صدر ایوب خان نے یکم نومبر 1958ءکو کشمیر کے بارے میں کہا
تھا کہ اُنکو مسرت حاصل ہو گی اگر یہ مسئلہ امن کے اصول کے تحت حل ہو جائے
، لیکن اگر کسی بھی قسم کی فوجی کاروائی کو درمیان میںحائل کیا گیا تو اسکا
ذمہ دار بھارت ہو گا۔ صدر ایوب خان نے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کے ساتھ
گزشتہ 11سالہ مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کیلئے اپنی خارجہ
پالیسی کے دروازے کُھلے رکھے تھے۔
صدر ایوب خان کی خواہش تھی کہ بھارت کے ساتھ مِل بیٹھ کر کشمیر کا مسئلہ
بھی حل کر لیا جائے تو بہتر ہے لیکن اس معاملے پروزیر ِاعظم پنڈت نہرو پیش
رفت ہی نہیں ہونے دیتے تھے۔ حالانکہ صدر ایوب خان نے یہاں تک کہہ دیا تھا
کہ کشمیر کا مسئلہ تو کشمیری عوام کیلئے زندگی موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس
دوران 1962ءمیں پاکستان کو بھارت کی طرف سے جارحانہ کاروائی کا خدشہ بھی
پیدا ہو گیا لیکن پھر جلد ہی حالات ٹھیک ہو گئے۔
1964ءمیں ہندوستان کے وزیر ِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا دھیانت ہو گیا تو
اُنکی جگہ بھارت کے نئے وزیر ِ اعظم لال بہادُر شاستری بنے۔ اکتوبر
1964ءمیں کراچی میں صدر ایوب خان کی اُن سے ملاقات ہوئی، ماحول تو خوشگوار
رہا لیکن پنڈت نہرو کے مقابلے میں لال بہادُر شاستری سے متاثر نہ ہوئے بلکہ
اس ملاقات کے بعد صدرایوب خان اکثر و اوقات کہا کرتے اس بالشت ڈیرھ بالشت
کے آدمی کے ساتھ سنجیدہ گفتگو کرنا بیکار ہے۔ لیکن لال بہادُر شاستری کی
شاید دِلی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کو نیچا دِکھائے کیونکہ اُنھوں نے کشمیر
کی بجائے رن آف کَچھ کا تنازعہ جو پاکستا ن اور بھارت کے درمیان تقریباً
قیام ِ پاکستان کے وقت سے چلا آ رہا تھا اچانک اُٹھا دیا اور پاکستان پر
الزام تراشی شروع کر دی کہ کَچھ کو آڑ بنا کر پاکستان گجرات میں زیر ِ زمین
تیل کے کچھ علاقوں کو ہضم کرنا چاہتا ہے۔
لہذا پاکستا نی اور بھارتی فوجوں کے درمیان رن آف کَچھ کے علاقے میں جھڑپیں
شروع ہو گئیں ۔ ان حالات میں برطانیہ نے ثالثی اختیار کر کے 350مربع میل کا
علاقہ پاکستان کے حوالے کر دینے کا فیصلہ دے دیا۔ اس پر بھارت کی عوام نے
اپنے وزیز ِ اعظم پر کڑی نکتہ چینی کی۔ اس دوران کشمیر کا مسئلہ بھی نازک
صورت اختیار کر گیا کیونکہ ایک طرف تو کشمیر کے رہنماءشیخ عبداللہ جن کو کہ
بے دبے لفظوں میں کشمیر پر پاکستان کے موقف کی تائید کی وجہ سے گرفتار کر
لیا گیا اور اُنہی دِنوں کشمیری مجاہدین اور حُریت پسندوں نے گوریلا حملے
شروع کر دیئے اور روز بروز فتح سے ہمکنار ہوتے رہے۔ بھارت کی حکومت نے
الزام لگایا کہ یہ گوریلا حملہ آور اصل میں پاکستانی فوجی ہیں۔
