بسم اﷲ الرحمن الرحیم
دورغلامی کی باقیات کی صورت میں استعماری طاقتیں جو امت مسلمہ پر مسلط ہیں
وہ خاندانی بادشاہتوں کی صورت میں ہوں یا فوجی حکمرانوں کی فرد واحد کی
آمریت کی صورت میں ہوں انہیں ملک و قوم کا اعتماد کبھی بھی حاصل نہیں
رہا۔یہ طاقتیں ہمیشہ سازشوں کے نتیجے میں برسراقتدار آئیں اور جبرو استبداد
اور بیرونی بیساکھیوں کے سہارے اپنے دن پوری کرتی رہیں۔یہی وجہ ہے کہ
مسلمانوں کے ان مصنوعی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ہمیشہ غیر
مسلموں کی طرف ہی دیکھا چنانچہ جب تک خارجی آشیر باد حاصل رہی تب تک اقتدار
کے ایوان میں حکومت کی دیوی ان پر مہربان رہی اور جیسے ہی یہ سیڑھی پاؤں کے
تلے سے سرکتی ہوئی نظر آئی یہ دوسری دنیاوؤں کے نمائندے جنہیں مسلمانوں پر
حکومت کا کوئی اخلاقی و قانونی و شرعی جواز حاصل نہیں ہے کوئے یار سے سوئے
دار کی طرف سدھارتے ہوئے نظر آئے۔شاہ ایران سے حسنی مبارک تک ان بے بس و
سرنگوں حکمرانوں کی تاریخ کا ایک تسلسل ہے جو اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو آنے
والے دنوں میں بھی پہلے سے زیادہ شدو مد کے ساتھ جاری رہے گا ۔تف ہے ان
حکمرانوں کی عقل پر کہ دہائیوں پر محیط طویل المدت اقتدار میں بھی یہ اپنی
قوم و ملت کی ہمدردیاں حاصل نہ کر سکے اور نہ ہی اپنے پیش روؤں سے کوئی سبق
عبرت ہی حاصل کر سکے۔شاید انہیں کے بارے میں قرآن مجید نے سورة یسن کی آیات
8ار9 میں فرمایا کہ”ہم نے ان کی گردنوں مین طوق ڈال دیے ہیں جن سے وہ
ٹھوڑیوں تک جکڑے گئے ہیں،اس لیے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں ۔ہم نے ایک دیوار ان
کے آگے کھڑی کر دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے،انہیں اب کچھ نہیں
سوجھتا“۔یعنی نہ وہ ماضی سے سبق لیتے ہیں اور نہ ہی اپنے مستقبل کے انجام
سے انہیں کچھ خوف محسوس ہوتا ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ تمام اسلامی ممالک کی افواج نے دشمن کے آگے ہتھیار
پھینک کر بدترین ہزیمت اٹھائی ہے اور اپنے ہی ہم وطنوں پر ہتھاروں سے آگ
اگل کر ذلت و رسوائی کی شرمناک تاریخ رقم کی ہے۔لیبیا کی فوج بھی جو باقی
اسلامی ممالک کی افواج کی طرح دور غلامی کی قبیح باقیات میں سے ایک ہے
حالیہ دنوں میں اس نے اپنے ہی ہم وطنوں پر اس بے دردی سے کاروائی کی ہے کہ
الامان و االحفیظ۔ ہوائی جہازوں سے نہتے مظاہرین پر بندوقوں کے دہانے کھول
دینا کہاں کی انسانیت ہے؟؟لیکن مسلمان ملکوں کی افواج کی یہ مجبوری ہے کہ
انہیں مغربی استعمار نے دشمن سے لڑنے کے لیے تیار کیا ہی نہیں تھا،سو وہ
اپنا مقصد وجود بحسن و خوبی نبھا رہی ہیں۔دکھ کی بات تو یہ ہے دونوں طرف سے
جانی و مالی نقصان تو امت مسلمہ کے سپوتوں کا ہی ہے اور سامراج آج بھی
اکھاڑے سے باہر کھڑے ہوکر صرف سیٹی بجاتا ہے اور مسلمان ملکوں کی افواج کسی
درندے کی طرح انسانوں پر ٹوٹ پڑتی ہیں جس کے نتیجے میں آمروں ،خاندانوں اور
سامراج کے نمائندوں کے ہاتھ مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں،لیکن آخر کب تک؟؟۔مشرق
