گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس 2011 میں پی پی حکومت نے
عائد کیا تھا۔ مقصد ایران پاکستان مجوزہ گیس پائپ لائن اور ترکمانستان
افغانستان پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن کے منصوبوں کی فنانسنگ تھا۔ حکومتی
سوئی سدرن اور ناردرن کمپنیوں، او جی ڈی سی ایل، فرٹیلائزرز، ٹیکسٹائل،
انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز، کیپٹو پاور پروڈیوسرز اور جینکوز پر یہ سیس
یکساں شرح سے لاگو کیا گیا تھا۔
2014 میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ اس کے خلاف آنے اور بعد ازاں سپریم کورٹ
میں اپیل مسترد ہونے کے بعد مسلم لیگ نون کی حکومت نے 2015 میں جی آئی ڈی
سی ایکٹ کا نفاذ کیا جس میں قانونی سقم بھی دور کر دیے گئے تھے اور سیس کی
شرح میں بھی اضافہ کر دیا گیا تھا۔ چونکہ دونوں پائپ لائن منصوبے اس وقت
کھٹائی میں پڑ چکے تھے اس لئے مسلم لیگ کی حکومت نے اس سیس کے تحت وصول رقم
کو بجٹ میں استعمال کر لیا۔
تقریباً سب بڑے صنعتکار جی آئی ڈی سی کے خلاف عدالتوں میں چلے گئے اور
مختلف عدالتوں سے سٹے آرڈر لے کر بیٹھ گئے۔ تاہم ان کی چالاکی ملاحظہ
فرمائیں کہ وہ عوام سے تو بدستور یہ سیس وصول کرتے رہے، مثلاً یوریا کھاد
پر کسان فی بوری 405 روپے سیس ادا کرتا ہے، مگر یہ رقم حکومتی خزانے میں
جمع کروانے سے بچنے کیلئے سٹے آرڈر کا سہارا لیتے رہے۔ یہ مسئلہ ابھی چل ہی
رہا تھا کہ صاف چلی، شفاف چلی حکومت آ گئی۔ کل جو چمتکار اس حکومت نے
دکھایا ہے یقیناً آپ ٹی وی اور اخبارات میں اس کے متعلق سن اور پڑھ چکے ہوں
گے۔
بظاہر حکومت اس فیصلے پر شدید تنقید کی زد میں ہے- مگر اس فیصلے کے درپردہ
محرکات اور اس سے مستفید ہونے والی عالی مرتبت شخصیات کے بارے میں کوئی
پیپلز پارٹی کی "عجب کرپشن کی گجب کہانیاں” سنانے والا کامران خان یا مسلم
لیگ نون کے 29 ارب کے منصوبے میں سے 34 ارب کی کرپشن نکال دکھانے والا
کلاسرا آپ کو کچھ نہیں بتائے گا۔
اسد عمر کے وزارت خزانہ سنبھالتے ہی جی آئی ڈی سی کا معاملہ ایک دم سے
خبروں کی زد میں رہنے لگا۔ صنعتکاروں کو عوام سے وصول شدہ رقم کا نصف ہڑپ
کرنے کا موقع دینا، جناب ہی کا سنہری آئیڈیا تھا جس کا آپ نے جنوری کے منی
بجٹ ہی میں مژدہ سنا ڈالا تھا۔ آپ یہ جان لیں کہ یہ اربوں روپے کی لاٹری کس
کس کی نکلی ہے تو باقی باتیں آپ خود ہی سمجھ جائیں گے۔
پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ 416 ارب کے کل واجبات کا پچاس فیصد یعنی 208 ارب
روپے ہی قومی خزانے کو لگنے والا واحد ٹیکا نہیں ہے- واجب الادا رقم پر
کائبور پلس چار فیصد سالانہ کا انٹرسٹ بھی واجب الادا تھا۔ کائبور کا تین
ماہ کا ریٹ 13.7 فیصد ہے یعنی 17 فیصد کا مزید فائدہ صنعتکاروں کو پہنچایا
گیا ہے یوں اس مد میں ہونے والا نقصان 300 ارب روپے سے زائد بن جاتا ہے-
فرٹیلائزرز انڈسٹری نے سیس کی مد میں 138 ارب روپے جمع کر رکھے تھے یوں اس
سیکٹر کی پانچ چھ کمپنیوں کو 59 ارب کا سیس کی مد میں اور چھ سے سات ارب کا
سرچارج کی مد میں فائدہ پہنچا ہے- گویا ہر کمپنی دس سے بارہ ارب گھر بیٹھے
