ثاقب نثار ملک کے 25 ویں چیف جسٹس تھے، انھوں نے 13
دسمبر2016 کو حلف اٹھایا اور 17 جنوری 2019 کو ریٹایٔر ہو گیٔے۔انھوں نے
جولائی 2018 دیا میر بھاشا ڈیم فنڈ قائم کیا ۔جو کہ ایک بہت اعلی قدم
تھا۔اس ڈیم کا زیادہ حصہ کے پی کے میں اورتھوڑا حصہ گلگت میں ہے،تقریباََ10
ارب روپے اس فنڈمیں اسوقت تک اکھٹے ہو چکے ہیں۔ڈیم پانی ذخیرہ کرنے اورپانی
کی قلت کے مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہو گااور پانی ذخیرہ کرنے کی
گنجائش 30دن سے بڑھ کر 48دن ہو جائے گااوراس ڈیم کے بن جانے سے4800mwبجلی
نیشنل گرڈ میں جمع ہو گی۔اب میرامعصومانہ سوال یہ ہے کہ ڈیم بنانا کس ادارے
کا کام ہے میرے حیال سے یہ منتخب خکومت کا کام ہے اور چیف جسٹس آف سپریم
کورٹ کا کام ملک میں عدلیہ کی بخالی اورعدالتی نظام کو ٹھیک طریقہ سے چلانا
ہوتا ہے۔لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق اس وقت پاکستان کی
عدالتوں میں تقریباََ 20 لاکھ کے قریب مقدمات التواء کا شکار ہیں۔کیا یہ
سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان کی زمہ داری نہ تھی کہ وہ عدالتی نظام کو تیز
کرتے تا کہ انصاف کی فراہمی کو آسان بنایا جا سکتا۔ لیکن ان کو ملک میں ڈیم
نہ ہونے کا مسئلہ انصاف نہ ملنے سے زیادہ اہم محسوس ہوا۔انصاف فراہم کرنا
اور انصاف کے عمل کو تیز کرنے کی وہ تنخواہ لیتے تھے لیکن وہ تاریخ میں
زندہ رہنا چاہتے تھے،اس کے لیے انھوں نے سوچاکہ کسی بھی دوسرے شعبے کے کام
کو پکڑلو خوب شاباش اور واہ واہ اکٹھی کرو اور ریٹائر ہو کر دوسرے ملک میں
عیاشی کی زندگی گزارو۔سابقہ چیف جسٹس کی دو سالہ مدت کے دوران اگر آپ
عدالتی نظام میں کوئی بڑا کارنامہ تلاش کرنے کی کو شش کریں گے تو یقین کریں
ناامیدی ہو گی۔ملک کو آزاد ہوئے 72سال ہو گئے اس میں سے 30 سال سے زیادہ
فوجی حکمران رہے باقی عرصہ جمہوریت والے مزے لیتے رہے مگر ملکی مسائل پہلے
سے کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔میرے خیال سے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ
اداروں کا اپنے دائرہ اقتدار سے باہر نکل کر کام کرنا ہے اگر تمام ادارے
اپنی ذمہ داری کے مطابق کام کرتے تو ججوں کو عدالتیں چھوڑ کر چندہ نہ
مانگنا پڑتا، ملک میں سیلاب آنے پر فوج کی طرف نہ دیکھنا پڑتا۔الیکشن
کروانے کے لیے فوج کی نگرانی کی ضرورت نہ ہوتی،آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے
لیے ملک کا وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک ان کی مرضی کے نہ لگاتے،ایک نا
اہل شخص کو زرعی مسائل کے لیے وزیر اعظم کی ساتھ والی کرسی پر نہ بیٹھنا
پڑتا، آپ ایک خکومتی وزیر کو دوسرے وزیر کے بارے میں یہ کہتے ہوئے نہ سنتے
کہ ان کو ٹارزن بننے کی عادت ہے اور وہ دوسری وزارتوں میں منہ مارتے پھرتے
ہیں۔اس کے بر عکس اگر اپنے دائرہ اقتدار میں رہ کر کام کر رہے ہوتے اور ان
تمام لوگوں سے صرف ان کے ادارے کی ترقی کے بارے میں سوال کیا جاتا تو حالات
اس کے بر عکس ہوتے ۔کوئی مریم ، حمزہ یا بلاول پیدائشی رہنما نہ ہوتے
کیونکہ سب کو پتہ ہوتا کہ کسی وزیراعظم ، وزیر اعلی یا صدر کا بیٹا ہونا
ایوان میں جانے اور ملک چلانے کے لیے کافی نہیں،اس کے لیے آپ کا اٌسکے لیے
اہل ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ 5سال بعد آپ سے سوال ہو گا کہ آپ کے دور
اقتدار میں اداروں نے کتنی ترقی کی۔اگلی دفعہ ایوان میں منتخب ہو کر آنے کے
لیے 5 سال کی کارکردگی کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی اور عوام صرف جھوٹے وعدوں
اور ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنانے کی لالچ میں ووٹ نہ کرتے بلکہ علاقے کی
ترقی اگلی باری ووٹ لینے کی ضامن ہوتی۔ بس اس سب کے ساتھ ایک کاش لگتا ہے
کیونکہ ہم اس کاش کا انتظار کر رہے ہیں نہ ہم عوام بدلیں گے اور نہ ہی
ہمارے منتخب نمائندے ملک کی بہتری کے بارے میں سوچیں گے۔بس ایک سیاسی پارٹی
حکومت میں آئے گی اور 5 برس تک ہمیں یہ سمجھانے کی کو شش کرے گی کہ ملک کی
تمام محرومیوں اورخرابیوں کی ذمہ دار پچھلی حکومتیں ہیں اور یقین کر لیں یہ
سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا ہر نئی آنے والی حکومت کی بات سابقہ حکومتوں سے
مختلف نہیں ہو گی۔
|