و مغرب کی بیداری کے بعد پوری امت کی نظریں جزیرہ عرب پر مرکوز تھیں اور
بعض اوقات بے حسی کے باعث مایوسی سی پھیل جاتی تھی لیکن اب ٹھنڈی ہوا کے
جھونکے آنا شروع ہوئے ہیں اور بلآخر اولین وارثان امت بھی بیدار ہو ہی
گئے۔بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ سیکولرازم و نیشل ازم کے اس فرسودہ نظام
جہالت و تنگ نظری کی بساط لپیٹی جانے والی ہے اور تماشا دکھا کر یہ مداری
بھی گیا چاہتا ہے۔
لیبیا کے حالیہ داخلی حالات اس ملک کو شاید کسی بڑی عالمی آزمائش کی طرف
لیے چلے جا رہے ہیں۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کے نتیجے میں نیٹو کی دھمکی
کے بعد تو صورت مزید سنگین ہو چکی ہے۔ کیا لیبیا ان حالات کا مقابلہ کر
پائے گا؟؟اس کا سیدھا سادہ سا جواب تو قرآن نے دیا ہے کہ ایمان و استقامت
کے ساتھ ہی طاغوت سے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے ۔عرب ممالک نے اپنے بے پناہ
وسائل کے ساتھ چھوٹے سے اسرائیل کے ساتھ ایسی جنگ لڑ کر دیکھ لی ہے جس کی
بنیاد ایمان کی بجائے قومیت پر رکھی گئی تھی اور چھوٹی سی حزب اﷲ نے بھی
اپنے سے کئی گنا بڑی ایٹمی طاقت اسرائیل سے جنگ لڑ ی جس کی بنیاد ایمان پر
تھی اور دونوں جنگوں کے نتائج نوشتہ دیوار ہیں جو چاہے پڑھ لے۔لیبیا اور
نیٹو کا عسکری وسائل کے لحاظ سے اگرچہ کوئی تناسب نہیں لیکن اگر لیبیا کے
مسلمان کسی متقی ودیندار قیادت کی اقتدا میں ایمان کے جھنڈے تلے نیٹو سے
پنجہ آزمائی کریں تو افغان مجاہدین کا سبق تاریخ کے اوراق میں ایک بار پھر
بھی دہرایا جاسکتا ہے۔تاہم نیٹو اگر عقل کے ناخن لے تو افغانستان کے
مسلمانوں سے تلخ تجربے کے بعد لیبیا میں یہ حرکت نہ دہرائے لیکن گیدڑ کیا
کرے کہ موت اسے شیر کے پاس لے ہی جاتی ہے۔
لیبیا کی افواج دیگر دنیاوؤں کی طرح اپنے ملک کی سرزمین کی آئینی محافظ
ہیں۔یہ افواج بری،بحری اور فضائی شعبوں پر مشتمل ہیں اور ایک عوامی ملیشیا
بھی ان افواج کا حصہ ہے۔لیبیامیںوزارت دفاع کا الگ سے کوئی و جود نہیں اور
تمام تر دفاعی امور براہ راست ایوان صدر سے ہی نمٹائے جاتے ہیں۔لیبیا کی
فوج میں ایک مدت تک برطانوی وردی ہی رائج رہی ہے بعد میں وردی تو تبدیل کر
دی گئی لیکن ملازمت اور افسران کے عہدے اوردیگر روایات کم وبیش اسی طرح ہی
لیبیا کی فوج میں رائج ہیں جس طرح استعمار کی تیارکردہ دیگر اسلامی ممالک
کی افواج میںہیں۔ایک زمانے سے لیبیاچونکہ روس کااتحادی رہا ہے اورماضی میں
امت پر برے وقت کے دوران میں بھی لیبیا کے حکمران مسلمانوں کی بجائے روسی
پالیسیوں کی حاشیہ بردار رہے اس لیے لیبیاکے پاس تمام تر اسلحہ زیادہ تر
روستی ساختہ ہے ،جبکہ مملکت میں اسلحہ سازی برائے نام ہی ہے اور جو ہے وہ
بھی براہ راست کلی طورپرسرکار کے دائرہ اختیار میں ہی ہے ۔لیبیاکی افواج کی
جڑیں سنیوسی تحریک کے عساکر میں ملتی ہیںجنہوں نے لیبیاکی آزادی میں بڑا
اہم کردار اداکیاتھا۔1837میں پیداہونے والے سیدمحمدابن علی السنیوسی اس
