کچھ عرصہ پہلے ہالی وڈ مووی "بن حر" کا دیکھنے کا موقع
ملا جس کی کہانی جذام (کوڑھ) کے مرض کے گرد گھومتی ہے۔اس فلم کی کہانی 1880
میں لکھے گئے ایک ناول "بن حر: اے ٹیل آف دی کرائسٹ" سے ماخوذ ہے۔ اس فلم
نے 1959 میں 11 آسکر ایوارڈز جیتے اور دنیا کی عظیم ترین فلموں میں شمار
ہوتی ہے۔۔مسیحی عقیدے پر مبنی اس فلم میں ہیرو جوڈا بن حر (چارلٹن ہسٹن)
اپنی ماں اور بہن کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے جواسے شہر سے دور کوڑھیوں کی
بستی میں موجود ملتی ہیں۔جب وہ انہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے تو وہ اسے
خود سے دور دھکیلتی ہیں تاکہ وہ اس بیماری سے محفوظ رہے۔ اس پریشانی کا
شکار ہیرو کو عیسیٰ نامی شخص کے بارے پتا چلتا ہے جو ہر بیمار کو تندرست کر
دیتا ہے۔ اپنے خاندان کے علاج کے لیے جب وہ اس مسیح کو ڈھونڈنے نکلتا ہے تو
اسے معلوم ہوتا ہے کہ اسےمصلوب کر دیا گیا ہے۔اس صورتحال کو دیکھ کر اس کی
آخری امید بھی ختم ہوجاتی ہے لیکن فلم کے آخر میں معجزاتی بارش ہوتی ہے جس
میں حضرت عیسیٰ کا صلیب سے بہتا ہوا خون بارش کے پانی سے مل کر کوڑھ زدہ
لوگوں کو تندرست کر دیتا ہے۔
اس فلم کے مذہبی عقیدے سے قطع نظر میرے لیے کوڑھیوں کی بستی قابل توجہ
تھی۔ساٹھ کی دہائی تک پاکستان میں بھی "کوڑھیوں کی بستیاں" عام تھیں اور اس
مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ لوگ آنکھ منہ اور ناک لپیٹ
کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے۔ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی
احاطے تھے۔پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتاتھا اور جذام کے شکار
مریض کے پاس دو راستے ہوتے تھے یا تو سسک کر جان دے یا خود کشی کر لے۔یہ وہ
دور تھا جب عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو جذام کا شکار بدترین ممالک کی
فہرست میں شامل کر دیا۔اس دوران مشنری تنظیم کے ساتھ جرمنی نژاد ڈاکٹر رتھ
فاؤ کی پاکستان میں آمد ہوئی تو انہوں نے یہاں جذام کے مریضوں کی بدحالی کا
گہرا اثر لیا۔یہ انسانی ہمدردی کی انتہا تھی کہ انہوں نے جرمنی کی پرآسائش
زندگی کو خیر باد کہہ کر پاکستان میں جذام کے مریضوں کی بحالی کے لیے کام
شروع کر دیا۔
انہوں نے نے کراچی کے ریلوے سٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ کوڑھیوں کی بستی کی
ایک جھونپڑی میں جزام کا سینٹر کھولا۔میری ایڈیلیڈ لیپرسی سنٹرکے نام سے
قائم ہونے والا یہ سینٹر جزام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے
لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963ء
میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے
والے جزام کی مریضوں کا علاج کیاجانے لگا۔
کام میں اضافے کے بعد کراچی کے بعد دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک
قائم کیے گئے اور 170 کے قریب لپریسی سینٹر بنائے۔ جزام کے مرض پر قابو
پانے کے لئے ڈاکٹر رتھ نے پاکستان کے دورافتادہ علاقوں کے دورے بھی کئے اور
وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی۔ان کی کوششیں رنگ لائیں اور چند ہی سالوں
میں پاکستان جذام پر مکمل قابو پانے والا ایشیا کا پہلا ملک بن گیا۔
آج کوڑھیوں کی مسیحا کی دوسری برسی ہے لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہم
اس عظیم خاتون کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے اور نئی نسل کو اپنے قومی
ہیروز سے آگاہ کرنے کے بجائے آج بھی ان کے انجام پر بحث کیے جارہے ہیں۔مجھے
کچھ دوستوں نے مختلف پوسٹس میں مینشن کر کے رائے مانگی کہ آپ کا کیا خیال
ہے عیسائی ہونے کے باجود ڈاکٹر رتھ فاؤ کی انسانی خدمات کی بنیاد پر انہیں
جنت مل جائے گی؟ہمارا یہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمیں کس نے اختیار دیا
ہے کہ حشر سے پہلے یہاں حشر برپا کر کے جانے والے کے لیے جنت دوزخ کا فیصلہ
کریں۔کوئی بڑی بات نہ ہوگی کہ حساب کتاب کے دن ان فضول مباحثوں کی وجہ سے
ہماری پکڑ ہوجائے۔
|