’’تمھیں غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو‘‘ قرآنی
بشارت کے استحقاق کیلئے ایمان پختہ کریں
مسلمان مایوس وادیوں سے نکل کر امید و یقیں کی شاہراہ حیات پر گامزن ہو کر
اسلامی زندگی گزاریں
اسلام نے مسلمانوں کو شریعت کی راہ چلنے کی تلقین کی۔ بلاشبہ کامیابی،
سربلندی، فتح ،بھلائی، شوکت، نجات، دُنیا کی فتوحات، آخرت کی کامرانیاں
شریعتِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم پر ثابت قدمی میں مستور ہیں۔ یقینِ کامل اور
ایمانِ راسخ ضروری ہے تا کہ انعاماتِ خسروانہ کا حصول ہو سکے۔
ایسے عظیم دین کی رسی مضبوطی سے تھامنے نے ہمارے اسلاف کو کامیابی کی عظیم
منزل پر فائز رکھا۔ ان کی تگ و دو سے مشرقین و مغربین میں اسلامی شوکت کے
علَم لہراتے تھے۔ ہماری فتوحات کے جھنڈے کئی براعظموں کی بلند چوٹیوں پر
نصب تھے؛ لیکن جب سے ہم نے فرسودہ تہذیبوں، باطل مذہبوں، مغربی تمدنوں کی
اسیری اختیار کی تباہی و بربادی کے دہانے پر جا پہنچے۔ ہم نے قرآن مقدس
جیسی عظیم کتاب کی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔ قرآن پاک کو دستور العمل بنا
لیتے تو آج کا عہدِ غلامی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ آج ہم قتل کیے جا رہے ہیں۔
تباہ کیے جا رہے ہیں۔ جیلوں میں ٹھوسے جا رہے ہیں۔برباد کیے جا رہے ہیں۔
نسل کشی کے شکار بنائے جا رہے ہیں۔ مقدمات میں پھنسائے جا رہے ہیں۔ ہماری
شریعت پر عمل سے ہمیں ہی روکا جا رہا ہے۔ خدائی قانون کے مقابل فرسودہ
قانون بنائے جا رہے ہیں۔ جن کی جبینیں پتھروں کے آگے جھکی ہوئی ہیں وہ ہمیں
معبودِ حقیقی کے قوانین سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ جنھیں شعورِ توحید نہیں وہ
ہمیں قانونِ خام کا درس دے رہے ہیں۔ قوانین الٰہی کی بالادستی ہے؛ جس پر
عمل سے ہمیں ہی روکنے کی سازشیں تیار کر لی گئی ہیں۔ ان حالات میں ہمیں
چاہیے کہ مایوسی سے قوم کو باہر نکالیں۔ عزم و یقیں کے چراغ فصیلِ ایمان پر
روشن کریں۔
مژدۂ جاں فزا سنایا جا رہا ہے۔ ایمان کے دل سے سُنیں قرآن نے کیسی بشارت
سُنائی۔ کیسی عظیم قوت و شوکت دے دی لیکن اس کے ساتھ ہی شرط رکھ دی کہ
ایمان پر استقامت اختیار کی جائے، بندۂ مومن بنا جائے:
وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o : تمھیں غالب آؤ
گے اگر ایمان رکھتے ہو ۔(القرآن الکریم؛ آل عمران:۱۳۹؛کنزالایمان)
درسِ عمل:
[۱] اپنے ایمان کو پختہ کریں تا کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات پاک پر ایسا یقین حاصل
ہو جائے کہ کفر کی تمام تر سازشیں ہم پر خوف و ہراس طاری نہ کر سکیں۔
[۲] مایوسی کو ہرگز جگہ نہ دیں اور فرامین الٰہی و ارشاداتِ رسالت پناہی
صلی اﷲ علیہ وسلم پر یقین کامل پیدا کریں۔
[۳] ہر صورت میں شریعت کے فیصلوں کو حرفِ آخر سمجھیں۔ ایسی سوچ پیدا ہو گئی
تو لادینی کورٹوں کے جنجال سے بھی ہم نجات پا لیں گے۔ پھر کوئی بھی خلافِ
شریعت قانون لایعنی اور فضول ہو کر رہ جائے گا۔ہزار قوانین بنا کریں ہم
قرآنی قوانین کی اتباع کریں گے تو کسی بھی قانون کے بننے سے ہمیں کوئی
نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
[۴] اپنے شرعی معاملات میں دین کے فیصلوں کو تسلیم کریں۔
[۵] علماے کرام کی اطاعت و پیروی کریں۔
[۶] قرآنی احکام کے مطابق معاملات کا تصفیہ کروائیں۔
[۷] ہر فیلڈ میں دین کے حکم کو مانیں، تسلیم کریں۔
بیدار ہوں:
ہمیں چاہیے کہ بیدار ہو جائیں۔ سازشوں سے باخبر ہو کر آنکھیں کھولیں۔ اپنے
دین کی طرف رجوع کریں۔ تمام مردہ تمدن و مغربی تہذیب سے منھ موڑیں تا کہ
دامن مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ملے۔ غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے والے باطل
ہاتھ کم زور ہوجائیں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے قرآنی حکم کی روشنی میں
جو دعا فرمائی اسے پڑھیں اور دل و دماغ میں بسا لیں:
’’ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا
بِاَنْفُسِھِمْ [القرآن الکریم؛ الرعد:۱۱] ’’بے شک اﷲ کسی قوم کو گردش میں
نہیں ڈالتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدل ڈالیں‘‘
اﷲ اکرم الاکرمین اپنے حبیب کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے طفیل سے ہماری
اور ہمارے اسلامی بھائیوں کی آنکھیں کھولے۔ اصلاح قلوب و احوال فرمائے
خطاؤں سے درگزر کرے۔ غیب سے اپنی مدد اتارے۔ اسلام و مسلمین کو غلبۂ قاہرہ
دے۔‘‘[تدبیر فلاح و نجات و اصلاح،ص۹]
آمین بجاہ سیدالمرسلین علیہ التحیۃ والتسلیم۔
٭٭٭
|