کشمیر یا تھرڈ ٹیمپل
اس وقت پاکستان اور بھارت تنازع اپنے عروج پر ہے پوری دنیا میں کشمیر کا
ذکر زور و شور سے ہو رہا ہے کشمیر کا مسئلہ پچھلے پچاس سالوں میں سب سے
زیادہ نمایاں ہوا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ جنگ کی بھی باتیں ہورہی ہیں دونوں
ملکوں کی طرف سے اپنی اپنی سرحدوں کی حفاظت کا عہد دورایا جا رہا ہے بھارت
تو یہاں تک چلا گیا ہے کہ اس نے ایٹمی جنگ کی دھمکی بھی دے ڈالی دونوں
ملکوں کی عوام سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں
یہ تمام باتیں اپنی جگہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرکار بھارت کو کیا سوجی
کے اس نے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا بھارت تو پہلے ہی مکمل طور پر مقبوضہ
کشمیر پر قابض تھا اور کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے مکمل طور پر دہلی سے حکومتی
کاروبار چلا رہا تھا تو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی کیا بھارت کو اندازہ
نہیں تھا کہ اس کا ریکشن کشمیر کے اندر کیا ہوگا پاکستان کس طرح اس کا جواب
دے گا۔ بھارت کو تمام باتوں کا علم تھا لیکن اس کے باوجود اس نے یہ کھیل
کھیلا اس وجہ سے یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا میڈیا پر بتایا جارہا ہے۔
کچھ باتیں سمجھنے کے لئے ہمیں تھوڑا ماضی میں جانا پڑے گا پلوامہ حملہ سب
کو یاد ہوگا اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے بھی تمام لوگ واقف
ہیں بھارت کے جنگی جہاز پاکستان میں گھس آئے اور پھر پاکستان نے بھارت کے
دو جہاز گرا دیئے ان دونوں واقعات کے دوران دو خبریں ایسی جو میڈیا پر آئی
اور بہت جلد ان کو دبا دیا گیا اس میں کیا حکمت تھی یہ تو معلوم نہیں لیکن
دونوں خبریں بڑی چونکا دینے والی تھی ایک خبر یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے ایئر
فورس بیس پر اسرائیلی جنگی جہاز موجود تھے اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ
پاکستانی حدود میں داخل بھی ہوئے تھے دوسری خبر پاکستان فوج کے ترجمان نے
یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی میں بھارت کے ساتھ دو
ملک اور شامل ہیں جس میں سے ایک اسرائیل ہے اور دوسرے کا نام نہیں لیا گیا
دونوں خبروں کو آج کے حالات کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو بات واضح ہوجاتی ہے
وہ تیسرا ملک جس کی پردہ پوشی کی گئی حال ہی میں بھارت اور پاکستان کے
درمیان معاملات حل کرانے کی پیشکش کرچکا ہے اور جب حالات بگڑنے لگے ہیں تو
اس تیسرے ملک کی خاموشی مزید بات کو واضح کر رہی ہے۔ اسرائیل اور بھارت
دونوں ریاستیں کٹر مذہبی ریاستیں ہیں بھارت کے اوپر سے سیکولر اسٹیٹ ہونے
کا نقاب اتر چکا ہے دونوں کا مقصد مسلمانوں کی نسل کشی ہے دونوں نسلی بنیاد
پر اجارہ داری قائم کرنے کے نظریات رکھتی ہیں اور دونوں کے لیے سب سے بڑا
خطرہ دنیا کی واحد مسلم ایٹمی قوت پاکستان ہے۔
اس وقت سارے معاملے کے پیچھے یہ تین ملک ہی شامل ہیں اصل مسئلہ کشمیر پر
قبضہ کا نہیں بلکہ تھرڈ ٹیمپل بنانے کا ہے یہودیوں کے مطابق اسی مہینے کے
پہلے ہفتے میں وہ پیش گوئی پوری ہوگئی جو یہودیوں کے مذہبی کتاب تلمود میں
موجود ہے جس کے مطابق تھرڈ ٹیمپل اس وقت بنے گا جب یروشلم میں لومڑیاں
روئیں گیں اور یروشلم میں لومڑیاں اسی مہینے یعنی اگست 2019 کے پہلے ہفتے
میں رو چکی ہیں انٹرنیٹ کے ذریعے اس خبر کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
اس وقت کشمیر پر قبضہ کرنے اور پاکستان کو جنگ میں الجھانے کا مقصد صرف یہ
کہ جس وقت اسرائیل مسلمانوں کے قبلہ اول کو منہدم کر رہا ہوں اس وقت
پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ میں الجھا ہوا ہو۔ کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال
پیدا ہوتا ہے کہ عرب ممالک کہا ہیں تو آپ مسلمان دنیا کے نقشے پر نظر
دوڑائیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مسلمان دنیا میں چار ملک ایسے تھے جو
اسرائیل کو منہ توڑ جواب دے سکتے تھے جن کے پاس تربیت یافتہ فوج اور
خاطرخواہ اسلحہ موجود تھا ان چار ملکوں میں سے تین مصر، عراق اور شام کے
حالات آپ کے سامنے ہیں ان کی فوج کو تباہ کردیا گیا سعودی عرب، یو اے ای
اور اردن ان میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرسکیں سعودی
عرب تو باغیوں سے نمٹنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتا ایران! کچھ مہینے پہلے آپ
