وزیراعظم عمران خان کی ریاست مدینہ کے دورمیں یہ پہلاحج
تھا ،نئے پاکستان میں عازمین حج کوامیدتھی کہ ایسے شاندارانتظامات ہوں گے
کہ سابقہ تمام وزاراء اورحکومتوں کومات دے جائیں گے،یہ سمجھا جارہاتھا کہ
عمران خان اورسعودی ولی عہدکی دوستی سے پاکستانی حاجیوں کودیگرممالک کے
مقابلے میں اضافی سہولیات میسرہوں گی ،وزیرمذہبی امورپیرنورالحق قادری
جوسابق وفاقی وزیرسردارمحمدیوسف کے مقابلے میں زیادہ علم وفضل والے ہیں ،
انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی بھی بول لیتے ہیں قادری صاحب اپنی فصاحت وبلاغت
اوربصارت سے کام لیتے ہوئے سعودی کمپنیوں اورمنتظمین کوایسے رام کریں گے کہ
حجاج کرام سرداریوسف کے دورکوبھول جائیں گے اس مرتبہ وزارت مذہبی امورکے
اہلکار،معاونین ،عملی طورپرریاست مدینہ کے خادم بن کرحاجیوں کی ایسی خدمت
کریں گے کہ حاجی جھولیاں اٹھا اٹھا کرانہیں دعائیں دیں گے ، پاکستانی
عازمین یہ سمجھتے تھے کہ ملک میں تبدیلی آچکی ہے اس لیے اس باراتناسستاحج
ہوگا کہ درخواست گزاروں کی قطاریں لگ جائیں گی۔
ہائے افسوس ایساکچھ بھی نہیں ہوا،ریاست مدینہ کے دعویدارحکمرانوں کے دورمیں
بھی حاجیوں کے ساتھ کھلواڑکیاگیا چورحکمرانوں کے دورمیں جوحج دولاکھ اسی
ہزارمیں ہوتاتھا وہی حج اب کی بارچارلاکھ پچاس ہزارروپے میں بھی مشکل ہوگیا
اسی لیے وزارت مذہبی امورکوچارمرتبہ حج قرعہ اندازی کرناپڑی ،مگرپھربھی
ہزاروں افرادنے اپنی درخواستیں واپس لے لیں ،حاجیوں کواضافی سہولیات
تودرکنارسابقہ دورکی سہولیات بھی میسرنہیں تھیں وزارت مذہبی امورکی بدترین
نااہلی نظرآئی منی اورعرفات میں جہاں حاجی دعائیں مانگتے ہیں وہاں وہ حکومت
اوروزارت مذہبی امورکوبددعائیں دیتے نظرآئے ،کسی مکتب میں پانی نہیں توکہیں
سیوریج کاپانی رہائش گاہوں میں داخل ہونے کی ویڈیوزسوشل میڈیاپروائرل ہوئیں
،کہیں باسی روٹیاں دی گئیں توکہیں مردوزن کوایک ہی مکتب میں اکٹھا کردیاگیا
مکہ میں رہائش گاہیں اتنے فاصلے پرتھیں کہ حاجی دوبسیں بدل کربھی حرم تک
نہیں پہنچ پاتے تھے اورآخری دس دنوں میں وہ بس سروس بھی بندکردی گئی ،وزارت
مذہبی امورنے پانچ ارب روپے حاجیوں کوواپس کرنے کی خوشخبری سنائی مگریہ رقم
بھی تمام حاجیوں کوواپس نہیں دی گئی اس کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ کتنے
حاجیوں کورقم واپس کی گئی ہے رقم واپسی میں بھی دوہرامعیاررکھاگیا جن
عازمین کوحرم سے دوررہائش گاہیں ہونے کی وجہ سے رقم واپس کی گئی اسی کے
قریب رہائش پذیردیگرحاجیوں کورقم نہیں لوٹائی گئی جس پرحاجیوں نے مکہ میں
احتجاج بھی کیا ۔
غرضیکہ اس مرتبہ حاجیوں کے لیے اتنی آسانیاں نہیں تھیں جتنے دعوے کیے جارہے
