معیشت کی کشتی کو ساحل پر لانا ایک بڑا چیلنج ہے۔
حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو ملکی معیشت کا جہاز تاحال سمند ر کی طوفانی
موجوں کے گرداب میں ہچکولے کھا رہا ہے۔پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط کے
مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ٹیکس نا دہندگان کو 75 ارب روپے
ریفنڈ نہیں کر پائے گا۔ یہ ایک بد ترین صورتحال ہے جس کا سامنا اس وقت قومی
معیشت کو کرنا پڑ رہا ہے۔معاشی اعتبار سے وطن عزیز تاریخ کے مشکل ترین دور
سے گزر رہا ہے ، حکومت کو بجٹ خسارہ اور گردشی قرضے ورثے میں ملے ہیں
۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ سابقہ حکومتوں کی کرپشن اور بے دریغ قرضوں کے بوجھ
ہمارے اوپر تھوپے گئے ہیں جو حالیہ حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ہے لیکن یہ
بھی واضح ہے کہ جمہوری نظام میں سب سے پہلے ترقیاتی اور مستحکم کرنے والے
منصوبوں کو مکمل کر کے ان کا فائدہ عوام تک پہنچایا جائے۔ یہاں اس امر کی
وضاحت بھی ضروری ہے کہ کرپشن کے دیو اور احتساب کے جن کی لڑائی زور و شور
سے جاری ہے اور کئی دیو اس وقت پکڑ میں بھی ہیں تو پھر بھی حکومتی ادارے
کیوں ان سے کرپشن زدہ رقوم نکلوانے سے قاصر ہیں؟ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ
جب سے عمران خان کی جماعت مقتدر ہوئی ہے اس نے ان کیسوں کو ترجیح دینی کم
کر دی ہے اس کی ایک وجہ سوشل میڈیا پراپیگنڈا ہو سکتا ہے جو حکومتی جماعت
کی ساکھ کیلئے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے ، رہی سہی کسر عمران خان کے وزراء نے
نکالی ہوئی ہے۔ لیکن یوں اس طرح بددل ہو جانا کوئی حل نہیں بلکہ چیلنجز کا
مقابلہ ڈٹ کر کرنے سے حل نکل سکتاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کرپٹ مافیا اور سیاہ
ستدان اپنے کالے دھن کی حفاظت کیلئے ہر سطح تک گر سکتے ہیں اور غیر انسانی
کام کر سکتے ہیں لیکن انقلاب ہمیشہ ایسے فیصلوں سے ہی آیا کرتے ہیں۔جو لوگ
کبھی اپنی ذات کے ساتھ مخلص نہیں ہوئے اور کلمہ گو ہونے کے باوجود انہوں نے
کبھی آخرت کے بارے میں نہیں سوچا تو کیا وہ ملک کے ساتھ مخلص ہوسکتے ہیں؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی عالمی تنظیم جس کا کام پوری دنیا کے ممالک کی
معیشت کیلئے منی لانڈرنگ ، دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کو روکنے اور
کالے دھن کو سفید کرنے والے گروہوں کی روک تھام کرنا ہے۔اس تنظیم کے پینتیس
ارکان ہیں جن میں امریکہ برطانیہ اور انڈیا بھی شامل ہیں۔پاکستان اور
امریکہ کے مابین تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے ٹرمپ نے اپنے دور کے آغاز میں
ہی پاکستان کے خلاف بیان دیا تھا کہ ہم 33 کروڑ ڈالر پاکستان کو دے چکے ہیں
لیکن پاکستان نے ابھی تک دہشتگردی کے خلاف کچھ نہیں کیا ہے، جس کے بعد
پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا۔امریکہ اور چین کے درمیان جو اقتصادی
جنگ چل رہی ہے اس کی وجہ سے امریکی دباؤ پاکستان پر زیادہ ہے۔ پاکستان چین
کیلئے ایک انتہائی اہم تجارتی پوائنٹ ہے ، امریکہ اور چین کی اس تجارتی جنگ
کی وجہ سے امریکہ ایف اے ٹی ایف کا ٹول استعمال کر رہا ہے کیونکہ امریکہ کے
کئی سینیٹرز خود بیانات دے چکے ہیں کہ آئی ایم ایف ، ایف اے ٹی ایف اور
