اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، رسول اللہ ﷺ کی نظرِ کرم،قائدِ
اعظم محمد علی جناح ؒ کی قائدانہ صلاحیتوں اور انتھک محنت نیز برِ صغیر کے
کروڑوں مسلمانوں کی دعاؤں اور لاکھوں مسلمان مرد وزن کی شہادتوں کے
بعد14/اگست 1947ء میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والا پاکستان آزادی کے
دن سے آج تک مسائل کا شکار رہا ہے کبھی اندرونی خلفشار اور رخنہ اندازیاں
تو کبھی بیرونی سازشیں اس کی ترقی کی راہ میں حائل ہوتی رہیں لیکن مملکتِ
خداداد اپنی ترقی کی منازل طے کرتی رہی ہے۔ باوجود اس کے کہ اسے سیاسی و
معاشی حالات اس قدر سازگار میسر نہیں رہے جتنے ہمارے دیگر ہمسایہ ممالک کو
رہے ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے دن سے ہی یہ پالیسی رہی ہے کہ ہمسایہ ممالک
کے ساتھ دوستانہ تعلقات روا رکھے جائیں لیکن بد قسمتی سے ایک نہیں دو تین
طرف سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا رہا ہے اور یہ آج بھی جاری ہے۔افسوس تو
اس بات کا ہے کہ دو طرف تو کلمۃ اللہ پڑھنے والے بستے ہیں جب کہ تیسری طرف
ہمارا ازلی دشمن بر سر پیکار رہا ہے۔البتہ اسی خطے کا چوتھا لیکن اہم ترین
ملک جس کا نام ”چین“ ہے اس نے نہ صرف پاکستان کو دل سے تسلیم کیا ہو اہے
بلکہ پاکستان کے ساتھ ہمیشہ دوستی کا رشتہ نبھایا ہے۔
یوں تو بھارت کے اندر بھی کروڑوں مسلمان آباد ہیں اور کسمپرسی کی زندگی بسر
کرنے پر مجبور ہیں۔جب پاکستان کی آزادی کا دن قریب آرہا تھا تو ہندوستان کے
دو بڑے رہنماؤں میں سے ایک نے پاکستان کے قیام کی بھرپور مخالفت کی اور
دوسرے نے تحریکِ پاکستان کے ہر اول دستے کا سپاہی ہونے کے باوجود بھارت میں
رہنے کو ترجیع دی لیکن ان کا یہ فیصلہ اس لیے نہ تھا کہ وہ خداناخواستہ
پاکستان کے قیام کے مخالف ہو گئے تھے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ”میں بھارت میں
رہ کر ایک اور پاکستان کی بنیادیں رکھوں گا“۔ یہ وہی تھے جن کے جسم پر ہر
جگہ کوڑوں کے نشان تھے اور جو کہتے تھے:
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
جو چاہے ستم کر لو تم اور بھی کھل کھیلو
پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی
حسرت موہانی نے اپنی یہ جد وجہد اپنے آخری دم تک جاری رکھی جب کہ کشمیر جسے
قائدِ اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اس کے مسلمان رہنماؤ ں نے تاریخی
غلطی کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ کیے گئے ہندو راجا کے اعلان ِ الحاق کو قبول
کر لیا لیکن اس اعلان کو کشمیریوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا اور ان کی جدوجہد
ِ آزادی 1947 ء سے جاری ہے۔
ریاست جموں و کشمیر 1846ء سے 1947ء تک متحدہ ہندوستان میں ایک نوابی ریاست
جو 1846ء میں پہلی انگریز سکھ جنگ کے بعد تشکیل دی گئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی
نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور فوری طور پر امرتسر معاہدے کے تحت جموں کے
ڈوگرا حکمران کو فروخت کر دیا۔
1947 ء میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت تمام ریاستوں کو اختیار دیا گیاتھا کہ
وہ پاکستان یا بھارت میں کسی ایک سے الحاق کر لیں یا اپنی آزاد حیثیت
برقرار رکھیں، کشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی، اس لیے ریاست کی عوام نے ہندو
مہاراجا کا بھارت سے الحاق کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا اور عوام اس فیصلے کے
خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، بھارت نے ہندو مہاراجا کے الحاق کو جواز بنا کر ریاست
میں اپنی فوجیں داخل کر دیں، دوسری طرف مجاہدین نے کشمیر کے بہت سے علاقوں
پر مہاراجا کا قبضہ ختم کرکے گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے
پاکستان کے زیرِ انتظام دے دیے۔ اس دوران بھارت کشمیر کا معاملہ اقوام
متحدہ میں لے گیا، جہاں ایک کمیشن کے ذریعے کشمیر میں استصواب رائے کا
فیصلہ کیا گیا جس کو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے تسلیم