تھے وزارت مذہبی امورکے میڈیاسیل نے پہلے دومکتبوں میں مسائل کااعتراف کیا
مگرپاکستانی حاجیوں کوسہولیات فراہم نہ کرنے پرسعودی وزارت مذہبی امورنے
دوڈائریکٹرمعطل کرکے ان کے خلاف انکوائری کمیٹی بنائی توہمارے وزیرمذہبی
امورنے بھی چارمکاتب میں مسائل کااعتراف کیا جبکہ آزادذرائع کاکہناہے کہ
منی میں آٹھ سے دس مکاتب میں حاجیوں کوشدیدمشکلات کاسامناکرناپڑا ایک مکتب
میں کم ازکم تین ہزاراورزیادہ سے زیادہ پانچ ہزارحاجی رہائش پذیرہوتے ہیں ،
وزارت مذہبی اموریہ کہہ کرجان چھڑالیتی ہے کہ سعودی عرب میں انتظامات
اورکنٹرول سعودی کمپنیوں اورحکومت کے پاس ہوتاہے مگریہ بات اتنی سادہ نہیں
کیوں کہ امسال جب وزیرمذہبی امورنے حج پالیسی کااعلان کیاتھا توانہوں نے
کہاتھا کہ مؤسسہ جنوبی ایشیاء سے معاہدے کے دوران اس بات کوشامل کیاگیاہے
کہ پاکستانی معاونین حج منی اورعرفات میں معلمین کی معاونت کریں گے تاکہ
عازمین حج کسی قسم کی مشکل یاپریشانی کی صورت میں فوری رہنمائی میسرآسکے
مگروزارت مذہبی اموریہ بتانے سے قاصرہے کہ منی اورعرفات میں حاجیوں کوجب
مسائل کاسامناکرناپڑاتوان کی بات سننے والاموجود ہی نہیں تھا ۔مؤسسہ جنوبی
ایشیا ء کو ہمارے عازمین کی کیاپرواہ ہوسکتی ہے کیوں کہ اس نے توامسال بھی
ہمارے افسران جوحج ڈیوٹی پرتھے انہیں ان کی بیویوں سمیت وی آئی پی مکتب
الاٹ کردیاتھاسادگی اورکفایت شعاری کاڈھنڈورہ پیٹناہی کافی نہیں اس کی
تحقیقات ہونی چاہیے کہ کن کن سرکاری افسران کے اہل خانہ نے حج کیا ہے
اورانہیں منی میں کون سا مکتب الاٹ کیاگیاتھا ؟
سعودی عرب میں عازمین کے لیے رہائش گاہوں ،کھانے اورٹرانسپورٹ کی سہولت کی
فراہمی میں کمیشن کابہت بڑاعمل دخل ہے اس لیے جوافسران اس کام کے لیے متعین
ہوتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عرصہ سعودی عر ب میں
مقیم رہیں اب یہ وزارت مذہبی امورکی نااہلی تھی یاان افسران کی چمک کاکمال
تھا کہ ڈی جی حج مکہ اورڈائریکٹرمکہ کی تین سالہ مدت ملازمت گزشتہ سال
دسمبرمیں ختم گئی تھی مگروہ تاحال سعودی عرب میں مقیم ہیں اورسعودی کمپنیوں
سے تمام ترمعاہدے انہوں نے کیے وزارت مذہبی امورسرتوڑکوشش کے باوجود کئی
ماہ تک نئے ڈی جی اورڈائریکٹرکی تعیناتی کے لیے انٹرویونہ کرسکی اورعین حج
آپریشن شروع ہونے سے چنددن قبل نئے ڈی جی اورڈائریکٹرکی تعیناتی کی گئی
ظاہرہے کہ ان کی تعیناتی ایسے وقت میں ہوئی تھی کہ وہ حج آپریشن نہیں
کرواسکتے تھے ۔اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ آخروہ کون سی طاقت ورلابی
ہے کہ جنھوں نے آٹھ ماہ تک ان عہدوں کے لیے انٹرویوہی نہیں ہونے دیے ۔
اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب میں ایک طاقت ورمافیاہے ہماراحج مشن اس مافیاکے
