پی ٹی آئی کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ وہ کر دکھایا ہے
جو 72برسوں میں کسی نے نہیں کیا۔ملک بھر میں کاروبار ٹھپ،سرمایہ کاری ختم
ہو چکی ہے ۔انفراسٹرکچر ،تعلیم ،صحت ،انڈسٹری ،زراعت ،تجارت اور دیگر شعبوں
کی بدحالی حیران کن ہے ۔ایک سال میں کوئی ایک نیا پروجیکٹ شروع نہیں کیا جا
سکا۔حکومتی کارکردگی کا معیار معیشت اور گورننس کی تباہ شدہ صورتحال سے
لگایا جا سکتا ہے ۔
پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے ،ایسے مسائل ترقی پزیر ممالک میں ہوتے ہیں
،مگر انہیں حل کر کے ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوا جا سکتا ہے
۔آج جتنے ممالک ترقی یافتہ ہیں ۔یہ بھی ترقی پزیر ممالک کی مشکلات سے نکل
کر اس مقام پر پہنچے ہیں ۔لیکن انہیں ایک ایسی قیادت ملی،جس کے ویژن کے
تسلسل نے انہیں اس مقام تک پہنچانے میں مدد کی۔پاکستانی عوام کی بدقسمتی
رہی ہے کہ انہیں تسلسل سے قیادت نہیں ملی۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی
قیادت میں پاکستان کا وجود ممکن ہوا۔ان کے بعد طویل عرصے بعد ذوالفقار علی
بھٹو جیسی شخصیت کی قیادت قوم کے لئے انعام تھا،مگر ہمارے اندر میر جعفر
اور میر صادق کی کمی نہیں رہی ہے ۔پھر ذوالفقار علی بھٹو کو بیرونی دشمنوں
کی کمی بھی نہیں رہی ۔یہاں ایک ذہین اور دلیرانہ قیادت کو بچانا ارد گرد کے
لوگوں کا کام تھا ،مگر جب گردونواح میں غداروں اور مفاد پرستوں کا جھرمٹ ہو
تو ہیروز ایسے ہی اپنی جان سے جاتے ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کوئی
ایسی قیادت کیوں سامنے نہیں آئی ؟ کیونکہ ہماری عوام ہیروز کی قدر سے
ناآشنا ہے ۔جو قوم اپنے ہیروز کی قدر کرنا نہیں جانتی وہاں قیادت کا فقدان
رہتا ہے ۔قوم نے بے نظیر بھٹوشہید جیسی قیادت کو بھی اسی وجہ سے کھودیا۔یہی
وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کو موجودہ قیادت کے عذاب کو جھیلنا پڑ رہا ہے ۔جو
اپنی تمام تر نااہلی کا الزام دوسروں پر ڈالنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے
۔حکومت کے کسی بھی وزیر سے ان کی کارکردگی کے متعلق سوالات کر لیں ۔جواب
میں کسی نہ کسی کے کندھوں پر تمام تر ذمہ داری لاد دی جاتی ہے ۔
حکومت کے ایک سال گزرنے کے بعد نیب پر اعتراض اٹھانا شروع کر دیے ہیں
۔کیونکہ کتنی دیر ماضی کی حکومتوں پر الزام تراشی رہتی،نیا ہدف نیب کو
بنایا جا رہا ہے ۔نیب کی وجہ سے ملک میں کاروبار ٹھپ اور سرمایہ کاری ختم
ہو گئی ہے ۔نیب کاروباری لوگوں کا نہ صرف بازو مروڑنے میں مصروف ہے بلکہ
انہیں ڈراتا دھمکاتا بھی رہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ملکی کاروباری حالات خراب
تر ہو رہے ہیں ۔لوگ سرمایہ کاری نہیں کر رہے اور پیسہ بنکوں کی بجائے گھروں
میں کیش کی صورت میں رکھ رہے ہیں ۔یہ حکومت خود اعتراف کر رہی ہے۔نیب کے
ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اپوزیشن کو ’’لتاڑنے‘‘والی حکومت اپنے کیے پر پریشان
ہے،مگر شرمندہ نہیں ہے ۔
اس حکومت کے پاس منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ۔حکمرانوں کی
طرز حکمرانی دیکھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ
حکومت مل جائے گی۔یہ انہونی اچانک حادثاتی طور پر ہوئی۔میاں نواز شریف
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بعض معاملات پر اڑ گئے ۔جسے میاں نواز شریف کو بلیک میل
کرنے کے لئے صرف سامنے کھڑا کیا گیا تھا ۔مقتدر قوتوں کو اسے اقتدار پر
