سلامتی کونسل اجلاس کا ’’فالو اپ‘‘ کیا ہو گا

کشمیر پر سلامتی کونسل کا بند کمرے میں مشاورتی اجلاس منعقد ہونا پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔ اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیااور نہ ہی خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہکیا گیا۔ یہ پاکستان کے ہوم ورک کا فقدان سمجھا جا سکتاہے۔ پاکستان نے زیادہ توجہ چین اور امریکہ پر دی۔ روس، فرانس اور برطانیہ تک رسائی اور تعاون کے حصول میں زیادہ سرگرمی نہ دکھائی۔بھارت نے دنیا پر باور کرایا ہے کہ کشمیر، پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ مسلہ ہے۔ جسے دونوں بات چیت سے حل کریں گے۔اس کے لئے شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ امریکہ ، فرانس اور جرمنینے بھارتی مکاری سے ہی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان اور بھارت پر باہمی بات چیت سے مسلہ حل کرنے پر زور دیا۔ تا کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ مذاکرات کے راستے بند نہ ہو جائیں۔ مگر یہ سب معاملہ کو لٹکاناہے۔ گو کہ اقوام متحدہ میں نصف صدی بعد کشمیریوں کی آواز سنی گئی، جو کہ بڑی کامیابی ہے۔ چین کا اس میں منفرد کردار ہے۔ پہلا موقع ہے کہ روس نے ویٹو نہ کیا۔ ورنہ مشاورتی اجلاس کا انعقاد بھی ناممکن تھا۔ روس کے ساتھ مزید سٹریٹجک تعلقات کے فروغ کی ضرورت ہے۔ فرانس کے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات ہیں۔ پاکستان کی سفارتکاری میں مزید بہتری آ جائے تو بعض چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں مکمل بلیک آؤٹ، ناکہ بندی اور کرفیو، بھارتی یک طرفہ اقدامات، شہری آزادیوں کو سلب کرنا، سٹیٹس کو میں تبدیلی، خصوصی حیشیت میں تبدیلی، مقبوضہ ریاست کے ٹکڑے کرناجیسے بھارتی اقدامات نے دنیا کو تشویش میں مبتلا کیا۔ 14روز گزرنے کے باوجود مقبوضہ ریاست میں زندگی مفلوج ہے، لوگ گھروں میں قید ہیں۔ ان کے مواصلاتی رابطے منقطع ہیں۔ ہندو اکثریت والے علاقوں میں ٹیلیفون سروس بحال کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، مگر وادی کشمیر، وادی چناب، پیر پنچال، کرگل میں سخت پابندیاں جاری ہیں۔ تمام سڑکیں، گلیاں، راستے خاردار باڑوں سے بند کی گئی ہیں۔ جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ پابندیاں آہستہ آہستہ ختم کرنے کے اعلانات گمراہ کن ہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند ہے۔ بازار، منڈیاں، تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر مسلسل مقفل ہیں۔ ٹرانسپورٹ بھی غائب ہے۔ جب لوگوں کو گھروں میں قید رکھا گیا ہو تو شہری زندگی مفلوج ہونا اور سڑکیں سنسان ہی نظر آئیں گی۔

