کشمیر کی تقسیم کے بعد ۰۰۰ہندو پاک پر جنگ کے بادل

ہندوستان نے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کو جو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے اس کا خاتمہ کردیا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا یعنی ہندوستانی آئین کی شق 370کے خاتمے سے جموں و کشمیر کی یہ نیم خود مختار حیثیت ختم ہوگئی۔ جموں و کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہA-35کا مسئلہ جو آرٹیکل 370سے بھی پرانا تھا اسے بھی ختم کردیا گیا۔A-35 اس قانون کی رو سے جموں و کشمیر کے حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کامالک نہیں بن سکتاتھا ، یہاں نوکری حاصل نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی کشمیر میں آزادانہ طور پر سرمایہ کاری کرسکتا تھا۔ یہ قوانین اس وقت بنائے گئے تھے جب ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کا جموں و کشمیر پر راج تھا انہوں نے سنہ 1927ء سے 1932ء کے درمیان اسے مرتب کروایا تھا اور ان ہی قوانین کو سنہ 1954ء میں ایک صدارتی حکمنامہ کے ذریعہ آئین ہند میں شامل کردیا گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد موجودہ ہند وستان کے پنجاب، ہریانہ اور دہلی جبکہ پاکستان کے پنجاب اور سندھ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ کاروبار اور روزگار کے سلسلے میں کشمیر کا رخ کرنے لگیں اوران میں سے بیشتر لوگ اس وقت یہیں پر آباد ہونے لگیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے 1927ء میں جموں کے ہندو ڈوگروں نے اس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ سے کہا کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو جموں و کشمیر کے پشتینی باشندے اقلیت میں بدل جائیں گے اور ان کی روزی روٹی بھی ختم ہوجائے گی۔

قارئین جانتے ہیں کہ تقسیم ہند کے وقت جموں و کشمیر کے حکمراں راجہ ہری سنگھ نے ابتداء میں تو جموں و کشمیر کو خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا تاہم بعد میں انہوں نے مشروط طور پر اسے ہندوستان سے الحاق پر آمادگی کا اظہار کیا۔ ہندوستانی حکومت نے آئین ہند میں دفعہ 370کو شامل کیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ اور اختیارات دیئے گئے تھے۔ اس دفعہ کو اُس وقت ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعظم شیخ عبداﷲ اور ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی تقریباً پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد شاملِ آئین ہند کیا گیا تھا۔اس کی رو سے ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا او رہندوستان کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہوسکتی تھی۔بتایا جاتا ہے کہ اس کے تحت ریاست کو اپنا آئین بنانے، الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا تھا جبکہ بتایا جاتا ہیکہ ہندوستان کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔ اس آرٹیکل 370کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجی امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر ہندوستانی قوانین کا اطلاق نہیں کرسکتی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 360کے تحت مرکزی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرسکتی ہے تاہم آرٹیکل 370کے تحت ہندوستانی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن اب دفعہ 370اور A-35کی برخواستگی کے بعد جموں و کشمیر کے حالات بدل چکے ہیں۔ اے ۔35کی برخواستگی کی وجہ سے یہ خدشہ بتایا جارہا ہے کہ جس طرح فلسطینیوں کو اسرائیلیوں نے بے گھر کردیا ہے اسی طرح کشمیریوں کو بھی بے گھر کردیا جاسکتا ہے ، انکی زمینوں ، وسائل اور روزگار پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف اس تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے تو دوسری جانب ہندوستانی حکومت کے وزیر داخلہ امیت شاہ آرٹیکل 370کے خاتمہ کو اچھا بتانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کشمیریو ں کے حق میں بہتر بتارہے ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی نے تو کشمیریوں کیلئے اسے ایک نوید صبح بتائی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا جموں و کشمیر کے عوام ہندوستانی حکومت کے اس فیصلہ کو قبول کرلیں گے؟