ملکی معیشت کاحقیقی منظر نامہ۔۔
ا سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ملکی معیشت پر پڑے قرضوں کے بوجھ کے
حوالے سے حال ہی میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک کے مجموعی قرضے اور
واجبات ملک کی معیشت کے مجموعی حجم سے بھی بڑھ چکے ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے مالی سال میں
پاکستان پر قرضوں اور واجبات کا بوجھ29.9ٹریلین روپے سے بڑھ کر 40.2ٹریلین
روپے تک پہنچ چکاہے یعنی صرف گذشتہ مالی سال میں قرضوں اور واجبات میں
10.3ٹریلین روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
حکومتی قرضے
حکومتی قرضے جنھیں پبلک ڈیٹ یا عوامی قرضے کہا جاتا اس میں اندرونی اور
بیرونی قرضے دونوں شامل ہوتے ہیں اور ان کو ادا کرنے کی ذمہ داری بلاواسطہ
حکومت کی ہوتی ہے۔ا سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعدادوشمار کے
مطابق اس وقت ملک کا مجموعی حکومتی قرضہ 31.8ٹریلین روپے ہے جس میں
34.5فیصد بیرونی قرضہ جو کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ممالک سے حاصل
کیا گیاہے جبکہ 65.5فیصد اندرونی قرضہ ہے جو کہ حکومت نے نجی بینکوں سے
حاصل کیا گیا ہے۔
واجبات
واجبات قرض کی وہ شکل ہوتی ہے جس کی ادائیگی کی ذمہ داری بلاواسطہ تو نہیں
مگر بالواسطہ حکومت کی ہی ہوتی ہے کیونکہ ان قرضوں کے حصول کے عوض ریاست
پاکستان کی جانب سے ضمانت دی جاتی ہے۔واجبات کو نجی قرضہ بھی کہا جاتا ہے
جو عوامی شعبے کے کاروباری ادارے جیسا کے پی آئی اے یا پاکستان سٹیل ملز
وغیر ہ ہیں ، اپنے ادارے کو چلانے کے لیے حاصل کرتے ہیں۔ ا سٹیٹ بینک کے
مطابق گذشتہ مالی سال میںان کا حجم 2.5ٹریلین روپے تھا۔ واجبات انہی اداروں
کو ادا کرنا ہو گا اور اس کے لیے بھی ڈالر کی ضرورت ہو گی جو ملکی معیشت سے
ہی نکلے گا اور اس کا اثر معیشت پر اتنا ہی پڑتا ہے جتنا حکومتی قرضے کا۔
قرضہ اور ملکی مجموعی پیداوار میں تناسب
کسی ملک پر قرض کے بوجھ کو ناپنے کے کئی پیمانے ہوتے ہیں جن میں قرض کا
مقروض ملک کی مجموعی پیداوار(ڈیٹ ٹو جی ڈی پی ریشو) یا ملک کے مجموعی
محصولات (ڈیٹ ٹو ریوینیو)یا پھر زرِمبادلہ کے ساتھ تناسب شامل ہیں(ڈیٹ ٹو
فارن ایکسچینج)یہ وہ مختلف پیمانے ہیںجس کے ذریعے کسی مقروض ملک پر قرضے کے
بوجھ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ صرف لفظ قرض معاشی
صورتحال اور قرضوں کے بوجھ کی مکمل طور پر عکاسی نہیں کر سکتا اس لیے اسے
مجموعی پیداوار، زرمبادلہ، یا محصولات کے تناظر میں دیکھا اور سمجھا جاتا
ہے۔اگر ملک کی مجموعی پیداوار یا جی ڈی پی کے تناسب سے دیکھا جائے تو قرضوں
اور واجبات کی یہ رقم پاکستان کے جی ڈی پی کے 104.3فیصد کے برابر جا کھڑی
ہوئی ہے۔
قرضوں کے بڑھتے بوجھ کی وجوہات
وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کی پاکستانی معیشت کے حوالے سے جو توقعات
تھیں درحقیقت وہ اتنی درست نہیں تھیں۔ انھیں حکومت سنبھالنے کے بعد پتا چلا
کہ حالات ان کی توقعات سے کہیں زیادہ خراب ہیںاور ان معاشی مشکلات سے نمٹنے
کے لیے متعلقہ محکموں میں جس نوعیت کے انسانی وسائل اور مہارتوں کی ضرورت
تھی موجودہ حکومت کو ان کی کمی کا بھی سامنا تھا اور اس وجہ سے مشکلات میں
کمی کے بجائے اضافہ ہوا۔
موجودہ معاشی صورتحال کی سب سے بڑی وجہ حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس جانا
تھا۔اس نہج تک پہنچانے میں جتنی حکومت ذمہ دار ہے اتنا ہی ذمہ دار آئی ایم
ایف ہے۔
آئی ایم ایف کے کہنے پر روپے کی قدر کو بہت زیادہ گرایا، ڈسکانٹ ریٹ اور
شرحِ سود میں اضافہ کیا گیا۔
صرف روپے کی قدر کو گرانے اور ڈسکانٹ ریٹ میں اضافے سے ملک کے مجموعی قرض
میں 4400 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
حکومتی اخراجات اور آمدن میں عدم توازن اس صورتحال کی چند بڑی وجوہات میں
سے ایک ہے۔حکومت کے پہلے سال میں حکومتی اخراجات میں مجموعی طور پر 20فیصد
اضافہ ہوا ہے جبکہ محصولات میں چھ فیصد کمی ہوئی ۔
گذشتہ مالی سال میںشرح سود میں ہونے والے لگ بھگ 7.5فیصد اضافے کی وجہ سے
مجموعی قرضوں میں تقریبا 724ارب روپے کا مزید اضافہ ہوا ۔
پاکستان پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
اب اتنے بے تحاشہ قرضے اتارنے کے لیے پاکستان کو مزید قرضے لینے پڑیں گے
اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا جسے معاشی اصطلاح میں 'ڈیٹ ٹریپ' یا قرضوں کی
دلدل میں دھنس جانا کہتے ہیں اور ایسی صورتحال میں پرانا قرض اتارنے کے لیے
نئے قرض لیے جاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان کی آمدن کا ایک بڑا
حصہ قرض کی رقم پر ادا کیے جانے والے سود کی مد میں جائے گا۔ اور ایسا ہونے
کی صورت میں معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے درکار رقم سے کٹوتیاں کی جاتی
ہیں اور یہ صورتحال نہ صرف بیروزگاری کو جنم دے گی بلکہ غربت میں اضافے کا
باعث بنے گی۔ |