تحریک کے بانی تھے جنہوں نے افریقی ممالک میں تجدیددین کی مساعی کیںآج بھی
لیبیاکی ایک تہائی آبادی اس تحریک سے کسی نہ کسی طور وابسطہ
ہے۔1902سے1913تک سہاراکے عظیم صحرامیں اس تحریک کے مجاہدین کی فرانس کے
ساتھ طویل گوریلا جنگ رہی،دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد1951میں امیر
سنیاسی کا پوتا شاہ ادریس المہدی لیبیاکاحکمران بنااور سنیوسی مجاہدین نے
لیبیاکی شاہی افواج کا نام حاصل کر لیا۔1969میں کرنل محمد قذافی نے ایک
فوجی بغاوت کے ذریعے شاہ ادریس کو اقتدار سے محروم کرکے تو لیبیا کے اقتدار
پر قبضہ کرلیا۔تب سے لیبیائی عوام ایک فوجی سیکولرآمریت کی کڑکتی دھوپ میں
زندگی بسر کررہے ہیں اور انہیں کوئی جمہوری حقوق و سیاسی آزادیاں حاصل نہیں۔
اس وقت لیبیاکی بری افواج کم و بیش پچاس ہزار مردان جنگی پر مشتمل ہےں جن
میں سے نصف کے برابر تعدادرضاکاروں کی بھی ہے۔بری افواج میں گیارہ سرحدی
حفاظتی دستے ہیںجنہیں چار دفاعی حصوں میں تقسیم کیاگیاہے،دس ٹینکوں کی
بٹالینز،دس تیکنیکی انفنٹری بٹالینز،اٹھارہ انفنٹری بٹالینز،چھ
کمانڈوبٹالینز،بائیس آرٹلری بٹالینز،سات فضائی دفاعی
بٹالینزاورچارSSM(Surface-to-Surface Missile)زمین سے زمین پر مار کرنے
والے میزائلوں کے بریگیڈ شامل ہیں۔2009میں برطایہ کی خصوصی فضائی تربیتی
ادارے نے لیبیا کے منتخب فوجی افراد کو تربیت دی تھی جس کے باعث امریکی
سفارت کاروں کے مطابق لیبیاکا”خامس بریگیڈ “یہاں کا بہترین تربیت یافتہ
دفاعی بریگیڈ ہے۔لیبیائی افواج کے پاس موجود اسلحہ کی بہت زیادہ تعداد
ستراوراسی کی دہائی میں درآمدکیاگیاروسی ساختہ اسلحہ کی ہی ہے جو کہ اب
اپنی مدت میعاد تقریباََ کھو چکاہے یا پھر بہت زیادہ فرسودہ ہو چکاہے اور
اسلحے کی جدیدٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔نوے کی دہائی میں اقوام
متحدہ کی اسلام دشمن پالیسیوں کے باعث لیبیاپر لگنے والی معاشی و دفاعی
پابندیوں کے نتیجے میں اس ملک نے اسلحے کی کوئی نئی کھیپ نہیں خریدی اور
ایک طویل دورانیے کے فوجی اقتدارکے باعث مملکت تہذیبی و تعلیمی جمود کا
شکار ہے ،گویا لیبیائی مسلمان دودھاری تلوار کے نیچے دم لینے پر مجبور
ہیں۔خارجی طاغوت اور داخلی سامراج نے مل کر ارتقاءکے عمل کو جام کررکھاہے
جس کے براہ اثرات دفاع پر بھی بری طرح مرتب ہوئے ہیں۔
لیبیائی بری افواج کے پاس جوچھاؤنیاں موجود ہیں ان میں سے
1۔ الآدم چھاونی
2۔اجدابیہ چھاؤنی: شمال مشرقی لیبیاکے ضلع الواحات کے مضافاتی گاؤں میں
واقع ہے اور تادم تحریر اس چھاؤنی میں حکومت مخالفین کا قبضہ ہے۔
3۔اوزوء چھاؤنی:یہ لیبیااور شمالی چاڈ کی سرحد پر واقع ہے۔
4۔البائدہ چھاؤنی
5۔بن غازی چھاؤنی:لیبیاکادوسرابڑاشہر بن غازی ہے،یہ شہر تہزیبی و ثقافتی
مرکزہونے کے ساتھ ساتھ بندرگاہ کے باعث تجارتی مرکزبھی ہے ۔اس شہر کی اہمیت
کے پیش نظر یہاں بھی لیبیائی افواج کی بہت بڑی چھاؤنی موجود ہے۔حکومت کے
باغی اس شہر پر بھی قبضے کادعوی کرتے ہیں۔
6۔غات چھاؤنی:یہ لیبیا کے دوردراز مقام جنوب مغرب میں واقع ”غات “نامی قصبہ
