�داستانِ گلاب

پچھلی سات دہائیوں سے زائدکشمیری عالمی ضمیرکوجگانے کی کوشش کررہے ہیں بالخصوص پچھلے دوعشروں سے آزادی کی تحریک میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں نے اپنی جان کی قربانی دیکر آزادی حاصل کرنے کاعزم پوری آب وتاب سے جاری وساری رکھاہواہے۔بھارتی ظلم وستم اورجبری تسلط کے خلاف کچھ دیرکیلئے یہ تحریک مسلح جدوجہد کی صورت میں بھی جاری رہی لیکن اب تک بھارت نے کشمیرمیں ظلم وستم کاوہ بازارگرم کررکھاہے جس سے پوری مہذب دنیابھی آگاہ ہے لیکن اب تک کسی بھی عالمی ادارے کو بھارت کواس بہیمانہ ظلم وستم روکنے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔اگر کسی انسانی ہمدردی کے ادارے نے کشمیرکے معاملے میں کسی دلچسپی کااظہاربھی کیا تودنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کانعرہ لگانے والی بھارتی سرکارنے کشمیرتک رسائی دینے سے صاف انکارکردیالیکن اس کے باوجود کشمیر میں ہونے والے ظلم وستم کی داستانیں اکثرعالمی ضمیرکوجھنجھوڑتی رہتی ہیں۔

8برس قبل بعض مشروط پابندیوں کے ساتھ بھارت نے یورپی یونین کے ایک وفدکوبھولے سے کشمیرجانے کی اجازت دیدی تو اس وفدنے محدودوقت اوربے شمارپابندیوں کے باوجودجو 70 صفحات پرمشتمل ایک چشم کشارپورٹ مرتب کی اس کا حاصل اک جملہ یہ بھی تھاکہ”کشمیردنیاکی خوبصورت ترین جیل ہے”۔ 18سے 24مئی2011ء کو ایمنسٹی انٹرنیشنل کے چار رکنی وفدنے بکرم جیت باتراکی سربراہی میں وادی کے سیاسی،غیرسیاسی اورسول سوسائٹی کے کئی افراد سے ملاقاتیں کرنے کے علاوہ کئی دوسرے آزادذرائع سے معلومات حاصل کیں۔اس رپورٹ کے باضابطۂ اجراء کیلئے ایمنسٹی کے اس وفدنے دوبارہ سرینگرکا دورہ کیااوراپنی پریس کانفرنس میں اس رپورٹ کوایک کتابی شکل میں کشمیری عوام اورذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے پیش کیا ۔

حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے لیڈروں جناب سیدعلی گیلانی،میرواعظ عمرفاروق کے علاوہ دیگر کشمیری لیڈروں شبیر احمد شاہ،لبریشن فرنٹ کے ملک یاسین اورنعیم خان نے اس رپورٹ کازبردست خیرمقدم کرتے ہوئے عالمی برادری کواس کا نوٹس لینے کی اپیل بھی کی۔اس رپورٹ کے حقائق کوکشمیرکے وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ بھی جھٹلا نے کی ہمت نہ کرسکے اورکچھ تحفظات کے ساتھ اس رپورٹ کی روشنی میں کچھ اصلاحی اقدامات اٹھانے اوراس کوردی کی ٹوکری میں نہ پھینکنے کاسیاسی وعدہ کئے بغیرنہ رہ سکے لیکن ”وہ وعدہ ہی کیاجووفاہوگیا”کے مصداق اب تک اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی جبکہ اس رپورٹ کے بعددرجن سے زائدرپورٹس بھی منظرعام پرآچکی ہیں۔

اس 70صفحات کی رپورٹ میں کشمیریوں کی حالِ زارکاجونوحہ بیان کیاگیااس میں سرِفہرست”پبلک سیفٹی ایکٹ”جیسے ظالمانہ قانون کوہدفِ تنقیدبنایاگیاتھاجس کوخود بھارتی سپریم کورٹ کالاقانون قراردے چکی ہے۔اس رپورٹ میں بھارتی حکومت کے ساتھ عدلیہ کوبھی برابرکاقصورواراورشریک مجرم قراردیاگیا۔انہی ظالمانہ قوانین کی بناءپرحکومت عدلیہ کے کسی بھی فیصلے اورکسی بھی حکم کونہ صرف نظراندازکردیتی ہے بلکہ بعض معاملات میں عدلیہ کے فیصلوں کی کھلم کھلا دھجیاں اڑائی گئیں اورکئی مقدمات میں عدلیہ کوناکامی کاسامناکرناپڑا۔زمینی حقائق تویہ ہیں کہ سیکورٹی وانٹیلی جنس ادارے اورپولیس خودکو قانون سے بالاترسمجھتے ہوئےنہ صرف عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے بلکہ اب توان کے جاری مظالم کوروکنے والاکوئی ایساآہنی ہاتھ موجودہی نہیں جوان کو کشمیری عوام پرغیرقانونی ظلم وستم روارکھنے سے روک سکے۔

