کاش۔۔اک آزادی مارچ کشمیر کے لئے ہوتا

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو 41 روز ہو گئے ہیں،بھارتی حکام نے گذشتہ 40 روز میں دس ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جن میں سابق وزرا اعلی سمیت 200 سے زائد سیاستدان شامل ہیں .بھارتی فوج نے 3 ہزار سے زائد کشمیریوں کو سنگ بازی کے الزام میں گرفتار کیا، ڈیڑھ سو سے زائد کشمیریوں کو عسکریت پسندوں سے تعلق کے الزام پر گرفتار کیا گیا ہے۔لاکھوں لوگوں کو ادویات اور اشیائے خوراک تک رسائی نہیں جب کہ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز مسلسل بند ہیں، اس کے علاوہ سکیورٹی فورسز اور مقامی کشمیریوں کے درمیان جھڑپیں معمول بن چکی ہیں. تعلیمی ادارے تا حال بند ہیں، سرچ آپریشن کے دوران بھارتی فوج کشمیری خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بناتی ہے، کشمیر میں چھ ہفتے گزر گئے کشمیریوں کو نماز جمعہ مسجد میں ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کرفیو پر پوری دنیا میں آواز اٹھائی جا رہی ہے، پاکستان بھی اس میں بھر پور کردار ادا کر رہاہے، گزشتہ جمعہ کو وزیراعظم عمران خان نے مظفرآباد میں جلسہ سے خطاب کیا، اس سے پچھلے جمعہ کو وزیراعظم نے لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا، پاکستان کا یوم آزادی یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا،پاکستان کا بچہ بچہ کشمیریوں کے حق کے لئے گھر سے باہر نکلا،لیکن۔۔۔دوسری جانب کشمیر کمیٹی کے سابق چیئرمین مولانا فضل الرحمان کشمیر ایشو کو چھوڑ کر حکومت کے خلاف دھرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگر ہمیں اسلام آباد جانے سے روکا گیا تو پورا ملک جام کر دیں گے،مولانا فضل الرحمان نے ملتان میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 18 ستمبر کو جمعیت کے اجلاس میں اسلام آباد مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا جائیگا، ہماری خواہش ہے کہ سیاسی قائدین ہمارے اسٹیج پر موجود ہوں ،
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے ماہ رمضان میں اپوزیشن جماعتوں کو افطار پارٹی پر دعوت دی تھی، جس میں اپوزیشن کے رہنماوں نے بشمول مریم نواز نے شرکت کی تھی، اس افطار پارٹی میں فیصلہ ہوا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں اے پی سی ہو گی اور حکومت کے خلاف تحریک کا فیصلہ ہوگا،رمضان کے بعد عید آئی، عید کے بعد اے پی سی ہوئی جس میں حکومت کے خلاف احتجاج کا فیصلہ تو نہ ہوا البتہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کیا گیا، چیئرمین سینیٹ صادق سجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں لائی گئی لیکن اپوزیشن جماعتوں کو اراکین کی اکثریت کے باوجود اس میں ناکامی ہوئی۔تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے پھر تحقیقات کے لیے کمیٹیاں بنائیں اور ایک اور اے پی سی بلانے کا فیصلہ کیا، اس اے پی سی میں بلاول زرداری، شہباز شریف نے شرکت نہیں کی جس کی وجہ سے اے پی سی میں کوئی خاص فیصلہ نہ ہو سکا،البتہ یہ فیصلہ ہوا کہ حکومت کیخلاف لانگ مارچ کیا جائے گا اور اسلام آباد کا گھیراؤ کیا جائے گا۔لانگ مارچ میں اپوزیشن جماعتیں مولانا کے سخت موقف کے باعث نہیں جانا چاہتی ، اگرچہ سب نے کہہ دیا تھا کہ شرکت کریں گے، آخری اے پی سی میں بلاول زراری کا شریک نہ ہونا مولانا فضل الرحمان کی تحریک سے راستے الگ کرنے کا پیغام تھا ،چند روز قبل بلاول زرداری نے جامشورو میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کو واضح پیغام دے دیا کہ مولانا کا اور ہمارا بیانیہ ایک ہے لیکن مولانا اسلام آباد میں دھرنادینے جائیں گے اور میں ملک بھر میں جلسے کروں گا ۔مسلم لیگ ن بھی مولانا کے آزادی مارچ سے کنارہ کشی کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے، اگرچہ نواز شریف نے مولانا کو پیغام بھجوایا تھا کہ ان کی جماعت مارچ میں شریک ہو گی لیکن پارٹی اراکین کی مخالفت کے بعد نواز شریف اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوئے، اب گزشتہ جمعرات کو نواز شریف نے کہا کہ مولانا کے مارچ میں شرکت کے لئے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے۔

