مودی کا ’ ہندو ریاست ‘ بنانے کا مشن ؟

مودی سرکار نے بھارتی آئینی تبدیلی کے بعدظاہری طور پر مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی ہے۔ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے ساتھ آئینی طور پر جو گھناؤنا کھیل کھیلا ، اس کا شاید انہیں اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے تحریک آزادی کشمیر کی سلگتی آگ میں تیل ڈال کر شعلوں کو مزید بھڑکا دیا ہے۔مودی سرکار کا یہ اقدام کوئی ایک دو دن یا ہفتوں کی غور وفکر کا نتیجہ نہیں لگ رہا کہ اچانک بھارتی لوک سبھا میں بغیر بحث کئے ایک ترمیم یک یکا منظور ہوجاتی ہے اور ایوان کو اعتماد میں لئے بغیر قلمی جارحیت سے کشمیر کی جغرافیائی نوعیت کو تبدیل کردیا جاتا ہے۔بظاہردل اس بات کو بھی ماننے کو تیار نہیں کہ کشمیر کے حوالے سے موجودہ وزیر اعظم کی جانب سے ماضی میں دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں جموں و کشمیر کے تین حصے کرنے کی تجویز پر بیک ڈور کام ہوا ہو ۔اب کوئی پارلیمنٹ کی مشترکہ اجلاس کی قرارداد کو کوئی بھی رنگ دے لیکن اپوزیشن لیڈر کی جانب سے اس بات کی نشان دہی یقیناََ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک کی جانب سے بھارتی اقدام پر محتاط رویہ اپنایا گیا اور جس قسم کے سفارتی ردعمل کی توقع تھی ، دوست ممالک کی جانب سے فوری دیکھنے کو نہیں ملی۔ چلیں رہنے دیں ہم اس کی وجوہات پر بھی نہیں جاتے ، کیونکہ حکومت اپنے دور اقتدار میں معاشی بحران کو حل کرنے کے لئے دوست ممالک سے قرض حاصل کرنے پر وقت صرف کرتی رہی اور سفارتی تعلقات کو اُس نہج پر نہیں لاسکی جو اس وقت پاکستان کے کام آتا۔شاید بھارت نے اسی موقع کا فائدہ اٹھایا کہ پاکستان میں سیاسی بحران و اکھاڑ بچھاڑ کی سیاست کو گرما گرمی دیکھتے ہوئے مودی سرکار نے موقع غنیمت جانا۔
دماغ اس بات پر یقین بھی کرنے کو تیار نہیں کہ بھارت نے امریکا کو اپنے اس انتہائی اقدام سے آگاہ نہیں کیا اور امریکا نے پاکستا ن کا نکتہ نظر نہ جانا ہوگا ۔ افغانستان امن تنازع حل میں بھارتی کردار نہ ہونے کے باوجود صدر ٹرمپ کے خصوصی معاون برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کی بار بار بھارت یاترا کے مقاصد پوشیدہ نہیں رہے ہیں ۔ امریکا ، افغانستا ن میں بھارت کو عسکری کردار ادا کرنے کے لئے بھاری مراعات دیتا آرہا ہے ،امریکی دفاع کے اعلیٰ حکام بھارت کو جدید ہتھیاروں سے لیس و خود کفیل بنانے کی پُر کشش لالچ و ترغیبات دے چکے ہیں۔ امریکا کی زبان وہی بولتی رہی ہے جو بھارت کہتا رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت حافظ سعید کوعالمی دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کرنے سمیت پاکستان پر دباؤ ڈال کر گرفتار کرانا اور فلاح انسانیت سمیت جماعت الدعوۃ کو کالعدم قرار دیئے جانے تک امریکا وہی کچھ کرواتا رہا جو بھارت کہتا رہا ۔حالانکہ کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ نے کبھی امریکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچایا ، کبھی امریکا پر شدت پسند کاروائی کا نہیں کہا اور نہ ہی کبھی امریکی مفادات کو نقصان پہنچا۔ لیکن اس کے باوجود امریکا نے کالعدم جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت کے اثاثے ضبط کروانے اور حافظ سعید احمد کی گرفتاری پر پاکستان پر دباؤ بڑھائے رکھا یہاں تک کہ وزیر اعظم کے دورہ امریکا سے قبل امریکی خواہش پوری ہوئی جس پر امریکی صدر نے خوشی کا اظہار کیا ۔صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ بھارت نے ثالثی کا کردار ادا کرنے کو کہا ، لیکن بھارت نے ہمیشہ کی طرح انکار کیا ۔

