جب سے بھارت نے مقبوضہ جموں کشمیر کی حیثیت کو ختم کیا ہے
،کشمیریوں سمیت پاکستانی عوام کی امید تھی کہ اس پر پاکستان حکومت دلیرانہ
جواب دے گی ۔لیکن پاکستان میں کشمیر کے حالیہ مسئلہ پر بڑے پیمانے کا کھیل
شروع ہو گیا ہے ۔یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت
عوام کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹانے اور کشمیر مسئلہ کو دبانے کی بھرپور
کوشش کی جا رہی ہے ۔
یہ مشترکہ پارلیمنٹ ،قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اور وہاں ہونے والے فیصلے
ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو پورا کھیل کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ کیسے
عوام کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹائی جا رہی ہے ۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس
میں پہلے دن ہی سے جو غیر سنجیدہ رویہ سامنے آیا ہے ،اس پر ہر کسی نے تشویش
کا اظہار کیا ۔جہاں دنیا بھر میں یک جہتی کا پیغام بھیجنا تھا ،وہاں
شورشرابہ برپا رہا ،اجلاس کئی گھنٹوں تک ملتوی کرنا پڑا ۔اجلاس شروع بھی
ہوا تو یک جہتی کہیں نظر نہیں آئی ۔یہاں آصف علی زرداری کا خطاب بھی اہمیت
کا حامل ہے جس میں انہوں نے فرزند زمین اور غیر فرزند زمین کا مسئلہ
اٹھایا۔لیکن اس مسئلہ کے اٹھانے کی وجوہات تھیں ۔اس کے ساتھ ہی حکومت نے
بڑی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔بدھ کو مفتاح اسمعیل کو اور جمعرات کو
مریم نواز کو گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔اس پر ظاہر ہے رد عمل آنا تھا ۔کشمیر
کی خبر پیچھے اور گرفتاریوں کی خبر شہ سرخیاں بنی۔مریم نواز جو سرگودھا میں
کامیاب کشمیر ریلی کی قیادت کر چکی تھیں اور مظفر گڑھ میں کشمیر یکجہتی
ریلی کی تیاری کر رہی تھیں ۔انہیں نہ صرف روکنے کے لئے بلکہ کیونکہ وہ واحد
لیڈر بن کر سامنے آئی تھیں جنہوں نے عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیابی
حاصل کر لی تھی ۔جس سے حکومت اور حکومت کے پسِ پشت رہنما پریشان تھے ۔انہوں
نے مریم نواز کی گرفتاری سے ایک تیر سے دو نشان لگائے ۔ایک کیونکہ مریم
نواز انتہائی مؤثر اور کامیاب سیاسی موومنٹ کو لیڈکراورحکومت ، مقتدر
طاقتوں کو آڑے ہاتھوں لے رہی تھیں ۔اس پورے معاملے سے اصل فائدہ یہ لینا
مقصود تھا کہ مسئلہ کشمیر کہیں دب جائے ۔اس میں وہ کسی قدر کامیاب بھی ہو
چکے ہیں ۔لیکن مسئلہ کشمیر پر پوری قوم متحد ہے اور سب یک زبان ہو کر
مطالبہ کر رہے ہیں کہ بھارت کو اس حرکت کا بھر پور جواب دیا جائے ۔لیکن
حکومت کی پوری کوشش نظر آ رہی ہے کہ کسی طرح متحد عوام کو منتشر کیا جائے
اور کسی طرح انہیں غیر ضروری مسائل میں الجھایا جائے ۔حکومت اس میں قدرے
کامیاب ہو رہی ہے ۔جمعرات کے اجلاس میں بلاول بھٹو کی مریم نواز کی گرفتاری
پر جذباتی تقریر اور اس کے جواب میں مراد سعید کا انتشار سے بھر پور خطاب ،پارلیمنٹ
کے باہر میڈیا کے سامنے حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندوں کی دھکم پیل نے