کما چکی ہے- فوجی فرٹیلائزرز مالکوں کی ملکیت ہے- ان کی لازوال قربانیوں کے
مقابلے میں یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے- باقی بینفشریز میں
پاک عرب اور فاطمہ فرٹیلائزرز ہمارے جانے مانے جناب عارف حبیب کی ملکیت ہیں
، جبکہ اینگرو فرٹیلائزرز کے مالک جناب حسین داؤد ہیں۔ سیٹھ احمد داؤد کے
اس لائق جانشیں کا اس معاملے میں کلیدی کردار رہا ہے۔
یاد رہے کہ یہ جناب حسین داؤد ہی تھے جنہوں نے 2004 تا 2012 آٹھ برس تک اسد
عمر جیسے نکھٹو کو اینگرو کارپوریشن کا سی ای او بنائے رکھا۔ کامیاب بزنس
مین بہت دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہی لانگ ٹرم انویسٹمنٹ
انہیں فائدہ دیتی ہے- ایک اور حسین اتفاق یہ ہے کہ ہمارے وفاقی وزیر کا
درجہ رکھنے والے مشیر برائے صنعت و پیداوار جناب عبد الرزاق داؤد اور جناب
حسین داؤد آپس میں فرسٹ کزن ہیں۔
ٹیکسٹائل سیکٹر کے کل واجبات 42.5 ارب روپے تھے، سود ملا کر اس سیکٹر کو 25
ارب کا بونس ملا ہے- ایک اور حسین اتفاق یہ کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے چار پانچ
لیڈنگ پلیئرز میں سے ایک یعنی داؤد لارنس پور لمیٹڈ کے مالک بھی جناب حسین
داؤد ہیں۔ ان 25 ارب میں بھی آپ کا حصہ دو ڈھائی ارب سے کم کیا ہوگا۔
اب آ جائیے آئی پی پیز کی جانب۔ اس سیکٹر کو 3.6 ارب سیس کی مد میں اور
چالیس کروڑ کے قریب انٹرسٹ کی مد میں بچا ہے- اتفاق سے سب سے بڑے آئی پی پی
اور سب سے بڑے بینیفشری "حب کو” کے گزشتہ سال اکتوبر تک بھی جناب حسین داؤد
ہی مالک تھے۔ اکتوبر میں انہوں نے اپنی دونوں کمپنیوں اینگرو اور سیان
انرجی کے حصص اپنے دوست اور "میگا کانگلومیریٹ” کے مالک جناب حبیب اللہ خان
کو فروخت کر دیے تھے۔ اس ڈیل کے وقت بھی اربوں روپے کے ان واجبات کا معاملہ
اٹھا تھا مگر حبیب اللہ خان کو یقین دلایا گیا کہ اس مسئلے کا اطمینان بخش
حل نکل آئے گا۔ اس ڈیل کے نتیجے میں حب کو کے شئیرز میں ڈھائی روپے اور
اینگرو کے شئیرز میں ڈیڑھ روپے فی شئیر کا ایک ہی دن میں اضافہ ہوا تھا۔
خیر ہمیں کیا؟
جناب عبد الرزاق داؤد کی صنعت و پیداوار کیلئے گرانقدر خدمات کا بھی کچھ تو
صلہ بنتا ہے- آپ کی راوش پاور خانیوال کا 450 میگاواٹ اور آلٹرن انرجی کا
فتح جنگ میں 32 میگاواٹ کا پلانٹ بھی آئی پی پیز کو ملنے والے مال غنیمت
میں شریک ہے-
یہاں اس عظیم ہستی کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی جس کے پاکستان تحریک انصاف
پر اس قدر احسانات ہیں کہ جناب نے گرفتاری کے وقت بھی صدر پاکستان جناب
عارف علوی کا موبائل نمبر دیا تھا۔ اب یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ جناب عارف
علوی آرڈننس جاری کرتے سمے جناب عارف نقوی کو بھول جائیں۔ کے الیکٹرک اور
جینکوز کے ذمے 57 ارب سے زائد کے واجبات تھے، بیک جنبش قلم جناب صدر نے
انہیں سیس کی مد میں 28.7 ارب اور اس پر سرچارج کی مد میں تین ساڑھے تین
ارب معاف فرما دیے ہیں۔ اب کے الیکٹرک اور شنگھائی الیکٹرک کے مابین ڈیل کے
