محرم کی وجہِ تسمیہ
علامہ ابن کثیرعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ شیخ علم الدین سخاویؒ نے اپنی
کتاب ’المشہور فی اسماء الایام والشہور‘میں ذکر کیا ہے کہ ’محرم کے مہینے
کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں‘ لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ
اس کی حرمت کی تاکید ہے۔ اس لیے کہ عرب زمانۂ جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے
تھے، کبھی حلال کر ڈالتے، کبھی حرام کر ڈالتے۔ اس کی جمع ’محرمات، محارم
اور محاریم‘ ہے۔(تفسیر ابن کثیر)
ماہِ محرم کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے ’محرم‘ کے ہیں۔(رواہ
مسلم، وابوداؤد، والترمذی )اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے محرم الحرام کی
نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمانا اس مہینے کے شرف اور خصوصی فضیلت پر دالّ
ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی مخلوق کی نسبت ہی اپنی طرف فرماتا
ہے۔(لطائف المعارف)اس حدیث سے پورے ماہِ محرم کی فضیلت ثابت ہوتی
ہے۔(الکوکب الدری)
اشہرِ حرم میں افضل ترین مہینہ
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد
ہے:{اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ
کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ مِنْہَا اَرْبَعَۃٌ
حُرُمٌ}یعنی اللہ کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں، جس روز سے اس نے
آسمانوں او رزمین کو پیدا کیا۔ اللہ کی کتاب میں سال کے بارہ مہینے لکھے
ہوئے ہیں، ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ (التوبہ)علماء کا اس میں اختلاف
ہے کہ حرمت والے ان چار مہینوں میں سب سے افضل کون سا مہینہ ہے؟ چناں چہ
حضرت حسنؒ کی رائے ہے کہ حرمت والے مہینوں میں سب سے افضل اللہ کا مہینہ
’محرم الحرام‘ہے، اور متأخرین میں سے ایک جماعت نے اسے ہی راجح قرار دیا
ہے۔(لطائف المعارف )
ماہِ محرم کی فضیلت کی ایک وجہ
جہاں احادیث کے ذخیرے میں اس مبارک مہینے کی فضیلت میں دیگربہت سی روایات
وارد ہوئی ہیں، وہیں حضرت ابن عباسؓنے ’سورۂ فجر‘ میں آیت ’والفجر‘کے
متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ اس سے مراد ’ماہِ محرم الحرام کی پہلی تاریخ کی
فجر ہے، جس سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے‘۔ حضرت قتادہؒ سے بھی یہی منقول
ہے، گو اس میں بہت سے اقوال ہیں۔(الجامع الاحکام القرآن للقرطبی)
ماہِ محرم کے پہلے عشرے کی فضیلت
ہمارے اسلاف تین عشروں کی بہت عظمت ولحاظ کرتے تھے؛ (۱)رمضان المبارک کا
آخری عشرہ (۲)ا ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور (۳) محرم الحرام کا پہلا
عشرہ۔(لطائف المعارف:۸۱)
ماہِ محرم میں روزے کی فضیلت
حضرت نعمان بن سعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے
پوچھا کہ آپؓرمضان کے علاوہ مجھے کس مہینے میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے
ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اس کے متعلق ایک آدمی کو
رسول اللہﷺ سے سوال کرتے ہوئے سنا۔اس وقت میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔
اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے
میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم رمضان کے
بعد روزہ رکھنا چاہو تو محرم کے روزے رکھا کرو، کیوں کہ یہ اللہ کا مہینہ
ہے۔ اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی
تھی اور اسی دن دوسری قوم کی توبہ قبول کرے گا۔(ترمذی)ایک روایت میں ہے کہ
جس نے محرم الحرام کے مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھا، اس کو ہر ایک روزے کا
ثواب تیس دنوں کے روزوں کے ثواب کے بقدر دیا جائے گا۔(الترغیب والترہیب
للمنذری)
عاشوراء کے روزہ کی فضیلت واحکام
دسویں محرم کو عاشوراء کہتے ہیں۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے
ہیں، رسول اللہﷺ سے عاشوراء کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے
ارشاد فرمایا: عاشوراء کا روزہ، گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا
ہے۔(مسلم، ابو داؤد)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
جب آں حضرت ﷺ نے یومِ عاشوراء میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول ومعمول بنایا
اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے
رسول! اس دن کو تو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (گویا یہ ان
کا قومی ومذہبی شعار ہے) اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ
اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے، جس کے
بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ان
شاء اللہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھیں گے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آئندہ سال ماہِ محرم
آنے سے قبل ہی رسول اللہﷺ وفات پاگئے۔(صحیح مسلم، ابن ماجہ)
عاشوراء کا روزہ فقہا کے نزدیک
اسی لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ اور اس کے
ساتھ ایک دن پہلے یا بعد یعنی نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب
ہے، اور صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس لیے کہ اس میں
یہود کی مشابہت ہے۔(شامی)البتہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے ایک بات
لکھی ہے کہ ہمارے زمانہ میں چونکہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یومِ عاشوراء کا روزہ
نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس
لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں، لہٰذا فی زماننا رفعِ تشابہ
کے لیے نویں یا گیارہویں کے روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔ (معارف
الحدیث)
یہ بھی خیال رہے کہ ان روایات میں جن گناہوں کی معافی کا ارشاد اور وعدہ ہے
اس سے مراد صغائر ہیں، باقی کبیرہ گناہوں کی معافی کی بھی امید رکھنی
چاہیے، مگر ان احادیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے بھروسہ پر گناہ کرنے
لگے۔ گناہوں پر نادم ہو اور پاکباز رہنے کی کوشش کرتا رہے، تو یہ چیزیں
انشاء اللہ مددگار ثابت ہوںگی۔
عاشوراء کے دن اہل وعیال پر وسعت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو
شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر رزق میں وسعت کرے، اللہ سبحانہ
وتعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں برکت ووسعت فرمائیں گے۔(الترغیب والترہیب
للمنذری) مطلب یہ ہے کہ اس دن میں جس کا نفقہ اپنے ذمّے ہے، ذرا وسعت کے
ساتھ ان کو یا اس کو جس کی کفالت میں وہ ہوں دے دیا جائے، واللہ اعلم۔
(نوادر الحدیث)
یومِ عاشوراء میں کیاکیا جائے؟
یومِ عاشوراء سے متعلق شریعت نے خاص دو چیزیں بتلائی ہیں: (۱) روزہ رکھنا
(۲) اہل وعیال پر کھانے پینے وغیرہ میں وسعت کرنا۔نیز مصیبت کے وقت استرجاع
کا حکم ہے، اور اس تاریخ میں ایک الم انگیز واقعہ جو حضرت حسین رضی اللہ
عنہ کی شہادت کا پیش آیا، اس کی یاد سے صدمہ ضرور ہوگا، لہٰذا انا للّٰہ
وانا الیہ راجعون پڑھتے رہیں، اس کے علاوہ اس دن کے لیے کوئی حکم نہیں دیا
گیا۔ (فتاویٰ رحیمیہ)
|