چنگل میں پھنساہواہے عازمین کے لیے حاصل کی جانے والی تمام ترسہولیات اس
مافیا کے بغیرنہیں ہوسکتیں اس مافیا پرکسی نے ہاتھ نہیں ڈالا اس کی ایک
چھوٹی سی مثال ٹرانسپورٹ سروس ہے گزشتہ کئی سالوں سے ایک ہی کمپنی کوٹھیکہ
دیاجارہاہے اوروہ ایسی کمپنی ہے کہ جس کے پاس بسوں کی مطلوبہ تعدادبھی پوری
نہیں ہے اس سے بھی مزے کی بات یہ ہے کہ مکہ میں ہمارے حج مشن نے گزشتہ سال
نومبرمیں ٹرانسپورٹ کے حصول کے لیے ٹینڈردیاابھی ٹینڈراوپن نہیں ہواکہ
ہمارے وزیرمذہبی امورجب سعودی عرب حج معاہدے کے لیے جاتے ہیں توانہیں اسی
کمپنی کی بسوں کامعائنہ کرواکرمعاملات طے کرلیے جاتے ہیں ۔یہ اس مافیا کاہی
کمال ہے کہ ہمارے عازمین کوحرم سے دوررمہنگی ہائش گاہیں دی جاتی ہیں
اگرکمیشن کونکال دیاجائے تو دیگرممالک کی طرح ہمارے عازمین کوبھی حرم سے
نزدیک اورسستی رہائش گاہیں مل سکتی ہیں ۔
گزشتہ سالوں میں یہ ہوتاتھا وزارت مذہبی امورکی قائمہ کمیٹی کے ارکان حج
انتظامات کی نگرانی کیاکرتے تھے جس میں اپوزیشن کے ارکان بھی شامل ہوتے تھے
مگرامسال حکومت نے یہ نگرانی ازخود اپنے ذمے لے لی تاکہ اپوزیشن ان کی
نااہلی پرشورنہ ڈال سکے۔ وزیراعظم کی طرف سے معاون خصوصی شہزادارباب
کوکوآرڈینیٹربنایاگیا جنھوں نے حج کی سعادت حاصل کی پھراس کے بعد وزیرمذہبی
امور،سیکرٹری مذہبی اموربھی نگرانی کے لیے سعودی عرب گئے جبکہ جوائنٹ
سیکرٹری مذہبی امورکی نگرانی میں بھی نگران کمیٹی قائم کرتی رہی ان میں
کہیں بھی اپوزیشن کاکوئی ممبرشامل نہیں تھا اس کے باوجود وزارت مذہبی
امورنے عجیب مؤقف اپنایااورباربارکہاکہ کچھ لوگ سیاسی مقاصدکے لیے یہ
ویڈیوزبنارہے ہیں حالانکہ دیگرسیاسی جماعتوں کواس مرتبہ ہوابھی نہیں لگنے
دی گئی یاپھرہارڈشپ کوٹے سے اپوزیشن کوبھی نوازکران کامنہ بندکردیاگیا
؟ہارڈشپ کوٹے کی تقسیم کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ آخریہ پندرہ سوبڑھ
کرچھ سات ہزارتک کیسے پہنچااورکس کس کواس کوٹے سے نوازاگیاہے ؟
پرائیویٹ حج کوٹہ کی تقسیم بھی ایک منافع بخش عمل ہے اورہرسال اس سے کئی
لوگ مستفیدہوتے ہیں اگرچہ اس مرتبہ حج کوٹہ ساٹھ فی صدسرکاری اورچالیس فی
صدپرائیویٹ حج کمپنیوں کودیاگیا مگرسعودی ولی عہدکی طرف سے ملنے والے پندرہ
ہزارکے اضافی کوٹے کی تقسیم میں وزارت مذہبی امورکے دوبڑوں کے درمیان کافی
پھڈارہا مگربعدازاں یہ پندرہ ہزارسارے کاساراسرکاری سکیم میں شامل کردیاگیا
پرائیویٹ کوٹے کی تقسیم اوراس کے طریقہ کاربھی بہت سے سوالات ہیں اس سارے
عمل کی اگرشفاف تحقیقات کی جائیں توبہت بڑاسیکنڈل سامنے آسکتاہے ۔وزارت
مذہبی امورروڈ ٹومکہ پروجیکٹ کوبڑی کامیابی گردانی رہی ہے بہرحال پوسٹ حج
آپریشن جاری ہے مزیدبھی حقائق سامنے آتے رہیں گے ۔
|