کیا اور رائے شماری کے فیصلے کی تائید کی جس کے مطابق کشمیر کے عوام رائے
شماری کے ذریعے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرینگے۔ پاکستان نے بھی
یہ فیصلہ تسلیم کیا۔ لیکن بعد میں بھارت اپنے اس وعدے سے منحرف ہو گیا اور
تاحال ریاست کشمیر کے الحاق کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ بھارت کے کشمیر پر
غاصبانہ قبضے کو کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا اور اب تک لاکھوں
کشمیری شہید ہوچکے ہیں اور مسلسل قابض بھارتی افواج کی بربریت کا شکار ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں جن کے درمیان کشمیر کی آزادی اور
خود مختاری بنیادی مسئلہ ہے اور اس تنازعہ کی وجہ سے دونوں ملکوں میں کسی
بھی وقت دنیا کی دوسری ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے جو نہ صرف اس علاقے کی تباہی
کا سبب بنے گی بلکہ اقوامِ عالم بھی اس کے منفی اثرات سے بچ نہ پائیں گی۔اب
تک دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑچکے ہیں جن میں 1947ء کی جنگ، 1965ء
کی جنگ اور 1999ء کی کارگل جنگ شامل ہیں لیکن کو ئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے
نہیں آسکا سوائے اس کے کہ دونوں جانب سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور ٹیکس
پیئرز کا پیسہ برباد ہوا اگر دونوں ممالک اس مسئلے کو حل کر لیں اور جو
روپیہ پیسہ اسلحے پر خرچ کیا جاتا ہے وہ عوام الناس کی فلاح و بہبود پر خرچ
کیا جائے تو اس خطے کے دونوں اہم ممالک یعنی بھارت اور پاکستان ترقی کی نئی
مثالیں قائم کر سکتے ہیں۔لیکن افسوس کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ
قبضے کو 72سال ہوگئے، لیکن اس کا کو ئی حل نہیں نکالا گیا کیونکہ کشمیریوں
کو ان کا حقِ رائے شماری نہیں دیا گیا۔
پچھلے پچاس سال سے یہ مسئلہ اقوامِ عالم کے سامنے خاموش پڑا رہا لیکن اب جب
کہ بھارتی حکومت نے کشمیر کی آئینی حیثیت کو اپنے آئین میں تبدیلی کرکے
تبدیل کرنے کی کوشش کی تو کشمیریوں کا خون کھول اٹھا اور گلی گلی، قریہ
قریہ کشمیر کی آزادی اور اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تحریک نے ایسا زور
پکڑا ہے کہ گزشتہ تیرہ دن سے کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور معمولاتِ زندگی
تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ بھارتی فوج کی بربریت جاری ہے لیکن کشمیریوں کے
پایہ استقلال میں بھی کو ئی کمی نہیں آئی بلکہ یہ آگ گزرے وقت کے ساتھ مزید
بھڑک رہی ہے اور وہ دان دور نہیں جب سارا بھارت اس کی لپیٹ میں ہوگا۔
پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر بھارت کی ریاست”ناگا لینڈ“ نے بھی بھارت
سے الگ رہنے کا اعلان کرتے ہوئے اس امسال یومِ آزادی 14/اگست کو منایا ہے۔
بھارتی فوج کی کھلی بربریت پر حکومتِ پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومت ہر
اعتبار سے اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ
پچاس سال بعد ”مسئلہ کشمیر“ پر اقوام متحدہ کا اجلاس پاکستان اور پاکستان
کے دیرینہ دوست چین کی طرف سے کی گئیدرخواست پر آج ہو رہا ہے۔ لیکن کیا آج
کشمیریوں کو کوئی خوشخبری ملے گی یا ان کی داستانِ خونچکاں ایک نہا رنگ و
آہنگ لے گی یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ بہر حال آج بھارت کو ایک بار پھر ایک
موقع میسر آئے گا کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے
کشمیریوں کو حق رائے شماری دے اور فیصلہ ان پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ بھارت
کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں مملکتِ خدادا پاکستان کے ساتھ۔
بایں ہمہ یہ بات سب ہپر اظہر من الشمس ہے کہ کشمیری اپنی آزادی کی جد و جہد
اور تحریک کے دوران اس بات کا واضح اعلان کرتے ہے ہیں کہ”کشمیر بنے گا
پاکستان“ تو کیا دریں حالات بھارت کوئی ایسا وعدہ کرے گا اور کیا وعدہ کرتا
ہے تو نبھائے گا کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ بھارت نے اپنے وعدوں کی پاسداری
کبھی کی ہی نہیں۔۔۔
|