عملی طور پر بھارت سے جنگ کا آغاز ہو چکا ہے ۔ سیاسی
محاذ،سماجی محاذ اور میڈیا پرجنگ زور شور سے جاری ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی
بہت ناکام نہ سہی مگر بہت کامیاب بھی نہیں۔یہی غنیمت ہے کہ بھارت کی امیدیں
اس حد تک پوری نہیں ہوئیں جتنی اسے امید تھی۔یہ جنگ کسی حتمی فیصلے تک جاری
رہے گی۔ تا وقتیکہ کوئی ہتھیار نہ ڈال دے۔ بھارت کا انداز جارحانہ ہے۔ ہم
نے مدافعانہ پالیسی اپنائی ہے۔ یہ پالیسی شروع میں تو ٹھیک تھی مگر ہمیں
کچھ نہ کچھ جارحانہ انداز اپنانا ہو گا۔ اسلحے کی محدود جنگ بھی ناگزیر ہے
اس کے علاوہ چارہ نہیں۔اس وقت ضرورت ہے کہ قوم سارے اختلافات کو بالائے طاق
رکھتے ہوئے یک سوئی سے فوج کو سپورٹ کرے اور دشمن کو پیغام دے کہ کسی بھی
جار حیت کی صورت میں اسے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کا سامنا ہو گا۔مگر کیا
ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ہم کہتے ہیں کشمیر
پاکستان کی شہ رگ ہے۔ بھارت تو جو کررہا ہے سو کر رہا ہے ، مگر لگتا ہے کہ
اس شہ رگ کو کاٹنے میں ہم بھی اپنا حصہ ڈالنے کی پوری سہی کر رہے ہیں ۔
پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اس مقصد کے لئے بلایا گیا تھاکہ دنیا کو پیغام
دیا جائے کہ کشمیر کے معاملے میں ہم سب ایک ہیں۔مگر وہاں اپنی اپنی ڈفلی
اپنا اپنا راگ والا سماں تھا۔ ہر شخص اپنے دکھ اور اپنے مفاد کی بات کرتا
رہا۔ ہمارے محبوب لیڈروں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں ایک دوجے کو کتا بھی
کہا گیا۔لگتا تھا مقابلہ حسن بد تمیزی یا بد اخلاقی جاری ہے۔ جگت بازی ایسی
کہ بھانڈ اور مراثی بھی انہیں استاد مان لیں۔ گالیاں ایسی کہ تمام اخلاقی
معیار بھی مات ہو جائیں۔ ذمہ داروں کو شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔ابھی تک
مقابلہ جاری ہے اور برابر ہے ۔ دنیا ہماری یکجہتی کا تماشہ دیکھ رہی ہے اور
ہم اپنی اصلیت دنیا کو دکھاتے جا رہے ہیں۔ شاہنامہ اسلام جیسی معروف کتاب
کے خالق جناب حفیظ جالندھری مرحوم اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوتے ایک جگہ
کہتے ہیں،’’کتے مل جل کر کبھی نہیں کھاتے مگر کبھی کسی نیک مقصد کے لئے
اکھٹے ہوں تو اس وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں‘‘۔ سوچ رہا ہوں کہ اپنے
پالیمانی لیڈروں کو کیا کہوں۔ افسوس ان میں سے نوے فیصد لوگ اسمبلی کے
معیار کو چھوتے بھی نہیں۔وہ لوگ جو مسائل سے دوچار ہیں اسمبلی میں ان کی
کوئی نمائندگی نہیں اور جو نمائندگی کر رہے ہیں وہ صرف اور صرف اپنے مفادات
کی حفاظت کی حفاظت کرتے ہیں ، عوام اور عوام کے جذبات کا انہیں احساس ہی
نہیں۔ کشمیر کا احساس تو بہت دور کی بات ہے۔
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ایک وہ راستہ جو ٹیپو سلطان
نے اپنایا تھا۔ یہ کہہ کر کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی
سے بہتر ہے ٹیپو سلطان نے مرنا قبول کر لیا تھا مگر کسی کی اطاعت قبول نہیں
کی تھی کسی کے آگے سر نہیں جھکایا۔وزیر اعظم صاحب یقیناً یہی بہترین راستہ
ہے، یہی عزت کا راستہ ہے۔ یہی مسلمانوں اور اہل ایمان کاپسندیدہ راستہ اور
وطیرہ ہے۔ مگر اس راستے کو اپنانے کے لئے بڑی جرات اور ہمت کی ضرورت ہے ،
ایک بہت مضبوط ایمان اور یقین درکار ہے۔وفا دار اور فہم و فراست رکھنے والے
ساتھی درکار ہیں۔تدبر کی ضرورت ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو انسانوں کو تاریخ
