آٹو موبائل سیکٹر میں50 لاکھ،ٹیکسٹائل سیکٹرمیں25 ہزار ،کنسٹرکشن
سیکٹر میں2 لاکھ ، اسٹیل کمپنیوں میں25 ہزاراور پارلے جی10 ہزار روزگار اس
مہینے کے آخر تک ختم ہونے جارہے ہیں،ملک میں اندازاً ایک کروڑ افراد اس
ماہ کے آخر تک بے روزگار ہونے والے ہیں جبکہ مرکزی وریاستی حکومتوں کی
جانب سے مختلف محکموں میں خالی32 ہزار عہدوں کو پُر کرنے کیلئے32 لاکھ
افراد نے عرضیاں پیش کی ہیں۔یہ صرف اعداد وشمار ماہ اپریل تک کےہیں اس کے
علاوہ ریلوے وڈیفنس کے عہدوں کیلئے جو عرضیاں طلب کی جاتی ہیں اسکے اعدادو
شمار واضح نہیں ہوئے ہیں۔وزیر اعظم نریندرمودی جنہوں نے ہر شخص کو روز گار
دینے کاوعدہ کیا تھا،اُن کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک بھر میں ایک کروڑ سے
زائد افراد بے روز گار توہی ہورہے ہیں،ساتھ ہی ساتھ صنعتوں و مختلف شعبوں
میں لوگوں کومسلسل برخواست کرنے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ملک میں بے روزگاری
کا بحران پیدا ہونے والاہے اور ا س کے سنگین تنائج آنے والے تین چار
سالوںمیں بھگتنے ہونگے اور اس بات کا بھی انکارنہیں کیا جاسکتا کہ ملک بے
روزگاری کے اس بحران کے بعد خانہ جنگی کا شکار ہوگا۔آفریقہ کے کئی ممالک
جن میں نائجیریا، گھانا، یوگانڈامیں بے روزگاری کی شرح دوسرے ممالک سے کئی
گنا زیادہ ہے،یہاں کے بے روزگاروں اپنی زندگی گذارنے کیلئے جرائم سے جڑے
ہوئے ہیں۔لوٹ مار اور قتل وغارت گری یہا ں کے شہریوں کا مستقل پیشہ بنتا
جارہا ہے۔یہ لوگ جرائم کو کسی شوق یا نفرت کی وجہ سے نہیں بلکہ بھوک او
رمجبوری کو مٹانے کیلئے اپنا رہے ہیں۔اگر ہندوستان میں بھی بے روزگاری کی
شرح بڑھنے لگے گی تو یقینی طور پر یہاں بھی گھانا ونائجیریایا جیسے حالات
پیدا ہوجائینگے۔روز بروز بگڑتے حالات پر وزیر اعظم نریندرمودی او ران کی
حکومت اس قدر خاموش نظرآرہی ہے مانوکہ ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل
رہا ہے،یہاں کچھ بھی ٹھیک ٹھاک نہیں ہے،البتہ نوجوانوں نسلوں کے پاس روزگار
نہ ہونے کی وجہ سے بڑے زوروں کے ساتھ ٹک ٹاک استعمال کیا جارہا ہے۔ہندوستان
کی معیشت کیلئے جو پالیسیاں اپنائی جارہی ہیں وہ ملک کی معیشت کو تباہ کرنے
میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔سب سے بڑا نقصان جی ایس ٹی کی وجہ سے ہو اہے،جس
سے انڈسٹریس تباہ ہوتی جارہی ہیں۔ہندوستان ایک ایسا ملک تھا جہاں سے کپڑا
بیرونی ممالک کوایکسپورٹ کیا جاتا تھا،لیکن کپڑے کے کارخانوں کیلئے درکار
کچی اشیاء پر بھی جی ایس ٹی نافذ ہونے کے سبب کپڑا مل مالکان اور کارخانوں
کےمالکان کے پاس اتنی طاقت نہیں رہی کہ وہ کپڑوں کو معقول داموں میں فروخت
کرسکیں،اس لئے آج کئی کارخانے مقامی کپڑوں کو خریدنے کے بجائے بنگلہ دیش س
کپڑوں کو امپورٹ کررہے ہیں ۔اسی طرح سے مشینوں و آلات کی تیاری پر
ہندوستان میں بہت بڑا خرچ آرہا ہے اور صنعت کار اس خرچ کے بوجھ سے آزادی
حاصل کرنے کیلئے چین،جرمنی اور جاپان سے مشینوں و برآمد کررہے ہیں،جہاں پر