مولانا فضل الرحمان نے اسلام آبا دکی جانب لانگ مارچ کا اعلان تو کر دیا لیکن اب وہ بند گلی میں پھنس چکے ہیں، سیاسی جماعتیں مولانا کے لانگ مارچ سے الگ ہو رہی ہیں، مولانا متحرک ہو چکے ہیں کہ کسی طرح لانگ مارچ کامیاب ہو لیکن یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ آزادی مارچ میں مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں کتنا دم ہو گا، مولانا آزادی مارچ سے نتائج حاصل کر لیں گے یا پھر پرانی تنخواہ پر کام کریں گے.مولانا فضل الرحمان کے لانگ مارچ کے حوالہ سے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کہہ چکے ہیں کہ فضل الرحمان نیاسلام آباد کی طرف پیش قدمی کی تو لوگ انھیں خود روک لیں گے ، وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جو قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کریں گے ان کو سہولیات دی جائیں گے ، کیٹینر اور پانی بھی فراہم کریں گے لیکن اگر قانون ہاتھ میں لیا گیا تو روکیں گے۔اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا فیصلہ تو ہوا لیکن اب اپوزیشن جماعتیں مولانا کا ساتھ دینے کو تیار نظر نہیں آ رہی، اگر اپوزیشن جماعتوں نے ساتھ نہ بھی دیا تو مولانا فضل الرحمان اکیلے اپنے کارکنان کے ساتھ نکلیں گے اور یقینی طورپر تاریخی مارچ کریں گے، اس سے قبل مولانا فضل الرحمان ملک بھر میں ملین مارچ کر رہے ہیں، کراچی، سکھر لاہور سمیت مختلف شہروں میں ان کے پروگرام منعقد ہو چکے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد سے مولانا فضل الرحمن کی جانب سے کشمیر کے حوالہ سے کوئی مضبوط کردار دیکھنے میں نہیں آیا ہے حالانکہ وہ کشمیر کمیٹی کے متعدد مرتبہ چیئرمین رہ چکے ہیں اور ان کی وزارت پر کروڑوں روپے کے اخراجات آتے رہے ہیں، مولانا فضل الرحمان کو 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آں ے کے بعد کمشیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا جس کے 36 اراکین تھے، کمیٹی نے پیپلزپارٹی کے دور میں چالیس اجلاس بلائے اور کروڑوں روپے غیر ملکی دوروں پر خرچ کئے حالانکہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان دوروں میں کسی ترجمان کو بھی ساتھ لے کر نہیں جاتے تھے ، مولانا کو انگریزی نہیں آتی، انہوں نے غیر ملکی دوروں میں کشمیر کمیٹی کے نام پر سیر و تفریح کی۔2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا اور ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر کر دیا گیا، مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کیطور پر ایک وزیر کے برابر مراعات لیتے رہے.۔ مولانا نے 2013 سے 2016 تک کشمیر کمیٹی کے صرف تین اجلاس طلب کئے جن پر 18 کروڑ روپے خرچ آئے، مولانا فضل الرحمان کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہونے پر منسٹر انکلیو میں انہیں سرکاری گھر بھی ملا ،کروڑوں روپے کی مراعات اور خرچوں کے باوجود مولانا فضل الرحمان کی کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ اور کشمیر کے حوالہ سے اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2016 میں برہان مظفر وانی شہید کئے گئے تو مولانا فضل الرحمان اسوقت کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے، انہوں نے وانی کی شہادت کے ایک ہفتے بعد کشمیر کمیٹی کا اجلاس بلایا تھا ،پاکستانی قوم کی جانب سے برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں کی حمایت میں بھر پور یکجہتی کے پروگرام کئے گئے تھے لیکن مولانا کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ہونے کے باوجود ایک ہفتے بعد کشمیر یاد آیا۔مولانا فض الرحمان کے کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ سے حکومت کے علاوہ اپوزیشن و پاکستانی قوم مطمئن نہیں تھی، متعدد بار ان کو چیرمین شپ سے ہٹانے کا بھی مطالبہ سامنے آیا لیکن مولانا ڈٹے رہے، اب تحریک انصاف کی حکومت بننے اور مولانا فضل الرحمان کی الیکشن میں شکست کے بعد دس برس سے جاری چیئرمین شپ ان سے چھن گئی جس پر وہ سخت پریشان ہیں اور رات کو بھی خواب میں حکومت کے خلاف تو تحریک چلا رہے ہوتے ہیں لیکن کشمیریوں کے لئے ایک لفظ نہیں بول سکتے ۔مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا، کراچی، لاہور ،کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں جلسے کئے اور ہزاروں افراد کی شرکت کا دعویٰ کیا گیا ،اب پاکستانی قوم منتظر ہے کہ مولانا فضل الرحمان کشمیر کے مسئلہ پر کب اے پی سی بلا رہے ہیں، کب ملین مارچ کر رہے ہیں اور کب کشمیر کی حمایت کے لئے دھرنا دے رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر لوگوں کی طرف سے اس بات پر سخت تنقید کی جارہی ہے کہ وہ کشمیر کیلئے کچھ کر نہیں رہے، مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ اپوزیشن کے بغیر کامیاب ہوتا ہے یا ناکام ،یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن کشمیر کے حوالہ سے مولانا فضل الرحمان کا موجودہ کردار تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

 

Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 101 Articles with 72950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.