جموں وکشمیر کے عوامی احتجاج کو ہندوستانی حکومت کس طرح کچلنے کی تیاریاں کررکھی تھیں اس سلسلہ میں بہت کم خبریں منظرعام پر آئیں ۔البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام حکومت ہند کے اس فیصلہ کے خلاف کسی بھی وقت احتجاج کرسکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ تشدد کے چند واقعات کو چھوڑ کر ہر جگہ امن ہے تاہم پولیس اہلکار یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ لوگوں کا غصہ کسی بھی وقت پرتشدد شکل اختیار کرسکتا ہے۔ اگر جموں و کشمیر کے عوام پر حکومتِ ہند اور سیکیوریٹی ایجنسیاں تشدد کریں گے تو یہاں کے حالات بدتر ہوجائیں گے ، عسکریت پندی میں اضافہ ہوگا اور ان حالات میں کوئی بھی سیاح یا کاروباری لوگ یہاں آنے کو ترجیح نہیں دیں گے بلکہ اس سے دور رہنے میں عافیت سمجھیں گے۔ ہندوستانی حکومت نے آرٹیکل 370اور A-35کی برخواستگی سے قبل جس طرح جموں و کشمیر کو پورے حصار میں لے لیا تھا اور سیکیوریٹی فورسس کو تعینات کردیا تھا اس سے وہاں کے حالات جنگی نوعیت کے بتائے جارہے ہیں۔ اسکولس، کالجسس، دکانیں اور کاروباری ادارے ، بازار سب بند بتائے جارہے ہیں۔ وادی میں ٹیلیفون لائنز، موبائل سرویسز اور انٹرنیٹ براڈ بینڈ کی سہولیات بند کردی گئی ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سینئرپولیس عہدیدار کا کہنا ہیکہ کچھ دن تک نہ تو کرفیو میں نرمی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی فون لائنوں اور موبائل فونس کی سہولیات کو بحال کیا جاسکتا ہے ۔اس سلسلہ میں ہندوستانی وکیل پرشانت بھوشن کہتے ہیں کہ ہندوستانی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370کا خاتمہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔ اس کے خاتمہ سے کشمیر میں کشیدگی بڑھنے کا اندیشہ ہے ۔جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی کی رہنما محبوبہ مفتی نے مرکزی حکومت کے اعلان کے بعد اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’’آج کا دن انڈیا کی جمہوریت میں سیاہ ترین دن ہے‘‘۔ انہوں نے لکھا کہ اس اقدام سے برصغیر پر تباہ کن اثرات مرتب ہونگے۔انکا کہنا ہیکہ ہندوستان کی حکومت کے ارادے واضح ہیں وہ جموں و کشمیر کے علاقے کو یہاں کے عوام کو خوفزدہ کرکے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے جموں و کشمیر کے سلسلہ میں بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ اس مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔

پڑوسی ممالک پاکستان اور چین نے ہندوستانی فیصلہ کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے تو پارلیمنٹ میں اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے اپوزیشن سے کہا کہ وہ انہیں بتادیں کہ کیا وہ ہندوستان پر حملہ کردیں۔یہ سوال تو عمران خان نے اپوزیشن کی نعرہ بازی کے موقع پر کیا لیکن ہندو پاک کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہوسکتے ہیں کیونکہ پاکستانی حکومت اس سلسلہ میں سخت رویہ اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں 6؍ اگسٹ کو حکمراں اور اپوزیشن نے متحدہ طور پر ہندوستانی فیصلہ کو ظالمانہ فیصلہ قرار دیا ہے۔ پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر بحث کے بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ہندوستان کے زیر اہتمام کشمیر کی صورتحال پر ردعمل ترتیب دینے کیلئے ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ کمیٹی ہندوستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کی صورتحال پر قانونی، سیاسی، سفارتی ردعمل سے متعلق تجاویز تیار کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ اس کمیٹی میں پاکستانی وزیر خارجہ ، سکریٹری خارجہ ، اٹارنی جنرل، عالمی قوانین کے ماہر وکیل اور وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصہ احمر بلال صوفی کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور ڈی جی آئی ایس پی آر شامل ہونگے۔ عمران خان کا کہنا ہیکہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے کشمیر کو انڈیا کا حصہ بنانے کی کوشش ان کے نسل پرستانہ رویہ کا مظہر ہے۔ اس سلسلہ میں پاکستانی فوج کے کور کمانڈرز کا ایک اجلاس 6؍ اگسٹ کو راولپنڈی میں منعقد ہوا جس کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں بتایا کہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے انڈین اقدامات کو مسترد کئے جانے کی مکمل حمایت کی گئی۔انہوں نے ٹویٹ میں بتایا کہ پاکستان نے کبھی بھی انڈیا کی جانب سے آرٹیکل 370اور آرٹیکلA-35کی مدد سے کشمیر پر قبضہ کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کشمیریوں کی جدوجہد کے ساتھ آخری وقت تک کھڑی ہے ، پاکستانی فوج اس بارے میں مکمل طور پر تیار ہیں اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا پاکستانی حکومت اور فوج جموں و کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستانی حکومت اور فوج کے ساتھ جنگ کرنے تیار ہے۔ اگر ہندوپاک کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو یہ ان دونوں ممالک کے لئے ہی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کیلئے بھی خطرناک نقصاندہ ہوسکتی ہے ۔یہاں ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ گذشتہ دنوں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا تھا جہاں انکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤز میں استقبال کیا ۔ امریکہ ا ور پاکستان کے درمیان جو کشیدہ صورتحال پائی جارہی تھی اس میں کسی حد تک کمی کے آثار نمایاں ہونے لگیں ۔ اس موقع پر پاکستان نے جس طرح جموں و کشمیر کے مسئلہ کے حل کیلئے امریکہ کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کی دعوت دی تھی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ثالثی کا کردار بحسن خوبی انجام دینے کا عندیہ دیا تھا یہی نہیں بلکہ انکا کہنا تھا کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی انہیں اس مسئلہ میں ثالثتی کا رول ادا کرنے کی دعوت دی تھی جسے وہ قبول کرتے ہیں۔ اس بیان کے بعد ہندوستان میں ایک ہلچل مچ گئی تھی اور اب جبکہ 5؍ اگسٹ کو ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر کی صورتحال کو بدلنے کے لئے دفعہ 370اور دفعہ A-35کی برخواستگی کا اعلان کیا تو اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کسی بھی صورت میں کسی تیسرے فریق کو جموں و کشمیر کے مسئلہ میں مداخلت کرنے دینا نہیں چاہتا ، چاہے وہ امریکہ جیسے سوپر پاور ملک کے صدر ہی کیوں نہ ہو۔ ہندوستان کے اس فیصلہ نے عالمی سطح پرسب کو چونکا دیا ہے ، اب دیکھنا ہیکہ پاکستان اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں کس طرح لے جائے گا اور اقوام متحدہ میں جموں وکشمیر کے مسئلہ پر کس قسم کا کھیل کھیلا جائے گا۔ اتنا ضرور ہے ہیکہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کے بعد اب پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے حالات بھی پرتشدد رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں 7؍ اگسٹ کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں سول اور عسکری قیادت نے شرکت کی۔ سمجھا جارہا ہے کہ اس اجلاس میں ہندوستانی اقدام پر پاکستانی حکومتی اقدامات کی بریفنگ دی گئی اس کے علاوہ مسلم ممالک سمیت بین الاقوامی سطح پر رابطوں سے متعلق بات چیت بھی ہوئی ہے۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کے نامزد ہائی کمشنر جو ہندوستان آنے والے تھے انہیں اب پاکستانی حکومت ہندوستان نہیں بھیجے گی جس کافیصلہ اس اجلاس میں کیا گیا اور حکومت ہند سے پاکستان نے کہا ہے کہ وہ بھی اپنا ہائی کمشنر جو اسلام آباد میں موجود ہیں انہیں واپس بلالیں۔ اس طرح دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے پانچ نکاتی اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں سفارتی تعلقات محدود کرنے، اور دو طرفہ تجارت معطل کرنیکے علاوہ تمام دو طرفہ معاہدوں کا ازسرنوجائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کے دوران کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا اور کہا کہ پاکستان آرٹیکل 370کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا تھا اور اس کے خاتمے کے ساتھ جموں و کشمیر اور لداخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہیکہ یہ فیصلہ اچانک نہیں بلکہ بہت سوچ بچار کے بعد کیا گیا ہے۔ نریندر مودی کا کہنا تھا کہ دفعہ 370اور A-35نے علحدگی پسندی، دہشت گردی ، اقربا پروری اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے علاوہ کچھ نہیں دیا ہے اور یہ کہ عشروں سے خاندانی حکومتوں نے جموں و کشمیر میں نوجوان قیادت کو ابھرنے نہیں دیا۔ وزیراعظم کا یہ بیان کشمیر کے سابقہ وزراء اعلیٰ فاروق عبداﷲ، عمر عبداﷲ ، محبوبہ مفتی وغیرہ کی طرف ہوسکتا ہے کہ کیونکہ ان ہی خاندانوں نے کشمیر پر حکومت کی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ بی جے پی کی حکومت ان خاندانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہے اور جموں کشمیر اور لداخ سے بدعنوانی وغیرہ کے معاملات کو کیسے ختم کرتی ہے جبکہ ملک کے کی دیگر ریاستوں میں بدعنوانی ، رشوت ستانی اور ناانصافی کا خاتمہ کس طرح کرتی ہے۔ نریندر مودی حکومت کشمیر کے عوام کو کیا واقعی خوشحال زندگی فراہم کرنے میں کامیاب ہوپائے گی یا پھر کشمیری عوام سیکیوریٹی ایجنسیوں کے ظلم کا شکار ہونگے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ادھر چین نے بھی ہندوستان کے فیصلہ پر کہا کہ ہندوستان جموں و کشمیر کے یکطرفہ اقدامات سے گریز کرے تاکہ اس علاقہ میں کشیدگی سے بچا جائے ۔ چین نے لداخ کی بحیثیت ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ کی تنظیم جدید کرنے کے نئی دہلی کے فیصلہ کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ لداخ پر ہندوستان کا دعوی ہے کہ لیکن چین اس پر اپنا کنٹرول بتاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارتِ خارجہ چین کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں ہندوستان نے اپنے داخلی قوانین میں یکطرفہ ترمیم کے ذریعہ چین کے علاقائی اقتدار اعلیٰ کی بیخ کنی جاری رکھی ہے ۔ اس عمل کو چین ناقابل قبول بتاتا ہے ۔ چین نے ہندوستان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ سرحدی مسئلہ پر اپنے قول و فعل میں محتاط رہے اور دونوں فریقین کے درمیان طئے پائے متعلقہ معاہدات پر سختی کے ساتھ عمل کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کرے جس سے سرحدی مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا ہو۔ اس طرح جموں و کشمیر اور لداخ کی تقسیم سے ہندوستان کے پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات خطرناک رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ اب دیکھنا ہیکہ جموں و کشمیر اور لداخ کی تقسیم پر ملک میں کس قسم کے حالات پیدا ہوتے ہیں اور ملک کی معاشی حالت پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کشمیری عوام سے حکومت ہند بات کرنا چاہتی ہے لیکن علحدہ کشمیر سے متعلق کسی تنظیم یا فرد سے حکومت بات کرنا نہیں چاہتی ۔ کشمیر کے حالات انتہائی کشیدہ رخ اختیار کرسکتے ہیں ،احتجاج کی خبریں بھی آرہی ہیں ،نہیں معلوم ان حالات کی نذر کتنے کشمیری نوجوان مرد و خواتین اور بچے و بوڑھے ہوجائیں گے ۔اﷲ تعالیٰ ہر ایک کی حفاظت فرمائے اور حالات کشمیریوں کے حق میں بہتر سے بہتر بنائے ۔ آمین۔
****
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209612 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.