پبلک سیفٹی ایکٹ جوکہ بین الاقوامی قانون کی صریحاًخلاف ورزی ہے اورخود بھارت کی اعلیٰ عدالتیں بھی اس کوکالا قانون قراردے چکی ہیں لیکن اس کے باوجوداس قانون کاپہلے سے کہیں زیادہ بے ہنگم استعمال ہورہاہے۔دنیاکاکوئی قانون معصوم بچوں پرظلم وستم روارکھنے کی اجازت نہیں دیتالیکن کشمیرمیں ہزاروں نابالغ بچے اس کالے قانون کے تحت نظربندہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی کئی رپورٹس میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس کی تصدیق کررہی ہیں کہ اس کالے قانون کے نام پرلاقانونیت کابازارگرم ہے۔پہلی رپورٹ میں صرف2003ء سے لیکر2010ءتک کے ان مقدمات کا جائزہ لیاگیاجواس کالے قانون کے تحت درج کئے گئے۔اس تحقیق سے پتہ چلا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے ظالمانہ قانون کے تحت انسانی حقوق کی زبردست پامالی کی گئی اوراس عرصے میں اس وحشیانہ قانون کے تحت آٹھ ہزار سے زائدلوگوں کوقیدکیاگیاجبکہ صرف جنوری 2010ء سے لیکر31دسمبر2010ءکے آخرتک 322افرادکو گرفتار کرکے بے پناہ اذیتوں سے دوچارکیاگیا۔اس رپورٹ میں مزیدیہ انکشاف بھی کیاگیاکہ اس انسانیت سوزقانون کے تحت جن افرادکوگرفتارکیاگیا،انہیں نہ توفوری طورپرگرفتاری کی وجوہات سے آگاہ کیاگیااورنہ ہی ان کواپنی صفائی کیلئے کسی قانونی امدادکی سہولت فراہم کی گئی۔ایک طرف تو ریاست کے عسکری ادارے نے اس بات کا اعتراف کیاکہ اب وادی میں کوئی جنگجوسرگرم نہیں اوردوسری طرف دس لاکھ فوج کے علاوہ سیکورٹی اورانٹیلی ایجنسیوں اداروں کی بھرمارنے ہرکشمیری مردوزن اوربچوں کودنیاکی اس خوبصورت جیل میں ہراساں کرنے کاکام جاری رکھاہواہے۔اس قانون کے تحت جہاں آزادی پسندقیادت کی پہلی اوردوسری صف کے رہنماؤں کوجیل میں رکھ کران کی آوازکودبانے کیلئے استعمال کیاجارہاہے وہاں مجبورومقہوربوڑھے مردوزن اوربچے بھی اس قانون کی دسترس سے محفوظ نہیں۔اپنے بنیادی انسانی حقوق کامطالبہ کرنے والے مظاہرین کوبھی اسی غیرقانونی قانون کے تحت انتقام کانشانہ بنایاجارہا ہے ۔

رپورٹ میں دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادم بھرنے والی بھارتی سرکارکے چہرے سے یہ نقاب بھی اٹھایاگیاکہ کشمیرمیں حکومتی ادارے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتارافرادکوعدالت میں مجرم ثابت کرنے اورانہیں سزادلوانے کی بجائے ان بے گناہ افرادکوجیلوں میں بندرکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اوران مبینہ قوانین کے تحت متوازی ظالمانہ فوجداری نظام چلایاجارہاہے۔رپورٹ میں اس ظالمانہ قانون،انتظامی حراست کوفوری منسوخ کرنے،نظربندوں پرفوری باقاعدہ فردِجرم عائد کرنے،مجسٹریٹ کے سامنے فوری پیشی کویقینی بنانے،اسیروں کیلئے قانونی مشورے،طبی معائنے کی سہولت اورعزیزواقارب کے ساتھ رابطے میں سہولت کی فراہمی کویقینی بنانے کامطالبہ کیاگیا۔رپورٹ میں کئی اورسفارشات کوبھی شامل کیاگیاجس میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیاگیا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اقوام متحدہ کے خصوصی اداروں کی رسائی کویقینی بنایاجائے اورانسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس برائے ایذارسانی اورورکنگ گروپ برائے غیرقانونی گرفتاری کی سفارشات کابھی فوری جائزہ لیاجائے۔

دوسری طرف اب بھارت نے کشمیرمیں جہاں مزیددولاکھ فوج کااضافہ کردیاہے وہاں بھارتی فوجیوں کو کشمیری زبان سکھانے کاعمل محض اس لئے شروع کر دیاگیاکہ ڈوگرہ سرٹیفکیٹ کے تحت ان کوکشمیری شہریت دیکروادی میں آبادی کاتوازن تبدیل کرکے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کردیاجائے تاکہ وادی کومستقل طورپرمذہبی بنیادپرتقسیم کردیاجائے اورمستقبل میں اس تقسیم سے فائدہ اٹھاکرکشمیرکوقانونی طورپربھارت کاحصہ قراردینے میں کوئی مشکل باقی نہ رہےلیکن سازشی عناصر کبھی بھی اپنے اس پروگرام میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔کیاوہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ایک لاکھ جانوں کی قربانی کے بعد بھی کشمیریوں کے عزم میں ذرہ بھر کمی نہیں آئی وہ بھلا اس سازش کوکیسے کامیاب ہونے دیں گے۔یہی وجہ ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کے رہنما جناب سید علی گیلانی اوردیگر رہنماؤں نے ایسے کسی بھی منصوبے کی بھرپورمزاحمت کااعلان کیا ہے اوردنیابھرمیں بسنے والے کشمیریوں نے اظہارِ یکجہتی کیلئے اس غیرقانونی سازش کے خلاف سخت ردعمل کااعلان بھی کیاہے۔
منافقت کے نصاب پڑھ کرمحبتوں کی کتاب لکھنا
بہت کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پہ داستانِ گلاب لکھنا

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355882 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.