جلد یا بدیر!!!

فرانس کےبادشاہ کنگ لوئس (17)نے جوکئی مہینے سے ملک میں بڑھتے احتجاج سے پریشان تھا۔اس کے صوبائی گورنرزبھی اس سے ناراض تھے اورمقتدرحلقے بھی ناکافی اختیارات کی شکایات کرتے رہتےتھے،اس کی حکومت کادارومدارصوبائی گورنرز پرتھا، گوکہ اختیارات اس کے پاس تھے مگرانہیں استعمال کرنے والے گورنرزتھے،ملک میں اسمبلیاں بھی تھیں اوراپوزیشن بھی مگرسب کے سب بادشاہ سے ناراض تھے،کنگ ملک کی حالت سدھارناچاہتاتھااوراس کے مخالفین کاکہناتھاکہ وہی ملک کی بدترین حالت کاذمہ دارہے۔

آخرکارمئی 1787ءکےایک گرم اورچمکداردن اس نے فیصلہ کیاکہ سب گورنرزکی میٹنگ بلائی جائے اورمسئلے کاحل نکالا جائے،پیرس کی مرکزی پارلیمنٹ سمیت سب صوبائی رہنماؤ ں نے اس مشاورت میں یہ فیصلہ دیاکہ نئے انتخابات ہی بہترین حل ہوں گے،عوام کاخیال تھاکہ اس میٹنگ میں معاشی معاملات اٹھائے جائیں گے،بھوکوں کے پیٹ بھرنے کیلئےکوئی لائحہ عمل تیارکیاجائے گااورملک میں بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج کوپاٹنے کامنصوبہ تیارہوگا،مگرانہیں شدیدمایوسی کاسامنا کرنا پڑا،عوام کی بھوک اور کنگ کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکرسب نئے بندوبست میں اپناحصہ بڑھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے،حیرت کی بات ہے کہ ملک میں بے چینی بھوک کی وجہ سے تھی،بیروزگاری کی وجہ سے تھی مگرسیاسی رہنمااس کاحل الیکشن کی صورت میں پیش کررہے تھے،پیرس کی پارلیمنٹ نے کنگ کی رضا مندی سے فیصلہ کرلیاکہ فوراًہی نئے الیکشن کرائے جائیں گے اورنومنتخب افرادکوصوبائی گورنرزمقررکردیاجائے گا۔اس فیصلے سے جوڑ توڑ کاایک نیاسلسلہ شروع ہوا، ہرایک اپنے پیش کردہ طریقے سے الیکشن کراناچاہتاتھااوراسی طرزکوسپورٹ کرتاتھاجس میں اس کی جیت کے امکانات روشن ہوں۔عوام خاموشی سے یہ ڈرامہ دیکھتے رہے،بھوکے لوگوں کے خالی پیٹ کویہ لوگ اقتدارکے حصول کیلئےسیڑھی کے طورپراستعمال کرتے رہے،ایک مہینے کے اندراندرنئے انتخابات کا اعلان بھی ہوااوروہی سیاستدان جوپہلے انتخابات کوہر مسئلے کاحل بتارہے تھے اب لوگوں کوان کاساتھ دینے کیلئےسڑکوں پرآنے کی کال دے رہے تھے۔

میٹنگزہوتی رہیں،پارلیمنٹ کے سیشن چلتے رہےمگربحث انتخابات پرتھی،پیرس کے موچی رات کوبھوکے سوتے تھے اورمزدور ایک دیہاڑی لگانے کیلئےمارے مارے پھرتے تھے،اپوزیشن عوام کوسڑکوں پرآنے کیلئےابھارتی رہی مگرعوام لاتعلق بنے رہے، انتخابات ہوئے،نئے چہرے بھی اقتدارمیں آگئے مگرعوام بھوکے ہی رہے،اگلے سال1788ء کی گرم جولائی میں آخرعوام سڑکوں پرآہی گئے جوپچھلے سال گھروں میں ہی رہے تھے مگرعوام نے نہ توآئین کامطالبہ کیانہ ہی ان کی زبانوں پرجمہوریت کے نعرے تھے،پیرس کے یہ موچی اورمزدورصرف ڈبل روٹی مانگ رہے تھے اوران ظالم حکمرانوں سے نجات چاہتے تھے۔

