عمران خان کی پارلیمنٹ میں کل کی تقریر بہت مثبت اور واضع
تھی ۔سب سے پہلے انھوں نے کہا کہ وہ جب سے حکومت میں آئے ہیں ہمسائے ممالک
سے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اور وہ ہمیں پچھلے ایک سال میں اس معاملے
میں سنجیدہ نظر بھی آئے۔ اشرف غنی کا 27 جون کو پاکستان کا دورہ اور عمران
خان کا 21 اپریل کو ایران جانا اسی سلسلے کی کڑی لگتی ہے۔ جناب عمران خان
نے واضع الفاظ میں کہا کہ وہ انڈیا کے ساتھ صلح کے معاملات چاہتے تھے اور
چاہتے ہیں۔ لیکن بھارت سنجیدہ نظر نہیں آ رہا ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ
ہمسایوں سے اچھے تعلقات کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اگر آپ ہر وقت حالت جنگ
میں ہوں گے تو معاشی ترقی کے بارے میں کبھی نہیں سوچ سکتے۔ میری ذاتی رأے
ہے کہ صدر ٹرمپ کو کشمیر میں ہونے والی اس صورتحال کے بارے میں پہلے سے علم
تھا وہ صرف عمران خان کو اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔ میں واپس وزیر اعظم
عمران خان کی کل کی تقریر کی طرف آتا ھوں جس میں انھوں نے پاکستان کے نیشنل
ایکشن پلان کی بات کی جو 16 دسمبر 2014 کو APS پشاور والے انتہائی افسوس
ناک واقع کے بعد جنوری 2015 میں تمام سیا سی جماعتوں نے ایک ساتھ مل کر اور
ایک آواز ہو کر بنایا اور فیصلہ کیا گیا کہ کسی بے عسکریت پسند گروپ کو
پاکستان میں کا م کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گے۔ ہم نے ہمیشہ بھارت کو یہ
یقین دلانے کی کو شش کی کہ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان
کا ہوا ہمارے 70 ہزار لوگ شہید ہوے ہمیں 130 بلین ڈالر کا نقصان ہوا لیکن
بھارت کبھی بھی اس معاملے میں سنجیدہ نظر نہیں آیا آخر میں خان صاحب نے کہا
کہ جنگ اس سلسلے کا حل نہیں ہے ہمیں ڈائلاگ کے ساتھ ہی اس مسلئے کو حل
کرناچاہیے۔ باقی تمام اپوزیشن جماعتو ں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر سیاست
نہ کریں بلکہ موجودہ حکومت اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا ساتھ دیں
اور بیرونی طاقتوں کو پیغام دیں کہ جب بات پاکستان کی ہو گی تو ہم سب اکٹھے
ہیں ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں اور ان سب مسائل سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں جو
ہم پر مسلط کئے گئے ہیں۔
|