مسولینی اور عمران خان انجام بخیر یا اللہ

عمران خان کی تبدیلی سرکارکہنے کو تو پی ٹی آئی کی حکومت ہے مگر اس بات سے انکار عمران خان بھی نہیں کر سکتے ہیں کہ ابھی تک زیادہ اثر و رسوخ اقتدار دینے والوں کا ہے ۔ حکومت میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جن کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ آخر وہ عمران خان کی کرسی اقتدار کا سہارا بنے ہیں ایک دوسال اقتدار میں رہنا ان کا حق بنتا ہے ۔ سیاست الیکشن لڑنے اور جیتنے کا نام نہیں ہے ۔ سیاست وژن، نظریات،نظام اور گورنیس کا نام ہے ۔ ریاستیں ،ملک اور معاشرے وژن،نظریہ ، بہترنظام اور گورینس سے ترقی کرتے ہیں ۔ ہوس اقتدار میں کسی نظریے،وژن اور نظام کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔ عمران خان کی حصول اقتدار کی جدوجہد اور ایک سالہ حکومتی کارکردگی کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کے اندر محض ہوس اقتدار تھی اور ہے ۔ عمران خان کی ہوس اقتدار اور اٹلی کے مسولینی کی ہوس اقتدار کا موازنہ کیا جائے تو حیرت انگیز مماثلت نظر آتی ہے ۔ مسولینی اٹلی کے مطلق العنان حکمران تھے جو 1922سے لیکر1943تک آمرانہ حکومت کرتے رہے ۔ اٹلی کی عوام کے مقبول ترین رہنما کا انجام انتہائی بھیانک ہوا ۔ 1945 میں اٹلی کی عوام کے ہاتھوں مارے گئے ۔ مسولینی کارل مارکس سے بے حد متاثر تھا اور ٹریڈیونین سیاست سے وابستہ رہا اور شوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں بھی شریک رہا مگر جب مسولینی میں ہوس اقتدار نے انگڑائی لی تو وہ سب نظریے بھول کر صرف اقتدار کے حصول پر کمربستہ ہوگیا ۔ یہی نہیں بلکہ شوشلسٹ پارٹی سمیت دیگر سیاسی قوتوں کےخلاف محاذ کھول لیا ۔ مسولینی نے ایک سخت گیر موقف رکھنے والی جماعت فاشسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی ۔ جس کا نشان بھی تشدد اور سخت گیری کی علامت تاروں کے گچھے میں کلہاڑی تھا ۔ مسولینی کی فاشسٹ پارٹی نے سیاست ،اخلاقیات ،نظریات کو بلائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی مخالفین کےخلاف مہم جوئی شروع کردی ۔ اٹلی کے طاقتور طبقات اور فوج نے بھی مسولینی کو پورے مواقع فراہم کیے کہ وہ سیاسی مخالفین کو کچل دے ۔ آخر کار مسولینی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ اقتدار میں آکر مسولینی نے آمرانہ طرزحکومت اختیار کرلیا اور سیاسی قوقوں کا جینا حرام کردیا ۔ عمران خان کی سیاست کا باریک بینی سے جائزہ نہ بھی لیا جائے توصاف نظر آتا ہے کہ موصوف مسولینی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں ۔ پہلی بات کہ جماعت کی بنیاد کسی نظریہ،فکر،نظام پر نہیں رکھی بلکہ یک نکاتی ایجنڈا اقتدار کاحصول رکھا گیا ۔ پی ٹی آئی میں فاشزم کو فروغ دیا گیاکہ مخالفین کو ناکوں چنے چبا دو ۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کو ٹارگٹ کرکے سیاسی دشمنی بنالی گئی ۔ بلے کا نشان مارکٹائی کی علامت کے طور پر ابھارا گیا ۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بلیک شرٹ کا روپ تو نہیں بھرا مگر یوتھیا کے نام سے عام عوام میں ضرور مشہور ہیں ۔ جماعتی فیصلے خود کیے جاتے ہیں ۔ عمران خان اعلانیہ کہتے ہیں کہ جو اسے اچھا لگتا ہے وہی کرتا ہے ۔ پی ٹی آئی میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ہمارے سوا سب کرپٹ اور بدعنوان ہیں ۔ مسولینی کی طرح الیکشن جیتنے کےلئے ان لوگوں کو بھی پارٹی ٹکٹ دیا گیا جو پارٹی کے بنیادی رکن بھی نہیں تھے ۔ دوسری پارٹیوں سے بندے توڑکر پی ٹی آئی میں شامل کیے گئے ۔ طبقہ اشرافیہ سمیت فوج نے بھی پی ٹی آئی کی بھرپور حمایت جاری رکھی اور اقتدار جیسے تیسے عمران خان کی جھولی میں ڈال دیا گیا ۔ اقتدار ملنے کے بعد مسولینی کی طرح عمران خان نے بھی خواہش ظاہر کی پارلیمانی نظام کی بجائے صداراتی نظام لایا جائے اور اسے مکمل اختیارات دیئے جائیں ۔ عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی مسولینی کی طرح سیاسی مخالفین کو دبانا شروع کردیا اور مقدمات بنا کر جیلوں میں بند کردیاہے ۔ حصول اقتدار کےلئے عمران خان نے بھی کئی رنگ بدلے خود کومذہبی ظاہر کرنے کے لئے اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا نعرہ لگایا پھر ریاست مدنیہ اورکئی مذہبی نعر ے بلند کیے ۔ ننگے پیر مدنیہ کی سرزمین پر اترے ۔ پاکپتن جاکر دربار پر متھا بھی ٹیکا کہ لوگ اسے مذہب پرست کے طور قبول کرلیں ۔ عمرہ کیا اور نماز پڑھتے ہوئے تصویر بھی میڈیا کو دی گئی تھی ۔ مسولینی نے بھی خود کو مذہب پرست ثابت کرنے کےلئے کئی ڈرامے کئے تھے ۔ سب خرافات کے باوجود مسولینی نے عوام سے مل کر جنگ عظیم میں تباہ حال اٹلی کی تعمیر نو کی اور ملک کو ترقی کی طرف لیجانے میں کامیاب ہوا ۔ عمران خان کیا کرتا ہے ۔ آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا ۔ دعا ہے کہ عمران خان کا انجام مسولینی جیسا نہ ہو ۔

Arshad Sulahri
About the Author: Arshad Sulahri Read More Articles by Arshad Sulahri: 139 Articles with 92456 views I am Human Rights Activist ,writer,Journalist , columnist ,unionist ,Songwriter .Author .. View More