ان حالات مین سلامتی کونسل کا مشاورتی اجلاس بغیر کسی اعلامیہ کے ختم ہونا معنیٰ رکھتا ہے۔ بھارت نے ایک متنازعہ خطہ میں بدامنی پیدا کی ہے۔ جہاں سلامتی کونسل نے اپنے فوجی مبصرین تعینات کر رکھے ہیں۔ مشاورتی اجلاس میں ان فوجی مبصرین کی رپورٹس کا بھی جائزہ لیا گیا۔ تا ہم سلامتی کونسل نے مقبوضہ کشمیر میں امن مشن بھیجنے یا بھارت وک اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق از خود کارروائی کی جانب توجہ نہ دی۔ سلامتی کونسل نے متعدد عالمی تنازعات پر قراردادیں منظور کیں۔ ان پر من و عن عمل کرایا۔ مگر کشمیر پر سلامتی کونسل کی قرادادوں کی منظوری کے باوجود اسے حل نہ کیا جا سکا۔ اگر سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے مفادات وابستہ ہوں تو ان قراردادوں پر عمل در آمد ہو جاتا ہے۔ ورنہ وہ ردی کی ٹوکری میں چلی جاتی ہیں۔ سلامتی کونسل نے کوریا، مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان کے تنازعات میں اپنا کردار ادا کیا۔ مگر سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس میں کشمیر پر دوٹوک موقف سامنے نہ آسکا۔ سلامتی کونسل اگر چاہے تو مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی طرح مسلہ کشمیر بھی حل کرا سکتی ہے اور کشمیریوں کو بھی استصواب رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے حق دلا سکتی ہے۔ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے 13ویں روز او آئی سی نے کرفیو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ ایسے وقت میں کیا گیا جب بھارت پابندیاں اٹھانے کا اعلان کر رہا تھا۔ بھارت کے اعلانات ہمیشہ دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ جب بھارت نے کشمیریوں کی مذہبی آزادی سلب کی اور انہیں مساجد میں نماز ادا کرنے نہ دی، عید پر بھی مکمل لاک ڈاؤن کیا۔ مداخلت فی الدین پر او آئی سی صرف تشویش ہی ظاہر کر سکی۔ بھارت نے او آئی سی کی طر ف سے کشمیری مسلمانوں کے تحفظ اور ان کے مذہبی حقوق پر بغیر کسی رکاوٹ عمل در آمد یقینی بنانے کے مطالبے پر بھی کوئی توجہ نہ دی۔ بھارت اعلانیہ مذہبی حقوق دینے سے انکار کر کے بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی توہین کرتا رہا۔ اگر مسلم دنیا بھارت پر دباؤ ڈالے یا بھارت کو مسلم دنیا کا کوئی احساس ہو تو بھی وہ کشمیریوں پر مظالم سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔ بھارت کا نظام حکومت اور عدالتی نظام مسلم دشمنی اور امتیازی پالیسی پر مبنی ہے۔ مسلمانوں کا بکھرنا، اپنے اپنے مفادات کی غلامی ہی نے کشمیر، فلسطین سمیت دنیا کے اہم تنازعات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ مسلم دنیا کی خاموشی اور بے حسی نے بھارت ا ور اسرائیل کو کشمیریوں اور فلسطینیوں پر مطالم ڈحانے اور انہیں غلام بنائے رکھنے کی شے دی ہے۔

سلامتی کونسل کا بند کمرے کا اجلاس کانگریس کے مطابق بھارت کی سٹریٹجک ناکامی ہے۔ کشمیر ایک بار پھر عالمی توجہ کا باعث بنا ہے۔ تا ہم دیکھنا یہ ہو گا کہ پاکستان کا’’ فالو اپ‘‘کیا ہو گا۔ جب تک پاکستان شملہ ، اعلان لاہور سمیت دو طرفہ معاہدوں کے جال میں پھنسا رہے گا ، تب تک بھارت دنیا کو گمراہ کرنے سے باز نہیں آ سکتا۔ یہ دوطرفہ ناکام معاہدے دنیا کو مسلہ کشمیر سے دور رکھنے کا بہانہ اور بنیاد فراہم کر رہے ہیں۔ کشمیر کے نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ معاہدے پاکستان کے مفادات کے خلاف ہیں۔ پاکستان سندھ طاس معاہدے پر بھی نظر ثانی کی درخواست نہیں کر سکتا۔ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا تنازعہ مستقبل میں تنازعہ کشمیر کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ پاکستان نے کشمیر کو اگر اپنی زندگی اور موت کا مسلہ نہ سمجھا اور اسے روایتی انداز میں ڈیل کرنے کا عمل جاری رکھا تو مستقبل میں سنگین نتائج بر آمد ہوں گے۔ آج کشمیر نہیں تو کل پانی پر جنگ ناگزیر ہو گی۔ سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس کا بلا نتیجہ ختم ہونا، اس پر صرف چین اور پاکستان کے بیانات کے ڈنکے بجاناکافی نہیں۔ اسلام آباد کو اس سے آگے دیکھنا چاہیئے ، ان کمزوریوں اور خامیوں کا دور کیا جانا ضروری ہے جو بھارت کو آکسیجن فراہم کرتی ہیں۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس کے فالو اپ پر فوری اور سنجیدگی سے توجہ دی جائے ۔ سلامتی کونسل اور دنیا کو باور کرایا جائے کہ پاک بھارت باہمی طور مسلہ حل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ مسلہ کشمیر کو سلامتی کونسل چیپٹر 6کے بجائے چیپٹر 7کے تحت لائے اور از خود کارروائی کرے۔ سلامتی کونسل مسلہ کشمیر پر اپنی قرادادوں پر عمل درآمد کرانے کے لئے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے ماڈلز پر عمل کرے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 488964 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More