میں واقع فوجی اڈہ ہے۔یہ مقام افریقہ کی شاہراہ تجارت پر واقع ہے اسی اہمیت
کے پیش نظر یہاں پر صدیوں سے فوجی چھاؤنی قائم ہے اور ایک ہوائی اڈہ بھی ہے۔
7۔مصرائیہ چھاؤنی:یہ شہر لیبیاکا تجارتی دارالحکومت کہلاتاہے۔اخباری
اطلاعات کے مطابق اس شہر پر بھی حکومت باغیوں کا قبضہ ہے۔
عساکرلیبیاکے پاس روسی ساختہ اسلحہ اب کس حالت میں ہے ؟؟اس بات کااندازہ
2009کے ان اعدادوشمار کے ساتھ لگایاجاسکتاہے جوIISS(The International
Institute For Strategic Studies)نے پیش کیے ہیں۔اگرچہ یہ بھی ایک
سیکولرمغربی یورپی ادارہ ہے جو مسلمانوں کے خلاف بھرپور عصبیت رکھنے میں
کسی پیچھے نہیں تاہم لیبیاکے دوسوT-72ٹینکوں میں سے ایک سو پندرہ سٹور میں
دھرے ہیں،ایک سو T-62ٹینکوں میں سے ستر سٹور کی نذر ہو چکے ہیں اورچھوٹی
بڑی فوجی گاڑیوں میں سے صرف ایک سو بیس باقی بچی ہیں۔2010میں روسی وزارت
دفاع نے T-72ٹینکوں کوجدید بنانے کا صرف وعدہ کیا تھا،اس کے بعد سے خاموشی
ہے۔اسی ادارے IISSکے مطابق آرٹلری کے کل قابل حرکت ہتھیاروں میں سے ڈحائی
ہزار کے قریب ہی قابل استعمال حالت میں ہیں۔ٹینک شکن میزائلوں کی حالت بھی
اسی کیفیت کا شکار ہے۔بڑی چھوٹی مشین گنزبھی سقوط ماسکوکے ساتھ ہی سقوط و
جمود کا شکار نظر آتی ہیں۔ جب روس ہی ڈوب گیاتو روسی اسلحے کاکیا بھروسہ
باقی رہا”افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو“کے مصداق اب لیبیائی فوج کے
ہتھیار کہاں سے اپنی تجدید کرائیں؟؟۔کاش مسلمانوں کے ان حکمرانوں نے شرق و
غرب کی بجائے آسمان وحدانیت کا سہارا تھاماہوتااور سائنس و ٹیکنالوجی کے
میدان میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے تو آج امت کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ان
حکمرانوں نے اپنوں کا گلا دبایا ہے جس کے باعث امت کا بہترین ذہن ہجرت کرنے
پر مجبور ہوااوراسی بہترین و شاداب ذہن سے غیروں نے خوب فائدہ اٹھایا۔
لیبیاکی فضائیہ کاآغاز1963ءمیں شاہ ادریس کے زمانے میں امریکہ اور برطانیہ
کے کہنے کیاگیاتھا تاکہ مشرق وسطی کے ”انقلابیوں“سے نپٹاجا سکے۔اس وقت
لیبیامیںتیرہ فضائی اڈے ہیں جو فضائیہ کے استعمال میں رہتے ہیں۔تریپولی سے
سات میل کے فاصلے پر امریکیوں کا چھوڑا ہوافضائی اڈہ اب ”عقبہ بن
نافع“ہوائی اڈے کے نام سے لیبیا کا سب سے بڑا فضائی قوت کا مرکز ہے۔یہاں
لیبیاکی فضائیہ کا مرکزاور تعلیمی و تربیتی ادارے بھی ہیں۔اسی ہوائی اڈے پر
روسی ساختہ مگ17،مگ19،مگ25اورTu-22بمبار تیارے موجود رہتے ہیں۔اس علاقے میں
مصر کے بعد لیبیا کودوسری بڑی فضائی قوت مانا جاتا ہے لیکن یہ تمام طیارے
ساٹھ اور ستر کی دہائی کی تیکنالوجی کے حامل ہیں اوراب وقت بہت آگے نکل
چکاہے۔لیبیاکی فضائی حالت کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ
15اپریل 1986کو اقوام متحدہ جیسے مسلمان دشمن ادارے کے ایما وآشیرباد پر
امریکہ نے لیبیاپر ہوائی حملے کیے اور لیبیاکے 5 مسافر طیارے،14جنگی
طیارے،2 ہیلی کاپٹراور درجنوں انسانی جانیں ضائع کر دیں جبکہ لیبیاکی پوری
