مرلی منوہر جوشی: یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں ؟

کشمیر سےلے کر کنیا کماری اور آسام سے گجرات تک خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے جوشیلے سابق صدر مرلی منوہر جوشی نے اپنےایک بیان سے سب کو چونکا دیا ۔بڑے طویل عرصہ کے بعد ان کانام اخبارات کے پہلے صفحہ کی زینت بنا ۔ کانگریس کے بیباک رہنما اور سابق مرکزی وزیر ایس جئے پال ریڈی کا 28 جولائی کو حیدر آباد میں انتقال ہوگیا ۔ ان کی تعزیتی نشست میں سابق وزیراعظم منموہن سنگھ، نائب صدر وینکیا نائڈو، سی پی ایم رہنما سیتا رام یچوری، ڈی راجا،کانگریسی رہنما ابھیشیک منو سنگھوی اور مرلی منوہر جوشی کے ساتھ کئی پارٹیوں کے رہنما شریک ہوئے ۔ اس موقع پر 1990 کی دہائی میں ریڈی کے ساتھ اپنے تعلقات کو یاد کرتے ہوئے جوشی نے کہا ،‘وہ (ریڈی)آخری وقت تک دلیری کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے،انھوں نے ہر سطح پر، ہر فورم پر اپنی رائے رکھی چاہے اس کےارکان جنتا پارٹی کے ہوں یا کانگریس کے پارٹی کے ممبر ہوں۔ انھوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

عصرِ حاضر میں اس نصیحت کی اہمیت اس لیے بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ فی الحال موقع پرستی اور ابن الوقتی بام عروج پر ہے ۔ ارکان پارلیمان و اسمبلی بھیڑ بکریوں کی مانند خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔ شاہ جی نے دھن دولت کی مدد سے سیاست کے مرگھٹ پر اصول و نظریہ کو بھینٹ چڑھادیا ہے اور من کی بات کے بجائے چہار سو دھن کا شور بپا ہے ۔مرلی منوہر جوشی نے یادِ رفتگان میں سے اندر کمار گجرال کے دورِ اقتدار کے ایک واقعہ کا ذکر تے ہوئے بتایا کہ وہ دونوں ایوان پارلیمان کی ‘دانشورانہ املاک کے حقوق ’ پر کام کرنےوالے پینل کے ارکان تھے۔ آخر وقت تک جئے پال ریڈی نے اس مسئلہ پر بلا مصالحت اپنا موقف پیش کیا ۔ حکومت کے اندر وزیر ہوتے ہوئے بھی جئے پال ریڈی نے وزیراعظم کے سامنے بنا کسی ہچکچاہٹ کے واضح ا لفاظ میں کہا کہ وہ فورم کی تجاویز سے متفق نہیں ہیں۔ اس کے بعد مرلی منوہر جوشی نے کہا ،‘میں ایسا سمجھتا ہوں ہوں کہ آج کل ایسی قیادت کی بہت ضرورت ہے جو اصولوں پر بے باکی کے ساتھ اور بنا اس بات کی فکر کیے ہوئے کہ وزیر اعظم ناراض ہوں گے یا خوش ہوں گے،اپنی بات صاف صاف کہتے ہیں، ان سے بحث کرتے ہیں’۔کبر سنی میں انسان ماضی کا اسیر ہوجاتا ہے ۔ مرلی منوہر جوشی نے جس زمانے کو یاد کیا ہے وہ چلا گیا اور اس کا لوٹ کر آنا مشکل ہے۔ مودی یگ میں تو سوال پوچھنے والا اپنا آدمی بھی قابلِ گردن زدنی ہے۔بڑےدنوں کے بعد سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کا نام ذرائع ابلاغ میں اس وقت آیا جب اچانک انہیں اسپتال میں داخل کردیا گیا۔

مرلی منوہر جوشی اپنا غم غلط کرنے کے لیے ٹکٹ کٹنے کے بعد جب اپنے دوست ایل کے اڈوانی کی قیامگاہ پر ملاقات کے لیے پہنچےتو اس سے ایک دن قبل گئے بھیشم پتامہ اڈوانی نے اپنے بلاگ میں لکھا تھا کہ ان کی پارٹی نے کبھی بھی سیاسی اختلاف کرنے والوں کو قوم مخالف نہیں کہا ۔ یہ ایک ذومعنیٰ جملہ ہے جس میں داخلی و خارجی دونوں قسم کے مخالفین کی جانب اشارہ ہے ۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ بی جے پی کے اعلی قائدین بشمول وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امیت شاہ کا حزب اختلاف کو مسلسل قوم مخالف قرار دینا مناسب نہیں ہے لیکن اس میں یہ معنیٰ بھی پوشیدہ ہیں کہ پارٹی کے اندرغیر ہم خیال افراد کو ٹکٹ سے محروم کرکے حاشیہ پر کھڑا کردینا بھی بی جے پی کی قدیم روایت کے خلاف ہے۔ لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو یہ سمجھنے میں بہت دیر لگی کہ اب یہ جماعت کسی اصول و ضابطہ یا نظریہ وروایات کی پاسدار نہیں ہے۔ بی جے پی کے اندر جو کچھ مودی کہہ دیتے ہیں وہ پتھر کی لکیر ہوجاتا ہے ۔ اندرا کانگریس کی طرح بی جے پی بھی مو جی پی (مودی جنتا پارٹی) میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس سال بی جے پی کے یوم تاسیس ۶ اپریل کو اڈوانی جی کے قلم سے نکلنے والا بلاگ دراصل بجھنے سے قبل چراغ کی آخری پھڑ پھڑاہٹ تھی۔ خود احتسابی کی جانب توجہ مرکوز کراتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ ‘‘یہ ہم سبھی کے لئے پیچھے، آگے اور اپنے اندر دیکھنے کے لئے ایک اہم موقع ہے’’۔