ورلڈ بنک وغیرہ ان کے ٹولز ہیں جنہیں امریکہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے
کیلئے استعمال کرتا ہے۔ تو دوسری طرف اسرائیل پاکستان کے استحکام کو دیکھنا
نہیں چاہتا ، جس کی بنا پر اس نے بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کے خلاف
سازشیں کر کے ’’بد سے بدنام برا‘‘ کے مصداق پاکستان کا تشخص عالمی سطح پر
دہشتگردی کے ساتھ جوڑا ہوا ہے ، حالانکہ دہشتگردی سے متاثر ہونے والا سب سے
بڑا ملک پاکستان ہے۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک کئی ہزار بم دھماکے ،بد
امنی کی لہریں، ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں لاکھوں پاکستانی شہید و زخمی ہو
چکے ہیں ، اس کے علاوہ معاشی نقصان اور اس کے دیر پا اثرات کا تو کوئی
انداز ہی نہیں لگایا جا سکتا جو سینکڑوں بلین ڈالرز میں ہے، پاکستان جس کو
قدرت نے بیش بہا وسائل سے نوازا ہے کی بڑھتی ہوئی ترقی کی رفتار یک دم جمود
کا شکار ہوگئی۔ ایف بی آر کا منصوبہ تھا کہ پرومیسری نوٹس کے ذریعے مخصوص
مقدار میں ری فنڈز کئے جائیں تاہم پرومیسری نوٹس کو بطور ضمانت تسلیم کرنے
میں بینکوں کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے یہ نوٹس اتنی تیزی سے جاری نہیں ہو سکے جس
کی توقع کی جا رہی تھی۔ایک یہ وجہ بھی ہے کہ ایف بی آر مقررہ اہداف حاصل
کرنے میں بالکل ناکام نظر آرہی ہے۔اس ناکامی کے پیچھے ایف بی آر اور تاجروں
کے مابین عدم اعتماد کی فضا ہے ۔ تاجروں اور صنعت کاروں کے بقول یہ ان کے
ساتھ مذاق کے مترادف ہے ، کاروباری طبقے کو ٹیکس ریٹرن فارم میں گو شوارے
جمع کرانے میں تاحال مشکلات کا سامنا ہے ۔ تاجروں کی رجسٹریشن پر تعطل
برقرار ہے ، شناختی کارڈ کی شرط بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ایف بی آر کے اہلکار
بڑی مارکیٹوں میں سمگل شدہ اشیاء کی فہرستیں بنا رہے ہیں ۔یہ بات تو واضح
ہے کہ اگر ایف بی آر اور تاجر ایک پلیٹ فارم پر نہیں ہوں گے تو ملکی معیشت
کا پہیہ چلنا دشوار ہے۔مہنگائی کے بوجھ سے عام آدمی کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔
چھوٹے کاروبار تباہ جبکہ بڑے کاروباروں پر مہنگائی کے اثرات منفی ہونے کی
وجہ سے لوگ بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں ۔ایف اے ٹی ایف کی ٹیم بہت جلد
پاکستان آ رہی ہے، اگر اس بار دہشتگردی اور منی لانڈرنگ کے ساتھ ٹیکس وصولی
کے اضافہ بارے پاکستان ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کر پایا تو پاکستان گرے لسٹ
سے نکل سکتا ہے یا برقرار رہے گا اور مطلمئن نہ کر پانے کی صورت میں
پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔موجودہ حالات کے پیش نظر ایف اے
ٹی ایف کی تلوار سے جان چھڑانے میں ہی عافیت ہے۔اگرچہ اس ضمن میں اب مہلت
بہت ہی کم رہ گئی ہے گویا معاملہ وہی ہے کہ’’ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل
گیا‘‘ کے مصداق ہمیں اپنے حالات کی بہتری کی طرف اپنی رفتار تیز کرنی
ہوگی۔بے رحم و کڑے احتساب کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا ، روز روز کی ڈگ ڈگی
بجانے اور دس دس والیم شائع کرنے سے کام نہیں ہوگا، عدلیہ اس سے بہتر ہے کہ
چار چار سو صفحات کا فیصلہ لکھنے کیلئے چار چار سال کی پیشیاں لگائے ،
فیصلہ دو تین صفحات کا ہی ہو لیکن ہفتہ دو ہفتہ میں نمٹا دیا جائے۔
|