امریکہ میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات

یہاں ہم دو چیزوں کا تذکرہ کر یں گے۔پہلے امریکی معاشرے میں بڑھتے ہوئے پُرتشدد واقعات کا ذکر کیا جائے گا اور دسرا ان کے پیچھے محرکات کا جائزہ لیا جائے گا۔ چار اور پانچ اگست 2019 ء کی درمیانی شب امریکی ریاست اوہائیوکے شہر ڈیٹن میں ایک مقامی کلب کے باہر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ جس میں نو افراد ہلاک اور سولہ کے قریب زخمی ہوئے۔ مقامی پولیس کے مطابق حملہ آور نے محض نصف منٹ میں ان تمام افراد کو ہلاک اور زخمی کیا۔ حملہ آور کی عمر چوبیس سال تھی جس کو کلب کے باہر موجود پولیس اہلکاروں نے موقعے پر ہلاک کردیا۔ فائرنگ کے اس واقعے سے چند گھنٹے قبل ریاست ٹیکساس کے شہر ایل پاسو میں ایک مقامی شاپنگ مارٹ میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس میں بیس افراد ہلاک اور چھبیس زخمی ہوئے تھے۔ یہ شاپنگ مارٹ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس واقعے میں جو گرفتاری عمل میں آئی ، وہ اکیس سال کا نوجوان ہے۔ ٹیکساس کے گورنر نے اس واقعے کو ریاست کے بد ترین دنوں میں سے ایک بد ترین دن قرار دیا۔ یہ دونوں واقعات محض ایک دن ، یعنی جوبیس گھنٹوں کے اندر رونما ہوئے اور مجموعی طور پر اُنتیس افراد ہلاک اور چالیس سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ تا حال دونوں واقعات کے پیچھے عزائم و مقاصد سامنے نہیں آسکے۔ صدر ٹرمپ نے ان مہلک ترین واقعات پر اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ان معصوم لوگوں کے قتل کی کوئی وجہ اور کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ اور امریکی عوام یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ افغانستان ، مصر ، شام ، عراق وغیرہ میں جو لاکھوں بے گناہ مارے گئے، اُن کا کیا جواز بنتا ہے تھا، کشمیر میں روزانہ پندرہ افراد مارے جارہے ہیں ، اُن کا کیا قصور ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مذمت تک نہیں کی جاتی، بیانات کشمیر کی ثالثی کی کرتے ہیں، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر صدر ٹرمپ کا ٹویٹر خاموش کیوں ہوتا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے ہزاروں عوام ، سیکیورٹی اہلکاروں اور افسروں کا کیا قصورتھا، اُن کی وجہ کیا تھی اور کیا جواز بنتا تھا۔ پُرانی کہاوت ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے کے مصداق آج امریکہ کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ دہشت گردی ایک واقعہ گزشتہ برس ماہ اکتوبر کے آواخر میں ریاست پنسلوینیا میں پیش آیا تھا۔ چھیالیس سالہ حملہ آور نے یہودی عبادت گاہ میں گھس کر عبادت گزاروں پر فائرنگ کی جس میں گیارہ افراد ہلاک اور چھ زخمی ہوئے تھے۔ اس سے ایک سال قبل ٹیکساس کی ریاست میں چرچ میں فائرنگ کے واقعے میں کم از کم چھبیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یاد رہے یہ ٹرمپ کی صدارتی عہدے پر بِراجمان ہونے کے بعد تیسرا مہلک ترین حملہ تھا۔ جب کہ پہلے دو واقعات اپریل اور جون 2017 ء میں پیش آئے تھے۔ پہلا واقعہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیش آیا جہاں نارتھ پارک ایلیمنٹری سکول میں ایک مشتبہ شخص نے کلاس روم میں گھس کر فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں دو طالب علم زخمی ہوئے اور حملہ آور نے خودکشی کرنے سے قبل ایک خاتون کو ہلاک کیا جب کہ فائرنگ کا دوسرا واقعہ جون میں ریاست ارکنسو کے نائٹ کلب میں ایک کنسرٹ کے دوران پیش آیا ، جس میں اٹھائیس افراد زخمی ہوئے تھے۔ یہ سارے واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ امریکہ نے خود یا اپنی زیر سرپرستی جتنے مظالم ڈھائیں ، آج وہ خود دہشت گردی کا شکار ہورہا ہے۔ تجزیہ نگار ان کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن میرا ذاتی تجزیہ یہ کہتا ہے کہ امریکہ میں بڑھتے ہوئے پُر تشدد واقعات دراصل اُن کی معیشت کی بگڑتی صورت حال کی وجہ سے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک کی زیادہ تر توجہ معیشت کو سنبھالنے کے لئے اسلحے کے خریدار ڈھونڈنے پر مرکوز ہے کیوں کہ چین اس وقت ایشیا ، یورپ سے لے کر افریقہ تک اپنی تجارت بڑھا چکا ہے اور چینی صدر کے ’’ایک خطہ ، ایک سڑک ‘‘ کا وژن برآمدات اور درآمدات کو مزید وسعت دے گا اور اُس کی تجارت و معیشت کاگراف بلند سے بلند ترین ہوتا جائے گا۔ یوں امریکہ کے پاس واحد راستہ اسلحے کی فروخت رہ جاتا ہے۔ اس اسلحے کے خریدار دنیا میں جہاں بھی موجود ہیں ، امریکہ نے وہاں ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ خریدار ملک اسلحے کو اپنے ہمسائیہ ممالک کے خلاف استعمال بھی کررہے ہیں ، یعنی اسلحے کی فروخت کے ساتھ میدان جنگ ساتھ دیا جاتا ہے تاکہ اسلحے کا استعمال ہو اور وہ مزید خریدیں۔ امریکی حکام اور تھنک ٹینک کی ساری توجہ اس جانب مبذول ہے اور اس بات کو بھول بیٹھے ہیں کہ امریکہ وہ تہذیب یافتہ ملک ہے جہاں ایک منٹ بجلی چلی جائے اور کیمرے آف ہوجائیں تو کروڑوں ڈالروں کی چوریاں ہوتی ہیں۔ پھر ایسی قوم سے کیا بعید جو ذہنی اعتبار سے پسماندہ ہوں اور اُن کی ذہنی کیفیات ایسے پُرتشدد واقعات کا مؤجب بنتی ہوں گی۔ یہ صرف انفرادی واقعات نظر آرہے ہیں لیکن یہ ذہنی جذبات اجتماعی طور پر معاشرے میں سرایت کر چکے ہیں۔پس انہوں نے بظاہر تہذیب کا اوورکوٹ پہنا ہوا ہے جس کی وجہ سے اُن کی ہر قسم کی پسماندگی نظروں سے اوجھل ہے ۔
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.