فضائیہ صرف ایک امریکی طیارہ ہی گرا سکی۔جبکہ موجودہ بحران میںیہی فضائیہ
پوری قوت سے نہتے مظاہرین پر گولیاں چلانے میں آگے آگے تھی۔یہی کردار ہے
تمام اسلامی ممالک کی افواج کا کہ دشمن سے کانپتی ہیں اور اپنے ہی شہریوں
پر بدمعاشی کرتی ہیں۔
لیبیا کی بحریہ کا آغاز 1962کو ہواآغاز میں یہ صرف چند کشتیوں اوران پر
چھوٹی چھوٹی بندوقوں سے ہواجو زیادہ تر ساحل کی نگرانی ہی کرتی تھیں1966میں
پہلا جنگی بحری جہاز بحریہ کے حوالے کیا گیا،1969میں اس وقت کے جدید ترین
ہتھاروں سے لیبیا کی بحریہ کو علاقے کی بہت بڑی قوت بنا دیاگیا۔اس وقت کم و
بیش آٹھ ہزار جوان بحریہ کی افرادی قوت میں داخل ہیںاور لیبیا کے چھ بحری
قوت کے اڈے ہیں۔ الخمس،بن غازی،مصریہ،طبروق،تریپولی اورضرنہ۔لیبیائی بحریہ
کے پاس بہت سی جنگی کشتیاں اور کچھ جنگی جہازوں کے ساتھ1982ءمیں روس سے
خریدی گئی چھ ّبدوزیں بھی تھیں جن میں سے ایک تو 1993میںڈوب ہی گئی جس سے
اس آبدوز میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کا اندازہ کیا سکتاہے۔،ایک بین
الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑی گئی۔باقیوں میں سے ایک کو
2003میں مرمت کیاگیا لیکن اس کی نقل و حرکت بھی ابھی تک مخدوش ہی ہے۔1986کی
امریکی کاروائی میں لیبیا کی بحریہ نے بھی کمال کی پٹائی کھائی اور کئی
جہاز اور کشتیاں تباہ کروائیں لیکن حالیہ بحران میں بحریہ بھی فضائیہ سے
پیچھے نہ رہی اورتریپولی میں میزائل بردار کشتیوں سے شہریوں پر گولیاں
چلائی گئیں اوران شہریوں کو ہلاک کیاگیا جو اپنے سیاسی و جمہوری حقوق کی
پاسداری کے لیے سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے تھے۔
ا ن دگرگوں حالات کے باوجوداگر حکمرانوں کو قوم کااعتمادحاصل ہو توبڑی سے
بڑی قوت سے بھی ٹکر لی جا سکتی ہے جس طرح ایران کی مثال موجود ہے کہ حکمران
اور قوم چونکہ ایک ہیں توطاغوت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔اس کے برعکس جب امت
مسلمہ کے سیکولراور لادین حکمرانوں کی شکست خوردہ افواج سنسناتی ہوئی آہنی
گولیوں سے اپنی عوام کی درگت بنائیں اور پھر یہ توقع رکھیں کہ نیٹو جیسی
قوت سے ٹکراکر انہیں کسی طرح کی کوئی کامیابی ہو گی تو ماضی قریب میں عراق
اور اس کے حکمرانوں کاانجام جس قلم سے لکھاگیاہے اس کی سیاہی ابھی خشک نہیں
ہوئی۔جب تک امت مسلمہ کے حکمران اپنی چھوٹی چھوٹی اکائیوں سے نکل کرملت کی
وحدت میں پرو نہیں جاتے ،دشمن ہمیں ایک ایک کر کے شکار کرتا رہے گا،لیکن اب
امت کو متحد کرناان حکمرانوں کے بس میں بھی نہیں رہا۔حالیہ ”دہشت گردی“کی
جنگ میں امت نے ان حکمرانوں کا کردار جانچ لیاہے اوراب اٹھنے والی بیداری
کی لہر کے نتیجے میں انہیں اپنا بوریہ بستر گول کرنا ہو گااور بہت جلد ایک
بار پھر عرب کے ریگزاروں سے امت کی قیادت ابھرے گی جو اس دنیا میں امن عالم
کی ضامن ہوگی اور عالم انسانیت کوکیمونزم کے بعد سیکولرازم کے بھی اندھیرے
غار سے نجات دلا کر انبیاءعلیھم السلام کے لائے ہوئے درس توحیدسے آشنا کرے
گی ،انشاﷲ تعالیٰ۔ |