معروف صحافی ارون شوری کہا کرتے تھے کہ فی الحال ڈھائی لوگ حکومت کررہے ہیں ۔ ان میں سے آدھا پرلوک سدھار گیا ۔ اب تو یہ حالت ہے کہ بی جے پی والے اگر اڈوانی مشورے پر عمل کریں تو انہیں آگے پیچھے اور اندر باہر ہر جگہ مودی ہی مودی نظر آئے گا ۔ اسی لیے تو یہ نعرہ گھڑا گیا ہے ‘ہر ہر مودی گھر گھر مودی’۔ وہ دن لد گئے جن کے بارے میں اڈوانی جی تو نے لکھا تھا کہ‘‘بی جے پی نے ان لوگوں کوبھی اپنا ‘دشمن ‘نہیں مانا، جو سیاسی طور پر غیرمتفق ہیں۔ یہاں تک کہ راشٹرواد (قومیت) کے ہمارے نظریے سے بھی جو لوگ سیاسی طور پرعدم اتفاق رکھتے تھے، ان کو کبھی اینٹی نیشنل نہیں مانا گیا’’۔ آج کل مودی کے خلاف زبان کھولنے والے ہر شخص کو قوم دشمن بلکہ قوم کا غدار بنا کر پاکستان بھیجنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے ایک طرف کشمیر میں لاکھوں لوگوں کو یرغمال بنا کر ان کے بنیادی حقوق سلب کرلیے گئے ہیں اور اس کے خلاف لب کشائی کرنے والوں کو پاکستان نواز قوم دشمن قرار دیا جارہا ہے۔ اس الزام کا ڈر اور بی جے پی کے آلۂ کار بن جانے کے اندیشے نے مسلمانوں سمیت ملک کے کروڈوں انصاف پسند لوگوں کو صدائے احتجاج بلند کرنے سے روک رکھا ہے ۔

اڈوانی جی نے مذکورہ بلاگ میں اداروں کی سالمیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ‘‘ملک اور پارٹی کے دونوں کے اندر، جمہوریت اور جمہوری‎ روایتوں کی حفاظت، بی جے پی کے لئے فخر کی بات رہی ہے۔ اس لئے، بی جے پی ہمیشہ میڈیا سمیت تمام جمہوری‎ اداروں کی آزادی، سالمیت، غیر جانبداری اور مضبوطی کا مطالبہ کرنے میں سب سے آگے رہی ہے’’۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب بی جے پی اقتدار سے محروم ہونے کے سبب ان کا بیجا استعمال کرنے کی حالت میں نہیں تھی ۔ اس کو ان اداروں کے ذریعہ عتاب کا خوف تھا اور میڈیا کے ذریعہ وہ اپنا احتجاج درج کراتی تھی لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے ۔ مودی جی نے میڈیا کو اپنی زر خرید لونڈی بنا رکھا ہے ۔ وہ سی بی آئی سے لے کر آر بی آئی تک اورای ڈی بلکہ ای سی تک تمام اداروں کو اپنے مخالفین کو خوفزدہ کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کررہے ہیں ۔ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران جس حزب اختلاف کو ‘ہندوستان مخالف ‘اور ‘قوم دشمن ‘ قرار دے کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا تھا ان میں خود اڈوانی بھی شامل تھے۔ اس وقت بھی اڈوانی جی نے اسی طرح کے مضامین اور مکتوب لکھتے تھے جیسا کہ امسال اپریل میں قلمبند کیا تھا ۔

اپنی پہلی مدت کار میں مودی سرکار نے بلا اعلان ایمرجنسی تو نافذ کردی مگر ابتداء میں پکڑ دھکڑ سے گریز کیا لیکن اواخر میں اربن نکسلائیٹ کا مضحکہ خیز الزام لگا کر وہ حربہ بھی استعمال کیا۔ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اب تو آئے دن مخالفین پر چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔ عوام کے ساتھ ساتھ خواص کو بھی دہشت زدہ کیا جارہا ہے۔ اس سے نہ صرف دیگر جماعتیں بلکہ بی جے پی والے بھی گھبرائے ہوئے ہیں۔ اڈوانی اور جوشی کے اندر خوف و دہشت کا یہ عالم ہے کہ اپنی مذکورہ ملاقات کے بعد وہ ذرائع ابلاغ میں لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکے تھے ۔ خاموشی کے ساتھ اور مودی سرکارکا جبر و استبداد سہہ جانے والے مرلی منوہر جوشی کا جئے پال ریڈی کی تعزیتی نشست میں اچانک جوش آ کر کھری کھری سنا دینا حیرت انگیز عمل ہے ۔ شاید انہوں نے اپنے دیرینہ دوست کی تعزیت کے دوران جذباتی ہوکر اپنے من کی بات کہہ دی ہو یا ممکن ہے وہ مایوسی کی اس انتہا پر پہنچ گئے ہوں جہاں گنوانے کے لیےکچھ نہیں ہو تااور انسان بلاجھجک اپنا مافی الضمیر بیان کردیتا ہے ۔ وجوہات سے قطع نظر اس دستور زباں بندی کا ٹوٹناخوش آئندہ ہے ورنہ بقول شاعر؎
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220935 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.