لانا پڑا ۔یہ صرف میاں نواز شریف اور دیگر سیاست دانوں کو عبرت کا نشان
بنانا مقصود تھا۔تاکہ ان کے سامنے دوبارہ ایسی حرکت نہ ہو سکے اور اپنی قوت
کا بھر پور اظہار کیا جائے ۔
عمران خان نے وزیر اعظم بنتے ہی کسی کو نہ چھوڑوں گا کی تقریر کر دی ۔انہوں
نے وہ کر بھی دکھایا۔لیکن ان بچگانہ حرکات ،ہٹ دھرمی نے ملک کو نا قابل
تلافی نقصانات سے دوچار کیا ہے ۔کاروبار تباہ ہونے کی وجہ تو حکومت نے خود
بیان کر دی اور نیب پر تمام تر بوجھ ڈال دیا ۔آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے
ہیں کہ کاروباری لوگ اپنا سرمایا پاکستان میں انویسٹ کرنے کی بجائے دوسرے
ملکوں میں لے جا رہے ہیں۔سٹاک مارکیٹ کے 54 ہزار پوائنٹس کا 29ہزار پر آ
جانا ،یعنی ملک سے 65ارب ڈالر باہر جا چکا ہے۔آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر تین
برسوں میں لینا ہے ۔جس کے لئے پورے ملک کو یرغمال بنایا گیا ہے ۔اس سے
گیارہ گنا ڈالر پاکستان سے باہر جا چکے ہے ۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کشمیر مسئلہ پر کھل کر سامنے آ چکی ہے ۔کشمیر پر
ٹوپی ڈرامہ ہو رہا ہے ۔مودی پوری دنیا کے بڑے ممالک کے سربراہان سے
ملاقاتیں کر رہا ہے ۔اپنا کشمیر کے متعلق مؤقف دے رہا ہے ۔انہیں باور بھی
کروا چکا ہے کہ وہ درست ہے ۔لیکن ہمارے وزیر اعظم ٹیوٹر اور میڈیا پر جنگ
لڑ رہے ہیں ۔پوری دنیا میں دو ممالک ایران اور ترکی کے سوا کسی مسلم ممالک
نے کشمیر کے حق میں ایک بیان نہیں دیا۔کشمیر کے مسلمانوں کا ساتھ دینا تو
بہت دور کی بات ہے ۔
میاں نواز شریف کے گھر جاتی عمرہ میں مودی طائفے کی آمد مقتدر اداروں کو
ناگوار گزری ۔میاں نواز شریف کی ہمیشہ بڑی خواہش رہی ہے کہ وہ کشمیر کا
مسئلہ حل کروائیں ۔انہیں جب بھی موقع ملا ،کوشش کرتے رہے ۔ لیکن فوج اسے
اپنے انداز میں حل کرنا چاہتی ہے ۔چین کو 12سرحدیں لگتی ہیں ۔ان کے تمام
ہمسایوں کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں ۔یہ ان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی اور
مؤثر منصوبہ بندی کا جاگتا ثبوت ہے ۔اگر اس کے برعکس پاکستان کی جانب دیکھا
جائے تو چار سرحدوں پر کسی ہمسائے سے دوستانہ تو کیا اچھے تعلقات بھی نہیں
ہیں۔اس سے خارجہ پالیسی کی ناکامی نظر آتی ہے وہاں پاکستان کی پالیسی میں
منصوبہ بندی کا فقدان عیاں ہے۔پاک امریکہ تعلقات پر پاکستان نے ہمیشہ بڑے
نقصانات اٹھائے ہیں ،مگر ہماری اکسری قیادت ہو یا سویلین قیادت امریکہ کی
آشرباد کے لئے پاغل رہے ہیں ۔پچھلی حکومتوں نے امریکہ سے تھوڑا سا دور ہونے
کی کوشش کی اور نئے دوست ڈھونڈے تو ہلچل مچ گئی ۔ایسے معاملات کو سنبھالنے
کے لئے قیادت کو اعلٰی معیار کا حامل ہونا چاہیے ۔عمران خان کو حکومت مل
گئی ہے ۔انہیں اپنی ضد،ہٹ دھرمی کو ختم کر کے دریا دلی،فیاضی ،رواداری
،بردباری ،اخوت و محبت اور یگانگت کو اپنانا چاہیے ۔یہ بات یقینی ہے، جب تک
ملک کے اندرونی معاملات درست نہیں ہوں گے ،بیرونی چیلنجز میں کامیابی ممکن
نہیں ہے ۔سولو فلائٹ کی عادت کو چھوڑ کر مل جل کر کام کرنے کو ترجیح دی
جائے ۔عوام بے حال ہے ،ان کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ کیا جائے ۔کرپشن ختم
نہیں ہوئی ۔کوئی کام نہیں ہو رہا۔اس کے لئے انفراسٹرکچر کو درست کرنا ہے
۔یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ملک کا اندرونی ماحول خوش گوار ہو گا۔ورنہ
دیر ہو تو چکی ،بربادی کا تماشہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے ۔
|