بھارت نے اس کے بعدپاکستان کے خلاف شدید پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ جنگی
تیاریاں بھی شروع کر دیں اور وزیر ِ اعظم لال بہادُر شاستری نے دونوں
علاقوں میں شکست کھانے کے بعد یہ اعلان کر دیا کہ بھارت کسی مناسب موقع پر
اپنی مرضی کا محاذ کھولے گا۔ صدر ایوب خان جو کہ بھارت سے جنگ کرنے کی
خواہش نہیں رکھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ بھارت سے مسائل کا حل پاکستان کے
مفاد کے مطابق ڈھونڈھنا ہے یکایک بھارت سے اُ لجھ پڑے تھے اور لال بہادُر
شاستری کے بیان پر اندرُون ِخانہ اُنھوں نے بھی تمام تیاری مکمل کر لی تھی۔
پھر وہ وقت آ گیا جب بھارت کے وزیر ِ اعظم نے اعلان ِ جنگ کیئے بغیر 6 ِ
ستمبر 1965ء کی علی الصبح کو لاہور پر تین اطراف سے حملہ کر کے واقعی اپنی
مرضی کا محاذ کھول دیا۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسکے مسلمان شہادت کی عظمت کو جانتے ہیں
لہذا بھارت کی طرف سے اس حملے کو پاکستان کے مسلمانوں نے بڑی حقارت کی نظر
سے دیکھا اور پوری قوم ایک سِیسہ پلائی دِیوار کی مانند دشمن کے سامنے ڈٹ
گئی۔ ملک میں فوری ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کر دیا گیا اور صدر ایوب
خان نے اپنے6ِ ستمبر 1965ءکے خطاب میں پاکستان کی عوام سے کہا کہ یہ ایک
امتحان کی گھڑی ہے ۔اُنھوں نے کہا کہ دس کروڑ پاکستانی شہریوں کی آزمائش کی
گھڑی آ پہنچی ہے۔ تیا ر ہو جاﺅ تیار ہو جاﺅ کاری ضربیں لگانے کیلئے،کیونکہ
جس بُلا نے تمھاری سرحدوں پر اپنا سایہ ڈالا ہے ۔اس کی تباہی یقینی ہے۔
بھارتی حُکمرانوں کا خیال تھا کہ ہم 72 گھنٹوں کے اندر اندر مغربی پاکستان
پر قبضہ کر لیں گے۔ لیکن عزیز بھٹی شہید جیسے جیالے فوجیوں نے اُنکی
اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔بلکہ لاہور کے محاذ پرذلت آمیز شکست کھانے کے بعد
بھارتی فضائیہ بھی جنگ میں جھونک دی گئی۔ جسکے بعد 7 ِستمبر 1965 ءکو
پاکستان ائیر فورس کے پائلٹوں نے اُنکی فضائیہ کے بھی دانت کھٹے کر
دیئے۔پاک فضائیہ نے دُشمن کے 31 طیارے مار گرائے۔
شاہین صفت ہوابازوں نے سرینگر ۔جام نگر اور مشرقی پاکستان کی سرحد کے آس
پاس بھارتی ہوائی اڈوں پر متعد دحملے کیئے۔اس کی وجہ سے بھارتی فضائیہ نے
پاکستان کے نہتے شہری آبادیوں پر بم گرائے اور اپنی روایتی بُزدلی کا
مظاہرہ کرتے ہوئےرراولپنڈی،کراچی ،ڈھاکہ اور دیگر اہم مقامات پر گولہ باری
کی۔بھارت نے جموں سیالکوٹ سیکٹر میں بھی اچانک بھر پور حملے کر کے تین نئے
محاذ کھولے ،لیکن یہاں بھی بھارتی فوج کو ناکامی ہوئی۔ دوسری طرف پاک بحریہ
نے بھی انتہائی جنگی مہارت کے ساتھ کراچی سے تقریباً دو سو میل دُور بھارتی