واضح کر دیا کہ یہ لوگ کشمیر کا نہیں بلکہ بھارت کا پوراساتھ دے رہے ہیں۔لگ
یہ رہا ہے کہ پاکستان کے لئے مسئلہ کشمیر پہلی ترجیح نہیں رہا ہے اور یہ
باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا گیا ہے ۔
ویسے تو اندیشہ کیا جا سکتا تھا کہ بھارت اپنی گندی حرکتوں سے پاکستان میں
انتشار کی فضا پیدا کر سکتا ہے، اس کے لئے وہ دہشت گردی کروا سکتا ہے ۔بھارت
کشمیر میں بنائے گئے اپنے آبی بند کے اسپل ویز کھول کر پاکستان میں سیلابی
صورت حال پیدا کر سکتا ہے ۔تاکہ پاکستان کو مسائل میں الجھا کر کشمیر کے
مسئلہ سے دور رکھا جا سکے ۔لیکن بھارت کو ایسے معاملات اپنے سر لینے کی
ضرورت نہیں رہی ہے ۔کیونکہ پاکستان میں پاکستانی رہنما بھارتی حکومت کا بھر
پور ساتھ دے رہے ہیں ۔حکومت خود ایسا ماحول پیدا کر رہی ہے، جس سے مسئلہ
کشمیر سرد خانے کی زینت بن رہا ہے ۔اس لئے بھارت کو ڈرنے یا گھبرانے کی
کوئی ضرورت نہیں ہے ۔پاکستان سے ایسا کوئی رد عمل نہیں ہو گا جس سے بھارت
کو کوئی مسئلہ پیدا ہو۔
حکومت عوام کو کیسے بیوقوف بنا رہی ہے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان
نے بھارت سے سفارتی تعلقات محدود کر کے تجارت معطل کر دی ہے ۔سفارتی تعلقات
کتنے عرصے سے معمول پر نہیں ۔مودی عمران خان کا فون سننا گوارہ نہیں
کرتا۔بھارت پاکستان کے ساتھ عرصے سے چھوٹے سے مسئلہ حل کرنے کے لئے بیٹھنا
پسند نہیں کرتا۔تجارت نہ ہونے کے برابر ہے ۔تو سفارتی تعلقات کو محدود کیا
کرنا ہے ․․․؟پھر حکومت کا یہ کہنا کہ بھارت کے ساتھ تمام دو طرفہ معاہدوں
پر نظر ثانی کریں گے ۔او جناب :بھارت نے معاہدہ رہنے کون سا دیا ہے ۔آرٹیکل
370 اور 35اے کے خاتمے کے بعد کسی بھی معاہدے کی حیثیت کیا رہی ہے ۔ہر
معاہدے کی خلاف ورزی کئی برسوں سے بھارت کر رہا ہے ۔جسے پاکستان خاموشی سے
برداشت کر رہا ہے اور چوں تک نہیں کرتا۔14اگست کو کشمیریوں کے ساتھ یوم
یکجہتی منانے کا کہنے والی حکومت کو غور سے سوچنا چاہیے کہ پوری قوم متحد
ہو کر کسی مسئلہ کو یوم یکجہتی کے طور پر مناسکتی ہے ،مگر حکومت نے جان
بوجھ کر عوام کو منتشر کیا ہے ۔اب منتشر قوم کسی سے یکجہتی کا کیسے کہہ
سکتی ہے ۔بھارتی ہائی کمشنر کو پاکستان چھوڑنے کا کہا گیا اور وہ چھوڑ کر
چلے بھی گئے ۔دنیا میں کسی بھی ملک کی معمولی سی غلطی پر سفیر کو ملک سے
نکال دیا جاتا ہے ۔یہ ایک علامتی عمل ہے ۔اس سے کسی ملک کو کوئی فرق نہیں
پڑتا کیونکہ نیچے کا عملہ ویسے ہی کام کر رہا ہوتا ہے ۔
یہ بھی یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے پر بھارتی حزب
اختلاف کی مخالفت پاکستان اور کشمیریوں کے حق میں نہیں ہے ۔مودی سرکار کا
کشمیر پر قبضے کی منصوبہ بندی سے بھارت کے ٹکڑے ہونے کے خطرات بہت زیادہ
بڑھ گئے ہیں ۔حکومت پاکستان کے پاس ایک سنہری موقع تھا جب بھارت کی اصل شکل
کو دنیا کے سامنے لایا جاتا ،مگر ہماری مکمل ناکام خارجہ پالیسی نے حکومت
کی نااہلی اور غیر دانشمندی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے ۔ناکام سفارت کاری
