ہریانہ اور دہلی سے تعلق رکھنے والے سکھ سماج کی مختلف
تنظیموںنے کشمیر کے حالات پر ردِ عمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اس ملک کا
حصہ ہے اور اس حصے میں رہنے والی عورتوںکی حفاظت کی ذمہ داری سکھ سماج کے
لوگ اٹھائینگے۔یہ بیان انہوں نے ایسے موقع پر دیا جب بھاجپا کے گندی سوچ
رکھنے والے لیڈران کشمیر سے لڑکیوں کو بیاہ کر لانے کی بات کررہے تھے۔سکھ
سماج نے مثال دیتے ہوئے کہاکہ جب احمد شاہ ابدالی ہندوستان کی دو ہزار
خواتین کو اغواء کر افغانستان لے جانے کی تیاری کررہا تھا اسی وقت اسی سکھ
سماج نے احمد شاہ ابدالی کے چنگل سے ان دو ہزار خواتین کو چھڑانے کیلئے
درجنوں جنگیں کی اور انہیں رہا کروایاتھا۔سکھوں نے جس دلیری کے ساتھ کشمیر
کے حالات پراور کشمیر کی لڑکیوں کے تحفظ کیلئے بیان دیا ہے وہ اس سیکولر
ملک کیلئے نہایت خوش ائند بات ہے۔سکھ سماج کے لوگ اس سلسلے میں کس حدتک
کامیاب ہونگے یہ الگ بات ہے،لیکن ایسے موقع پر جب کوئی مسلمان کشمیر کے
مدعے پر بات ہی نہیں کرنا چاہتا،کشمیریوں کے حقوق کیلئےآواز نہیں اٹھانا
چاہتا یہاں تک کہ سوشیل میڈیا میں مسلمان یہ پیغام عام کررہے ہیں کہ
کشمیرکی حمایت یا مخالفت میں کوئی کسی طرح کا بیان نہ دیں،کوئی کسی طرح کا
پیغام پوسٹ نہ کریںکیونکہ حکومت نہایت ظالم ہے کبھی بھی کچھ بھی کرسکتی
ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا مسلم قوم اپنے بھائیوں کے تحفظ کیلئے آوازاٹھانے سے
بھی اتنی خوفزدہ ہے؟کیا کشمیر ی مسلمان،مسلمان نہیں ہیں؟کیا ہندوستان کے
مسلمان کشمیر کو اپنا حصہ نہیں مانتے؟۔خود کشمیری بھی اس بات کی تصدیق کرتے
ہیںکہ وہ ہندوستان کاحصہ ہیں،لیکن انہیں جو حقوق وانصاف چاہیے اُس کی رسائی
کی جائے،لیکن ان کی حمایت میں بات کرنے کیلئے صرف دو تین مسلم نمائندے ہیں
جن میں اسد الدین اویسی،امتیاز جلیل اور ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر فیضی
کے علاوہ کسی نے کھلے عام بیان تک نہیں دیا ہے۔غورطلب بات یہ ہے کہ ہماری
نمائندہ تنظیمیں کہے جانے والے جمعیۃ علماء ہند(ارشد مدنی)(محمود
مدنی)،جماعت اسلامی ہندجیسی تنظیموںنے بھی کشمیری مسلمانوں کو لیکر خاموشی
اختیار کررکھی ہے۔یہ بات اور ہے کہ کشمیر کے مدعے کو سیاست کہا جاتا
ہے،لیکن اسی سیاست کے درمیان اگر کوئی ظلم کا شکار ہورہے ہیں تو وہ مسلمان
ہیں۔آج ہماری نمائندہ تنظیموں کو جو کام کرنے ہیںوہ تو نہیں کرپارہے
ہیں،بلکہ تحریکی تنظیمیں امدادی تنظیمیں بن چکی ہیںاور ان میں سے کئی ایک
تو ایسی تنظیمیں ہیں جو سیلاب،زلزلوں اور فرقہ وارانہ فسادات کے منتظر رہتے
ہیںکہ کب سیلاب آئے اور کب لوگوں کو امداد فراہم کرنے کیلئے کام کرنا شروع
کریں۔اصل کام جہاں کرنا ہے اُس کا م کونظرانداز کیا جاچکا ہے،ہمارے اسلاف
نے ہندوستانی مسلمانوں کیلئے جمعیۃ جیسی تنظیم کو چھوڑ رکھا ہے لیکن اس
تنظیم میں خلافت والے نظام نے اسے محدود شعبوںمیں کام کرنے کیلئے مجبو
رکررکھا ہے۔جبکہ ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ یہ تنظیم جس طرح سے جنگ آزادی کے
دوران اہم کردار ادا کرتی رہی ہے اُسی طرز پرآزادی کے بعد بھی ملک کی
حفاظت کیلئے کام کرتی،لیکن ایسا یہاں نہ ہوسکا۔آج معمولی احتجاج کرنے پر
جیل میں ڈالنے کی محض دھمکی پر ہماری تنظیموں کے ذمہ داران بھاگ کھڑے ہوتے
ہیںجبکہ انہیں تنظیموںکے اکابرین پھانسی کے پھندوں کو چومنے کیلئے بے قرار
رہتے تھے۔جب تک کسی چیزکی قربانی نہیں دی جاتی اس وقت تک آزاد ی نہیں مل