کو یاد ہوگا کہ امریکا اور ایران کے درمیان جنگ کے حالات پیدا ہو گئے تھے
دونوں ملک ایک دوسرے کو دھمکیوں کے تبادلے میں مصروف تھے اس جنگی ماحول کی
آڑ میں امریکہ اپنا بحری جنگی دستہ بھی اس خطے میں لے آیا جو ابھی تک یہیں
موجود ہے اور کیوں موجود ہے اس کا کسی کو علم نہیں اور یہ وہی دن تھے جب
پاکستان میں ایران کی سرحد کے قریب تیل نکالنے کا کام جاری تھا اور یک دم
یہ خبر آئی کے تیل موجود نہیں اور پھر ایران امریکہ کشیدگی بھی ختم ہوگی
بہرحال اس موضوع پر پھر کبھی بات ہوگی، تو ایران پاکستان کا کبھی حامی نہیں
رہا اور اس خطے میں امریکی پالیسی ہمیشہ ایران کے مفاد میں رہی ہے باقی
دھمکیاں ومکیاں چلتی رہتی ہیں ترکی کی آدھی فوج امریکہ کے کہنے پر طیب
اردوان کے خلاف بغاوت میں شامل تھی اس سازش کا پردہ فاش ہونے پر ترکی کی
فوج میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی گئی جس کی وجہ سے اب ترکی کی فوج کی
قوت بھی ٹوٹ چکی ہے اور وہ اس قابل نہیں کے اسرائیل کا مقابلہ کرسکے تو لے
دے کے ایک ہی ملک بچتا ہے جو اسرائیل کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ
پاکستان ہے۔
1967 عرب اسرائیل جنگ میں جب عربوں کو شکست ہو رہی تھی تو اس وقت پاکستان
ایئر فورس نے عربوں کی مدد کی اور اسرائیل کو پیچھے دھکیل دیا اور اس کا
بدلہ لینے کے لیے اسرائیل نے دو مرتبہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر حملے کی
کوشش کی 1980 اور پھر 1984 میں جو خفیہ معلومات ملنے پر ناکام بنا دی گئیں
اور پھر فروری 2019 میں بھارت کے ساتھ مل کر ایک اور کوشش کی گئی جس کو بھی
ناکام بنایا گیا لیکن اس مرتبہ انہوں نے سیاسی کھیل کھیلا ہے کہ پاکستان کو
مسئلہ کشمیر میں الجھا کر تھرڈ ٹیمپل کے حوالے سے اپنے مقاصد پورے کئے
جائیں اور بھارت کو مفت میں کشمیر مل جائے پاکستان کے حساس اداروں کو یقینا
اس بات کا علم ہوگا اور وہ حکومت کی رہنمائی بھی کر رہے ہوں گیں لیکن حیرت
کی بات یہ ہے کہ عرب ممالک اس سارے معاملے میں کیوں خاموش ہیں کیا انہیں اس
بات کا علم نہیں کہ اسرائیل کے کیا مقاصد ہیں کیا عرب یہ نہیں جانتے کہ
اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی سکت پاکستان کے سوا کسی اسلامی ملک میں نہیں پھر
کیا وجہ ہے کہ وہ خاموش ہیں اس کے لیے ہمیں حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم سے
رجوع کرنا پڑے گا صحیح بخاری کی حدیث کا مفہوم ہے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم
نیند سے بیدار ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ تھا اور آپ
فرما رہے تھے اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں عربوں کی تباہی اس بلا سے ہوگی جو
قریب ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث کا مفہوم ہے ابن عمر رضی اﷲ
تعالی عنہہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا یا اﷲ ہمارے
شام اور یمن میں برکت فرما صحابہ کرام نے عرض کیا ہمارے نجد میں بھی تو آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا یا اﷲ ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما صحابہ
کرام نے پھر عرض کیا اور ہمارے نجد میں بھی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے شیطان کا سینگ وہی سے نکلے گا۔ موجودہ
سعودی عرب کا آدھا حصہ نجد ہے سعودی عرب کا دارالخلافہ ریاض بھی نجد کا حصہ
ہے اس طرح کی اور بھی بہت سی احادیث ہیں جن کا ذکر کیا جا سکتا ہے حاصل یہ
کہ عرب قوم اپنے بے تحاشا پیسے اور عیاشیوں میں اس قدر مشغول ہے کہ ان کے
ہاں مسلم امہ کا تصور ختم ہوچکا ہے یواے ای اور سعودی عرب کی بھارت میں
سرمایہ کاری اس وقت جس وقت پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے
اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے ہاں امت کا کوئی تصور باقی نہیں ہمیں اپنی جنگ
خود ہی لڑنی ہے۔
اس دنیا کی تین بڑی طاقتیں پاکستان کے وجود کے خلاف ہیں اس وقت ہمیں
انتہائی سمجھ داری کا ثبوت دینا ہوگا اور کسی بھی ایسے اقدام سے بچنا ہوگا
جس سے دنیا میں ہمارا بیانیہ کمزور ہو اور اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو
پھر پوری قوم یکجا ہوکر اس کا مقابلہ کرے گی جنگیں اسلحہ اور تعداد کی زور
پر نہیں بلکہ ایمان کی طاقت سے لڑی جاتی ہیں اور اس بات کو افغان طالبان نے
ثابت کرکے دکھایا ہے دنیا چاہے جو بھی کہے یہ جنگ ایک مذہبی جنگ ہے اور اس
میں فتح انشائاﷲ مسلمانوں کی ہوگی۔
|