انہیں زیادہ نقصان اٹھانا نہیں پڑرہا ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر کس بنیاد پر
ہندوستانی حکومت مسلسل گھاٹے کے باوجوداپنی پالیسیوں میں کیوں نہیں ترمیم
لارہی ہے۔ویسے حکومت کی سوچ ہے کہ جی ایس ٹی کو نافذ کرنے کے بعد ملک کی
معیشت میں بہتری آئیگی،لیکن انہوں نے اس ٹیاکس کے سسٹم سے متاثر ہونے والے
صنعتوں کوبچانے کیلئے اس کا متبادل طریقہ نہیں بتایا ہے۔جو ٹیاکس صنعتوں
وکارخانوں پر نافذ کیا جارہا ہے اُس ٹیاکس کی ادائیگی کمپنیوں کیلئے ناممکن
بات ہے،اسی وجہ سے وہ اپنے کارخانوں کو بند کرنے کے بجائے محدود کرتے ہوئے
ملازمین کو ملازمت سے برخواست کررہے ہیں۔اگر کسانوں کو فصلوں میں نقصان
ہوتا ہے تو کسان سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرنے کیلئے مجبور ہوجاتے ہیں اور
حکومتوں کو ان کے مطالبات ماننے پڑتے ہیں،جبکہ صنعتوں وکارخانوں سے جڑے
ہوئے ملازمین اگر احتجاج کرتے بھی ہیں تو ا س کی ذمہ داری کارخانوں کے
مالکان پر عائد ہوتی ہے نہ کہ حکومت اس کیلئے ذمہ دار ہوگی،اس وجہ سے وزیر
اعظم نریندرمودی سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ان دیکھا کررہے ہیں۔کاغذات و اعداد
وشمارات کے مطابق ہندوستان ترقی تو کررہا ہے لیکن اسی کاغذات اور
اعدادوشمارات میںیہ بات کھلے عام واضح کی جارہی ہے کہ ہندوستان میں بے
روزگاری کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔افسوسناک پہلویہ بھی ہے کہ ہندوستانی حکومت
کی ان پالیسیوں کے خلاف نہ مزدور سنگھ آواز اٹھا رہے ہیں،نہ ہی اپوزیشن ان
معاملات کومدعوں کے طو رپر اپنا رہی ہے۔نہ میڈیا ہندوستان کی بدترین حالات
پر غور کرنے کیلئے تیار ہے نہ ہی ماہرِ معاشیات زبان کھول سکتے ہیں۔جس طرح
سے جرمنی کے ہٹلراور اٹلی کے مسولونی نے اپنی حکومتوں کو قائم کرنے کیلئے
کارخانوں کے مالکان،صنعتوں کے ذمہ داران اور بڑی بڑی کمپنیوں کو خصوصی
سہولیات دیتے ہوئے مزدوروں کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی،اسی طرح سے
ہندوستان میں بھی نازی ایزم اور فاشزم کے ملے جلے اثرات اٹھ کر دکھائی دینے
لگے ہیں۔نازی ایزم اور فاشزم کا مرکب اب مودی ازم یا سنگھی ازم میں تبدیل
ہوتا جارہا ہے۔آنے والے ایام نہ صرف جمہوری نظام کیلئے خطرہ ہے بلکہ
ہندوستان کے ہر خاص وعام شہری کیلئےنقصاندہ ثابت ہونے والے ہیں۔مودی حکومت
اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے جس طرح سے غیر ضروری مدعوں کوبڑھاوا دے رہی
ہے وہ قابل تشویش بات ہے۔مودی یا سنگھی ازم کے فتنے کاشکار میڈیا بھی ہوتا
جارہا ہے۔میڈیا جسے جمہوریت کاچوتھا ستون اور جمہوریت کا نگران کُتا کہا
جاتا ہے وہی میڈیا آج مخصوص سیاسی جماعت ہوکر رہ گیا ہے۔حکومتوںکی غلط
پالیسیوں پر سوال اٹھانے کے بجائے حکومتوں کے اشتہارات منحصر ہونے
لگاہے۔آج ہندوستانیوں کو آج کی فکرکرنے کے بجائے کل کی فکرکرنے کی ضرورت
ہے،اگر کل کی فکر کرنا ہے تو ابھی سے انہیں کمربستہ ہونا پڑیگااور مودی
حکومت کے غیر منصفانہ رویہ پر سوالات اٹھانے پڑینگے۔
|