کہا جاتا ہے کہ اندازہ نہیں تھا کہ بھارت کشمیر میں فوج میں اضافہ کیوں کررہا ہے۔ امر ناتھ یاترا کیوں روک دی گئی ۔ کرفیو پاس کیوں جاری کئے جا رہے تھے ، مہینوں کا راشن رکھنے کا کیوں کہا جارہا ہے۔ سب اندازے لگاتے رہے اور مودی گھناؤنی چال اس طرح چل گیا کہ بھارتی اپوزیشن بھی ہکا بکا رہ گئی ۔نسلی جمہوریت کا تصور اسرائیل کے پولیٹیکل سائنٹسٹ سیمی سمووا نے 2002ء میں پیش کیا تھا۔ اسی تصور کے تحت مئی 2019 میں بھارتی وزیرِاعظم نے فتح کا جشن منانے کے لیے منعقد کی گئی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے مستقبل کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں پر اشارے دیے تھے۔ مودی کا کہنا تھاکہ’’ کارکنوں نے صرف ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے کا جذبہ لے کر انتخابی مہم چلائی۔ دنیا کو چاہیے کہ اب وہ بھارت کو سپر پاور تسلیم کرلے‘‘۔ بی جے پی کی فتح کے بعد بھارت و جموں کشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کو ہندو شدت پسندی کے بڑھتے اُبال سے شدید تحفظات تھے ۔ انہی خدشات کو دیکھتے ہوئے لوک سبھا الیکشن (2019)کے نتائج پر انگریزی کے معروف لبرل صحافی پرونو رائے، اپنے ٹی وی شو(این ڈی ٹی وی) میں موجود تمام پینلسٹ (جس میں بی جے پی کے ترجمان بھی شامل تھے) سے مخاطب ہوکر یہ تبصرہ کرنے لگے کہ’’ ملک کا 185 ملین مسلمان ڈرا ہوا ہے۔ وہ خوف اور اضطراب کا شکار ہے‘‘۔پرونو رائے کے اس تبصرہ پر حامی بھرتے ہوئے، ان کی ساتھی اینکر ندھی رازدان نے اسے سوال کی شکل میں بی جے پی کے ترجمان نیلین کوہلی کے سامنے پیش کیا تھا۔ خلاصہ بحث یہ تھا کہ گر بات ڈرنے کی ہے اور ڈر اس لئے ہے کہ مودی حکومت کے دوبارہ اقتدارمیں آ جانے سے فسطائی طاقتیں مزید مضبوط ہو جائیں گی، یاآئین سے چھیڑ چھاڑ کی کوششیں ہوں گی، یا ہندوستان پوری طرح سے میجوریٹیرین ڈیمو کریسی میں تبدیل ہو جائے گا، یا ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیا جائے گا (یہ الگ بات ہے کہ بھارت غیر رسمی طورپر ہندو راشٹر بن چکا ہے)، یا فرقہ پرستی آسمان چھونے لگے گی، یا سیکولرزم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جائے گی، یا مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے گا، یا انہیں گھس پیٹھیا/باہری قرار دیا جائے گا، یا پھر مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دیا جائے گا، تب تو پھرہر ہندوستانی کو ڈر جا نا چاہئے۔ صرف مسلمان ہی کیوں ڈریں؟۔‘‘اور ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ سب کو خوف زدہ اورڈرانے کی شروعات ہوچکی ہیں۔

اس لئے اس بات کو اگر کوئی مانتا ہے کہ امریکا ، بھارتی اقدام سے بے خبر تھا راقم دسمجھتا ہے کہ وہ خود کو دھوکا دے رہا ہے۔ کیا ہم من و عن تسلیم کرلیں کہ امریکا، چین کو معاشی سپر پاور بننے کے لئے راستے سے ہٹ گیا ہے ۔ امریکا اور بھارت کے درمیان کچھ’ نورا کشتی‘ تو ضرور ہوئی تاکہ پاکستان کو افغان طالبان کے مسئلے میں مزید الجھا کر کابل انتظامیہ سے مذاکرات کرانے کا ٹاسک دیا جاسکے ۔ امریکا نے پاکستان سے یہی مطالبہ رکھا ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان ہر صورت میں کابل انتظامیہ سے مذاکرات کے لئے راضی کرے یعنی پاکستان بچاؤ یا کشمیر۔ پاکستان افغانستان کی چالیس برس سے جاری جنگ کو صدق دلی سے سلجھنا چاہتا ہے ، لیکن اس کا رسوخ ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہوچکا ہے ۔ 71برسوں سے خطے کے سب سے حساس مسئلے کو حل کرانے کے لئے عالمی طاقتوں کا دوہرا معیار قابل افسوس ہے۔افغانستان جیسے بڑے ملک میں ایک لاکھ پچیس ہزار کے قریب جارح افواج تھی ۔ جو اب قریباََ 14ہزار ہیں اور ساڑھے تین لاکھ افغان سیکورٹی فورسزہیں، جب کہ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ30ہزار جارح بھارتی فوج قابض ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے ساتھ کشمیر کے دیرینہ مسئلے کو بھی سلجھایا جاتا ۔

جرمنی ، ترکی ، چین ، روس ، امریکا ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت عالمی برداری کو مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم پر بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عالمی برداری سمجھتی ہے کہ کابل امن حل کا معاہدہ چند مہینوں میں حل ہوجائے گا اور خطے میں امن آجائے گا تو شاید یہ خواب رہے ، کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف کشمیری عوام اُسی طرح مزاحمت کرتے نظر آسکتے ہیں جس طرح افغان طالبان ۔ کیونکہ جب جہاد کا جذبہ جارح افواج کے خلاف اٹھتا ہے تو مادر وطن کی حفاظت کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت مسلح جدوجہد و تحریکیں زور پکڑتی ہیں اور پھر اس کا انجام افغانستان کی طرح ہوتا ہے۔کشمیر بھارتی فوجیوں کا قبرستان بنے گا ۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ امریکا ، چین کے مزید نزدیک ہونے کے لئے مقبوضہ جموں کشمیر کو اپنا فوجی بیس کیمپ بنانے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے ۔
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 296102 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.