ساحل کے اندردوارکا کی قلعہ پر زبردست بمباری کر کے اُس نے صرف تباہ کر دیا
بلکہ دُشمن کے راڈر سسٹم اور دیگر فوجی تنصیبات کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس
دوران سری لنکا اور ایران نے پاکستان کی حمایت کا اعلان بھی کر دیا۔
اس جنگ میں لاہور سیکٹر ، چونڈہ سیکٹر ، کھیم کھرن سیکٹر ، راجستھان سیکٹر
اور دوَآرکا کی بندر گاہ پر شدید جنگ ہوئی اور ان سب محاذوں پر پاکستان کی
بری ، بحری و ہوائی افواج نے جس جرآت اور بہادری کے جوہر دِکھائے اُس سے نہ
ہی صرف پاکستان میں بلکہ ساری دُنیا میں سراہا گیا۔ چونکہ جنگ کے آغاز میں
ہی بھارت کو شکست سے دوچار ہونا پڑ گیا تھا لہذا بھارت کی حکومت نے جلد ہی
جنگ بندی کی کوششیں شروع کر دی تھیں اور پھر جلد ہی بڑی طاقتیں بھی جنگ بند
کروانے میں دِلچسپی لینے لگ پڑیں۔ چنانچہ20 ستمبر 1965ءکو سلامتی کونسل نے
فیصلہ کیا کہ 22 ِ ستمبر 1965ءکو بارہ بجے دوپہر تک دونوں ملک جنگ بند کر
دیں۔ صدر ایوب خان 22 ِ ستمبر کو ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کے ذریعے
جنگ بندی کا اعلان کر دیا ۔ بھارت نے بھی غیر مشروط جنگ بندی قبول کر لی۔
اس جنگ کے دوران پاکستان کے دوست ممالک حکومت ِ پاکستان کو کسی بھی مشکل
وقت میں اپنے ہر قسم کے تعاون کا یقین دِلواتے رہے۔
اس جنگ میں پاکستان نے بھارت کے1617 مربع میل کے رقبے پر قبضہ پر کیا جب کہ
بھارت نے پاکستان کے 447مربع میل کے رقبہ پر قبضہ کیا۔ مشرقی پیجاب کو
پندرہ کڑور روپے کا نقصان ہوا۔ بھارت کے 516ٹینک جبکہ پاکستان کے 35ٹینک
تباہ ہوئے۔ بھارت کے 7000 فوجی مارے گئے جبکہ پاکستان کے830 مجاہد شہید
ہوئے۔پاکستان نے بھارت کے تقریباً 1000 فوجی قید کر لیئے۔ بھارت نے پاکستان
کے717مجاہد قید کیئے۔ انڈین ایئر فورس کا پانچواں حصّہ یعنی115طیارے تباہ
ہوئے۔ پاکستان کے 431شہریوں نے شہادت پائی ۔ اسطرح چونکہ جنگ میں بنیادی
طور پر بھارت کو زیادہ نقصان ہوا لہذا دُنیا میں پاکستان کی فتح کو مانا
گیا۔
6 ِ ستمبر 1965ءکی جنگ میں جو ہمارے فوجی جوانوں اور عوام نے پیٹوں پر بم
باندھ کر اپنی جانیں قربان کی تھیں ،کیا وہ ایسا پاکستان چاہتے تھے؟ کیا وہ
پاکستان کا ایسا مستقبل دیکھ رہے تھے؟ آج کے عظیم دِن پوری قوم میں کیا ایک
بھی آنسو اُن قربانیوں کیلئے ہے؟یا آج کے دِ ن بھی صرف مادیت کی دوڑ میں
کسی بھی جائز و ناجائز ذرائع سے دولت کمانا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔برائے مہربانی پاکستان کا مستقبل مادیت پرستی کی بجائے
اخلاقیات کے اُن اصولوں پر قائم کرنے کی کوشش کیجئے جن اصولوں پر اس ملک کو
آزادی دلوانے کیلئے ہمارے اپنوں نے ہی بڑی بڑی قربانیا ں دی
تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان زندہ باد۔
|