پاتی۔آج قوم کا ایک بڑا طبقہ اس بات کا منتظر ہے کہ قوم کے عمائدین اور
نمائندے مسلمانوں کو متحد کرتے ہوئے مسلمانوںکے حقوق کیلئے آواز
اٹھائیں،ایک تحریک چھیڑیں۔یقین جانئیے کہ جتنے علماء و قائدین ہماری
نمائندہ تنظیموں سے جڑے ہوئے ہیں وہی لوگ ہی اگر اپنے آپ کو قوم
کیلئےقربان کرنے کیلئے آگے آئیں اور جیل بھروجیسے آندولن شروع کردیں تو
اس کا اثر عام مسلمانوں پر بھی پڑیگا۔ساری دنیا میں یہ سوال اٹھے گا کہ
آخر کیا وجہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان اس طرح سے مضطرب ہیں؟ہمیں فلسطین کی
آزادی کیلئے احتجاج ودھرنے تو قبول ہیں لیکن ہندوستانی مسلمان کشمیر سے
لیکر کنیا کماری،بنگال سے لیکر گجرات تک ظلم کا شکار ہورہے ہیںاس ظلم کی
مخالفت کیلئے پچھلے73 سالوںمیں ایک بھی تحریک نہیں اُٹھی۔یقیناً سماجی
وفلاحی کام کرنا ہے،اصلاح معاشرہ اور اتحادِ ملت کے عنوان پر جلسے وپروگرام
کرنا ہے،لیکن اس سے پہلے مسلمانوںکے تحفظ کیلئے بھی آوازاٹھانے کی ضرورت
ہے۔سیلاب آئے تو لوگ بے گھر ہوتے ہیںلیکن جب کوئی بیٹا موب لنچنگ کا شکار
ہوتا ہے تو بسے ہوئے گھر اجڑ جاتے ہیں۔ہمیں گھروں کواجڑنے سے بچانا
ہے،سیلاب میں بہہ کر جانے والے گھر تو کسی بھی حال میں بن ہی جائینگے۔فلاحی
کام انجام دینے والی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ ان کی
تنظیموں کاماضی کیا تھا اور وہ حال میں کیا کررہے ہیں،مستقبل کیلئے کیا
کرنا چاہیںگے؟۔اگرصرف فلاحی و امدادی کام ہی انجام دینا ہے تو ہماری
تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنے اغراض ومقاصد میں ترمیم کریں اور اپنی تنظیموں
کواین جی او کے نام پر چلائیں۔ہماری نظروںکے سامنے سے ایسے مضامین بھی گذرے
ہیں جس کا عنوان ہوتا ہے کہ علمائے دیوبند جنگِ آزادی میں کردار،علمائے
اہلسنت کا جنگ آزاد ی میں رول،علمائے احناف کا جنگ آزادی میں کردار۔یہ
تمام عنوانات بھلے ہی اپنے اپنے مسلکوں کو فوقیت دینے کیلئے بنائے گئے ہوں
لیکن انہیں علماء کی تقلید کرنے والی ہماری قوم آج کے حالات میں کیا کردار
ادا کررہی ہےیہ سوال پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یقیناًاس بات سے انکار نہیں کیا
جاسکتاکہ دارالعلوم دیوبندنے جنگ آزادی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے لیکن
آج یہی ادارہ ملک میں مسلمانوںکو تحفظ فراہم کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوا
یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب مولانا ابولاعلیٰ مودودوی کے پیروکار بھی
آزادی کے بعد سے اب تک دعوت دین کے پروگرام کررہے ہیں،ہندومسلم بھائی
چارگی کیلئے کام کررہے ہیں،لیکن مولانا مودودوی نے جو اہم لائحہ عمل اور
منصوبہ مسلمانوںکے سامنے پیش کیا تھا اسے ہی نظرانداز کیا جارہا ہے۔مولانا
مودودوی نے دنیا میں حق پرستوںکی حکومتوںکے قیام کے تعلق سے جماعت اسلامی
کی تشکیل دی تھی،لیکن آج حکومتیں بنانے کی بات تو دور موجودہ حکومتوں میں
ظلم کا شکار ہونے والے مسلمانوں کا تحفظ کرنا بھی ان کیلئےدشوار ہوچکا
ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو اگر تحفظ فراہم کرنا ہے تو ائیر
کنڈیشن کمروں اور اینوا کاروں میں گھومنے سے ممکن نہیں بلکہ میدانِ کار میں
اترنے کی ضرورت ہے،جس طرح سے سکھوںنے کشمیری عورتوں کے تحفظ کیلئے کھلے عام
بیان دیکر کم از کم یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سکھ براداری میں آج بھی
جو ش وجذبہ موجود ہے،اسی طرح سے مسلمانوں کو بھی چاہیےکہ وہ مسلمانوں کے
حقوق کیلئےآوازاٹھائیں۔
|