راستے کی بڑی رکاوٹ دور ہو چکی۔ اللہ جلد عارف نقوی کی مشکلات آسان فرمائے
گا۔ ان شاءاللہ۔
یہاں جن معزز کاروباری شخصیات کے نام لکھے ہیں، یقین کریں ان سے کوئی شکوہ
نہیں ہے- داؤد ہرکولیس کے جناب حسین داؤد تو وہ لیجنڈ ہیں مجھ جیسے دو ٹکے
کے کاروباری جن کو آئیڈیل سمجھتے ہیں، ان کے والد کے تذکرے کے بغیر تو
پاکستان کی صنعتی ترقی کی کہانی ادھوری رہتی ہے۔ عارف حبیب بھی ایسی ہی
قابل احترام شخصیت ہیں۔ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں یہاں آپ جیسے ہی لاکھوں
سے کروڑوں میں جاتے ہیں، آپ کے اپنے، پرائے، نجی، سرکاری، سول، فوجی غرضیکہ
بھانت بھانت کے کردار آپ کی ٹانگیں کھینچنے لگتے ہیں۔ ایسے میں کروڑوں سے
اربوں میں جا پہنچنے والا ہر جینوئن کاروباری شخص جینیئس ہے، اس ملک کا
محسن ہے اور ہمارے لئے قابل احترام ہے۔
دنیا بھر میں بڑے صنعتکار اور بزنس مین اپنے کاروباری فائدے کیلئے سیاسی
جماعتوں اور سیاسی شخصیات پر انویسٹمنٹ کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب پی پی
کے دور میں ملک ریاض اور نون لیگ کے دور میں میاں منشاء کو کوئی فائدہ
پہنچتا تھا تو وہ کرپشن کہلاتی تھی۔ آج عارف حبیب، حسین داؤد اور عبدالرزاق
داؤد کو پہنچنے والا فائدہ یقیناً حلال کرپشن ہے-
اس معاملے کے دو تین شرمناک پہلو مزید بھی ہیں۔ یعنی ایک تو جو تین سو ارب
معاف کیا گیا ہے یہ 1971 تا 2018 تک معاف کئے گئے بنک قرضوں سے بھی بڑی رقم
بنتی ہے- دوسرا یہ کہ قرضے تو خیر لوٹائے ہی نہیں گئے تھے، یہ رقم تو عوام
کی جیبوں سے نکل کر ان صنعتکاروں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہو چکی تھی۔ تیسرا
یہ کہ بقایا رقم بھی یہ معزز ہستیاں سیلز ٹیکس کلیم، ڈی ایل ٹی ایل یا سب
سڈی کے ساتھ ایڈجسٹ کر سکتی ہیں، گویا حکومت ان سے نقد ایک پائی بھی وصول
کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
چوتھا سب سے شرمناک اور المناک معاملہ یہ کہ او جی ڈی سی ایل کی ذیلی
کمپنیوں، ماڑی پور پٹرولیم اور دیگر حکومتی کمپنیوں نے اپنے ذمے سیس کا ستر
فیصد سے زائد اور سوئی سدرن اور ناردرن نے اپنے واجبات کا پچاس فیصد سے
زائد جمع کروا رکھا ہے- یہ رقم ان کمپنیوں کو ریفنڈ کرنے کا پورے آرڈننس
میں ذکر ہی نہیں ہے- گویا سرکاری ادارے جائیں بھاڑ میں، ہم صرف ارب پتیوں
کو نوازنے کے قائل ہیں۔
یہ وہی حکومت ہے جو عوام کیلئے صرف ایک سال میں گیس کی قیمت 243 فیصد بڑھا
چکی ہے- اور عوام کو دوسرے سے تیسرے مہینے کی مہلت دینے کو تیار نہیں۔ آپ
کو صرف قسطوں میں ادائیگی کی سہولت میسر ہے۔ باقی یاروں کیلئے جان بھی حاضر
ہے۔
تحریک انصاف کے حامی آزاد ذہن رکھنے والے، پڑھے لکھے باشعور لوگ ہیں۔ وہ
ہماری طرح چوروں، ڈاکوؤں کے ذہنی غلام نہیں۔ انہیں بھوکا رہنا منظور ہے مگر
کرپٹ لوگوں کا آزاد گھومنا قبول نہیں۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ اس
شرمناک آرڈننس پر اپنے سرٹیفائیڈ صادق و امین سے یہ سوال ضرور کریں گے جو
وہ زرداری اور نواز شریف سے کیا کرتے تھے۔
” یہ عوام سے وصول شدہ تین سو ارب تمہارے باپ کا پیسہ تھا، جسے بھول
جائیں؟” |