کی مثال یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر مودی سرکار کی کشمیریوں پر ظلم و
بربریت کی انتہا کر دی ہے ۔نہتے کشمیریوں کو یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے ۔کشمیر
وادی میں کشمیریوں کو قید کر دیا گیا ہے ۔انٹر نیٹ بند،مسلسل کرفیو،فوجی
طاقت سے عوام کو گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے ۔بچے بھوکے پیاسے مر رہے
ہیں ۔ہسپتال بھرے پڑے ہیں ادویات موجود نہیں ہیں ۔قیامت کا سما بنا دیا گیا
ہے ۔لیکن ابھی تک چین اور ترکی کے علاوہ کسی ملک سے بیان تک نہیں دلوایا جا
سکا۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کو ایک ہی پیغام واضح الفاظ میں دیا جا رہا
ہے کہ لائن آف کنٹرول کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی ، جنگ کا کوئی
اندیشہ نہیں ہے ،بھارت کے خلاف قطعی طور پر ایسے اقدامات نہیں کیے جائیں گے
جن کی بھارت پر زد پڑتی ہو۔ امن کی صورت حال کو خراب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
حکومت عوام کو ’’فلم ‘‘دکھا رہی ہے ۔جس میں دوڑ دھوپ تو خوب ہے ،مگر عملی
طور پر کوئی کام نہیں ہو رہا۔ابھی تک عمران خان اور ان کی ٹیم نے جتنے دعوے
یا کام بتائے ہیں اس میں ایک بھی عمل نتیجہ خیز نہیں رہا۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ مسئلہ کشمیر کو دبانے میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ایک پیج
پر ہیں ،مگر کاش یہ دونوں کشمیر کی آزادی کے لئے ایک ہی صفحے پر ہوتے ۔لیکن
عملی طور پر یہ دونوں نے عوام کی توجہ مسئلہ کشمیر سے اٹھانے کے لئے پوری
تگودو کی ہے ۔
عمران خان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب دور تبدیل ہو چکا ہے ۔میڈیا کو
کنٹرول کرنے سے معاملات چھپائے نہیں جا سکتے ۔متبادل ذرائع ابلاغ اب بہت
طاقتور ہے ،جہاں عوام حکومت کی اس طرح کی ناپاک منصوبہ بندی کو ناکام بنا
دے گی ۔عوام دفاع کشمیر کے لئے کسی حد تک جانے کو تیار ہے۔عوام پاک فوج سے
بھی اگلے مورچوں پر لڑنے کا جذبہ رکھتی ہے ۔عمران خان کو خیال رکھنا ہو گا
کہ اگر وہ عوامی جذبات کے برخلاف بھارت کو رعایتیں دیں گے تو اس سے اندازہ
لگا لیا جائے گا کہ وہ کشمیر کا سودا کر رہے ہیں اور یہ عمران خان ،ٹرمپ
اور مودی سازش تصور کی جائے گی۔اس سازش سے مودی اپنی قوم کا ہیروبن جائے
گا۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنا الیکشن جیت سکتا ہے ،مگر عمران خان غداروں کی فہرست میں
شامل ہوں گے ۔عمران خان کے سپورٹر کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ عمران خان کو
تاریخ غدار وطن کے نام سے یاد کرے ۔ہم من حیث القوم کشمیر کی آزادی کے لئے
متحد ہو کر جدوجہد کریں ۔ان سازشوں سے باخوبی آشنا رہیں ۔ریاست پاکستان کے
پیغام کی ضرورت تھی کہ پوری قوم متحد ہو کر کشمیریوں کے ساتھ ہیں ۔بھارت نے
جو اقدام اٹھائے ہیں وہ قابل مذمت کے ساتھ ساتھ قابل نفرت ہیں ۔جسے کسی
صورت برداشت نہیں کیا جائے گا،مگر سب کچھ برعکس ہوا۔یہ وقت منتشر ہونے کا
نہیں بلکہ1965ء کی طرح اپنی فوج کی پشت پر کھڑے ہونے کا ہے ۔
|