جب یہ لوگ سڑکوں پرنہیں تھے توکسی کوان کی طاقت کااندازہ نہیں تھااورجب یہ لوگ سڑکوں پرآئے توکسی کو امان نہیں ملی،قلعے محل اورمحل جیل خانوں میں بدل گئے اورپیرس میں اتنی قتل وغارت ہوئی کہ کہیں اس کی مثال نہیں ملتی، ان بھوکے لوگوں کی عجیب نفسیات تھی وہ قیمتی سامان چرانے کے بجائے تباہ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے،ان لوگوں نے اعلان کردیا کہ سب کے حقوق یکساں ہیں اورایک موچی بھی اتنے ہی حقوق رکھتا ہے جتنے کسی لارڈ کو حاصل ہے،تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ عوام کے اس انقلاب کے چند مہینوں میں 30ہزارافراد قتل کئے گئے،بادشاہ،ملکہ اوران کے مشیرووزیر کوئی بھی ان مزدوروں،موچیوں، کسانوں اورلوہاروں سے نہیں بچ سکا،جمہوریت،آئین اورانتخابات کیلئےآپس میں لڑنے والے ان لوگوں کوہتھوڑوں ، بیلچوں اورکدالوں سے قتل کیاگیا۔

یہ کوئی انقلاب نہیں تھابلکہ سیدھی سی ایک شورش تھی جوبھوک سے بے تاب ہونے والے عام لوگوں نے برپاکی تھی،ان لوگوں کاکوئی خاص معروف لیڈر بھی نہیں تھابلکہ یہ جتھوں کی صورت میں قتل وغارت کرتے رہے،یہ لوگ مرنے یامارنے کاعزم لیکر نکلے تھے،دوسراعنصریہ تھاکہ خودسپاہیوں کے خاندان بھی ایسی ہی غربت سے گزررہے تھے۔

فرانس کی تاریخ کے اس حصے کوپڑھنے کے بعدکشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پرنظرڈالیں،کشمیرمیں کئی سیاسی پارٹیاں ہیں ان میں سے کچھ اقتدارمیں رہ چکی ہیں اورکچھ اسے حاصل کرنے کی تگ ودومیں رہیں،ان سب کادعویٰ ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اوروہ عوام کیلئےکام کررہے ہیں مگرحقیقت میں عوام کسی کے ساتھ نہیں ہیں۔ریاست جموں وکشمیرمیں امن وامان کی ابتر صورت حال جواس وقت ہے اس کی مثال پچھلے 72 برسوں میں نہیں ملتی۔کشمیری اپنے حق خود اردایت حاصل کرنے کیلئے یوں توپچھلی7دہائیوں سے برسرپیکارہیں اوراب تک اپنے اس حق کے حصول کیلئے ایک لاکھ سے کہیں زیادہ اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرچکے ہیں اوراب بھی ان کے عزم میں کوئی رتی برابرفرق نہیں آیا۔کشمیر کے اخبارات اٹھاکر دیکھ لیں توایک محتاط اندازے کے مطابق درجن سے زائد مظاہرین کو ہرروز گولی ،تشددیا گرفتاری کا نشانہ بناکراس تحریک کودبانے کی ناکام کوششیں ہورہی ہیں۔وزیراعظم پاکستان عمران خان کےامریکی دورے کے دوران ٹرمپ کی ثالثی کے بیان کے بعدمودی سرکارمیں جہاں صفِ ماتم بچھ گئی تھی وہاں اب اس ٹریپ کابھانڈہ بھی پھوٹ گیاہے۔

اس وقت کشمیرکے تازہ ترین حالات پرایک نظرڈالیں توکشمیربھی 1787کا فرانس لگتاہے۔پچھلے72سالوں میں کشمیریوں پر جوظلم وستم روارکھاگیاہے اب ان تمام زیادتیوں کے حساب کا دن قریب آن پہنچاہے۔اب اس آگ کومودی وامیت شاہ کی سازشیں اورنہ ہی کوئی لالچ کاجھانسہ سردکرسکے گا۔حریت کایہ جذبہ اب کشمیریوں کوہر روز سڑکوں پرنکلنے کی دعوت دے رہاہے اورجس دن کرفیواٹھ گیااورساراکشمیرسڑکوں پرآگیاتوکیاہوگا؟ یہ فرانس کی تاریخ اچھی طرح بتاتی ہے کیونکہ اب جلدیابدیرکشمیرمیں ایساہونے جارہاہے!!!

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355863 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.