میں باعزت نمایاں مقام دیتا ہے۔انہیں وقار دیتا ہے۔ لوگ ابد تک اپنے ایسے
لیڈروں کو عقیدت سے یاد رکھتے ہیں۔ قومیں صدیوں ایسے لوگوں پر ناز کرتی ہیں۔
صدیوں بعد بھی لوگ ان کے نام پر دیدہ و دل فرش راہ کرتے ہیں۔
مگر آپ کی صفوں میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی۔ آپ کے ساتھی اپنی نوے فیصد
توانائیاں انتقامی کاروائیوں پر خرچ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ عہدوں کے سبب آپ سے
وفادار ہیں۔ ا یسے لوگ فہم و فراست کے لحاظ سے نا بالغ اور عقل سے اندھے
ہوتے ہیں۔ نابالغ اور اندھوں کا ساتھ ہو تو کامیابی کیسے مل سکتی ہے۔ مانتا
ہوں احتساب بہت ضروری ہے۔ اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ بہت لازم ہے۔ مگر آپ کے
انداز نے احتساب کو مذاق بنا کے رکھ دیا ہے۔ جس کرپشن کو آپ ختم کرنا چاہتے
ہیں اس میں تو کوئی پیش رفت نہیں نظر آتی۔ آپ کے انداز سے لوگوں کا اس بات
پر ایمان زیادہ پختہ ہونے لگا ہے کہ کرپٹ لوگ کچھ نہ کچھ کام کر جاتے ہیں
جب کہ ایماندار باتیں بنانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ احتساب کا ادارہ آزاد
ہے وہ جو کرتا ہے کرے مگر اس کو دھولچی آپ نے کیوں فراہم کئے ہوئے
ہیں۔احتساب کے ادارے کو اس کے حال پر چھوڑ دیں اورکبھی جائزہ لیں کہ کوئی
ایسا کام ہے جو آپ کی حکومت میں رشوت کے بغیر ہو رہا ہے۔رشوت خور، صاحب
اختیار کا لحاظ کر لیتے ہیں میرے جیسے لوگوں کو آج بھی کوئی معاف نہیں کرتا۔
پیسے دیں تو کام ہوتا ہے۔ آ پ کی کارکردگی یہ ہے کہ ترقیاتی کام پچھلے دور
میں ہوتے نظر آتے تھے۔ آج اول تو کوئی کام ہوتا نظر نہیں آتا اور جو ہوتا
ہے اس کی رفتار اس قدر سست ہوتی ہے کہ لوگ تقابل کرتے اور ہنستے ہیں کہ ووٹ
دینے کی غلطی ہو گئی۔
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ دوسرا راستہ بہادر شاہ ظفر کا راستہ ہے جس نے
انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ،ذلت کی قید قبول کر لی تھی اور گمنامی
کی موت مر گیا۔ مگر جناب وزیر اعظم بہادرشاہ ظفر ایک مجبور اور بے بس شخص
تھا وہ عملاً پہلے ہی قید تھا، معمولی وظیفے پر گزارہ کرتا تھا۔ اس کا
اقتدار اس کے محل کے اندر بھی پوری طرح نہ تھا۔یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے
اس لئے لوگ اس کو برا ضرور کہتے ہیں مگر اس کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے ذلت
کا وہ بد ترین مقام نہیں دیتے جو میرجعفر اور میر صادق جیسے لوگوں کا ہے۔
کشمیر کا مسئلہ اس قدر جذباتی معاملہ ہے کہ اس میں کوئی بھی کوتاہی
حکمرانوں کو میر جعفر اور میر صادق کی صف میں کھڑا کر دے گی۔عزت کمانے میں
اک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے جب کہ ذلت تو کسی بھی چھوٹی سی کوتاہی کی صورت
میں لمحوں میں آپ کے پاس ہوتی ہے۔ اب بھی وقت ہے ۔ اگر آپ نے خود کو ٹیپو
سلطان کی طرح تاریخ میں زندہ رہنا ہے تو زندگی کا ثبوت دیں۔ اگر آپ نے جرات
سے کشمیری اور پاکستانی عوام کی امیدوں کو پورا کر دیا تو نہ صرف آپ کا نام
زندہ رہے گا بلکہ نیازیوں پر مشرقی پاکستان کے حوالے سے لگا دھبہ بھی دور
ہو جائے گا۔خدارا اگر آپ سنجیدہ ہیں تو آج کے حالات کے پیش نظر،یک جہتی اور
اتحاد کے اظہار کے لئے پہلے قدم کے طور پر اپنے ڈھولچیوں کا اپوزیشن سے
مقابلہ بدتمیزی اور مد تہذیبی تو روک دیں۔ اﷲ آپ کاحامی و ناصر ہو۔ |