفاد پرست ہے اور نہ ہی بے غیرت ہے۔ وہ دیکھ بھی رہی ہے، سن بھی رہی ہے اور اپنی لاتعلقی اور ناراضگی کا اظہار بھی کر رہی ہے۔ جن کے پاس اختیار تھا، انہوں نے قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنی مرضی اور منشا کا اظہار کر دیا ہے۔ اب قوم کی باری ہے۔ اٹھارہ کروڑ پاکستانی نہ عافیہ کو بھول سکتے ہیں ، نہ ڈرون حملوں کو برداشت کر سکتے ہیں، نہ آئے روز خودکش دھماکوں کو (جن کا الزام طالبان پر لگایا جاتا ہے)، نہ قبائلی علاقوں میں کیے جانے والے ظلم کو برداشت کر سکتے ہیں۔ شادی، جنازوں، جرگوں اور مساجد میں خون کی ہولی کھیلنے والوں اور ان دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دینے والے پاکستانی قابضین کو بھولا جا سکتا ہے۔ ہر ایک جرم رقم ہو رہا ہے اور یہ فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔ قوم سب کچھ دیکھ رہی ہے اور اس کا ردعمل قریب تر ہے۔ جس کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہر پاکستانی اس غم کو بری طرح محسوس کر رہا ہے، اس کے اندر ایک طوفان جنم لے رہا ہے، انتقام کی آگ سلگ رہی ہے، بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں سب مضطرب ہیں، سب فکرمند اور کچھ کر گزرنے پر تیار ہیں۔ میدان سجنے کی دیر ہے، بگل بجنے کا انتظار ہے۔ جوں ہی بگل بجا دما دم مست قلندر ہوگا۔ یہ طاقتور گھاس کے تنکوں کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے۔ سب مستیاں خاک ہو جائیں گی، سب اختیارات ڈھیر ہو جائیں گے اور سب بااختیار قصہ پارینہ بن جائیں گے۔

تم غلط سمجھتے ہو کہ ہم پاکستانی ہار گئے ہیں، نہیں ہم اپنی جیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ظلم ، ناانصافی اور غداری کے اس رسوائے زمانہ واقعے نے ہمارے بوڑھوں کو بھی توانا کر دیا ہے، ہمارے بچوں کو بھی جوان کر دیا ہے، ہماری عورتوں کو بھی مرد کر دیا ہے۔ہمارے ایمان کو قوت بخشی ہے، ہمارے جذبوں کو جلا بخشی ہے اور ہماری موجوں کو مضطرب کر دیا ہے۔ ہمیں اپنے اداروں اور پاسبانوں سے بے نیاز کر دیا ہے، ہمیں آزاد اور خودمختار کر دیا ہے۔ نام نہاد قانون کو توڑ کر انہوں نے ساری قوم کو ظلم اور جبر کے اس نظام سے بغاوت کی نئی راہ دی ہے۔ ہم ہارے نہیں، ہم جیت کی طرف بڑھ رہے ہیں، معرکہ شروع ہونے والا ہے، میدان سجنے والا ہے۔ پوری قوم عافیہ اور شمائلہ کے درد کو محسوس کررہی ہے۔اب داد رسی کا وقت قریب ہے ، جو نہ صرف عافیہ اور شمائلہ کے زخموں پر مرہم لگائے گا بلکہ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو ظلم کے شکنجے سے نجات دلائے گا۔ ہم تمہارے مشکور ہیں، تم نے اللہ کے شیروں کو للکار کر میدان سجا دیا ہے۔ ہم جیتیں گے اور تم نشان عبرت بن جاؤ گے۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117109 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More