جاگدے رہنا ، ساڈے تے ناں رہنا

مولانا فضل الرحمٰن اکتوبر میں اسلام آباد کی ’’تالابندی‘‘ پر تُلے بیٹھے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے اُنہوں نے بڑی محنت سے جماعتِ اسلامی کو منا کر ایم ایم اے کو فعال کیا۔ دراصل مولانا کو حکمرانی کا ’’چسکا‘‘ لگ چکا ہے۔حکومت پیپلزپارٹی کی ہو یا نوازلیگ کی ،مولانا کو اُن کا حصّہ مل ہی جاتا ہے لیکن جو مزہ اپنی حکومت میں ہے وہ بھلا اور کہاں۔ اِسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ 2002ء کا موسم لوٹ آئے جب مرکز میں وہ قائدِ حزبِ اختلاف تھے اور خیبر پختونخوا کے بلا شرکتِ غیرے مالک۔ ہُوا مگر یہ کہ جب 2018ء کے عام انتخابات کا نتیجہ سامنے آیا تو مولاناچاروں شانے چت، اپنی سیٹ بھی گنوا بیٹھے۔ اِن انتخابات میں دھاندلی کا ایسا شور اُٹھا کہ سلیکٹڈ، سلیکٹڈ کی گونج اب تک جاری۔ مولانا نے بہت زور مارا کہ اپوزیشن جماعتوں کے منتخب اراکین حلف اٹھانے سے انکار کر دیں لیکن نوازلیگ اور پیپلزپارٹی نے صاف انکار کر دیا۔ تب سے اب تک مولانا ملین مارچوں میں مصروف۔ اب آخری حربے کے طور پر اُنہوں نے اکتوبر میں اسلام آباد لاک ڈاؤن کی کال دی ہے۔

میاں نوازشریف نے کیپٹن صفدر کے ذریعے مولانا صاحب کو اپنی حمایت اور لاک ڈاؤن میں شرکت کا عندیہ دے دیا، نوازلیگ مگر ابھی تک گومگو میں۔ ہو سکتا ہے کہ میاں شہبازشریف کسی ڈیل یا ڈھیل کے انتظار میں ہوں کیونکہ وہ تو ابتدا ء ہی سے مفاہمت کی سیاست کر رہے ہیں لیکن میاں نوازشریف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے ساتھ ڈَٹ کر کھڑے ہیں۔ وہ کسی بھی سمجھوتے پر تیار نہیں۔ یہ سب گھڑی گھڑائی افواہیں ہیں کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز چار سالوں کے لیے ملک سے باہر چلے جائیں گے اور واپسی پر اُن کی سیاست میں ’’اِن‘‘ ہونے کی راہیں کھلی ہوں گی۔ سوال مگر یہ ہے کہ وزیرِاعظم کا ٹیپ کا مصرع ہی یہ ہوتا ہے ’’کسی کو این آر او نہیں دوں گا‘‘ تو پھر ڈیل کس کے ساتھ ہو رہی ہے؟۔ کیا اُن مقتدر قوتوں کے ساتھ جنہوں نے عمران خاں کے سر پر وزارتِ عظمیٰ کا تاج سجایا یا پھر عمران خاں ہی یوٹرن لے لیں گے؟۔ ایسا اُسی صورت میں ممکن ہے جب میاں نوازشریف کسی ڈیل، ڈھیل یا این آر او کے لیے تیار ہوجائیں لیکن اُن کا بیانیہ واضح کہ جب اُن کا دامن صاف ہے تو وہ ڈیل کرکے اپنا دامن آلودہ کیوں کریں۔ ویسے اگرمیاں صاحب کسی ڈیل کے نتیجے میں ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو اُن کی جانشین مریم نواز کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی جس کے لیے میاں صاحب کسی بھی صورت میں تیار نہیں۔

دوسری طرف بلاول زرداری نے کھُل کرکہہ دیا کہ لاک ڈاؤن میں مولانا کی صرف اخلاقی مدد کی جائے گی، شرکت نہیں۔ بلاول کا المیہ یہ کہ وہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور ماں بینظیر بھٹو کی طرح دبنگ سیاست کرنا چاہتے ہیں (جس کی کبھی کبھی جھلک بھی نظر آجاتی ہے) لیکن ٹھنڈا ٹھار ’’خونِ زرداریہ‘‘ آڑے آ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے بابا اور پھوپھو کو بچانے کے لیے وہ کبھی نرم اور کبھی گرم سیاست اپناتے نظر آتے ہیں۔ نرم وگرم چشیدہ آصف زرداری اور نڈر بینظیربھٹو کے خون کے اِس ملغوبے نے اگر باپ کی انگلی چھوڑ کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی ٹھان لی تو ملکی تاریخ میں ایک دبنگ سیاستدان کا اضافہ ممکن ہے، بصورتِ دیگر وہ تاریخ کے کوڑے دان میں غرق ہو جائے گا۔

بلاول زرداری کے لاک ڈاؤن میں شرکت نہ کرنے کے بیان پر مشیرِاطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان نے طنزیہ انداز میں کہا کہ دراصل بلاول نے مولانا فضل الرحمٰن کو پیغام دیا ہے کہ ’’ جاگدے رہنا ، ساڈے تے ناں رہنا‘‘۔ یہی بات جب ہم نے ایک پپلیئے کو بتائی تو اُس نے غصّے سے دانت پیستے ہوئے کہا کہ ایسی ہی حرکتوں کی وجہ سے فردوس عاشق اعوان کی پیپلزپارٹی سے چھٹی ہوئی تھی۔ جب اُسے پیپلزپارٹی نے وزارتِ اطلاعات ونشریات کا قلمدان سونپا تو جلد ہی پتہ چل گیا کہ وہ تو ’’ماسی مصیبتے‘‘ ہے۔ اِسی لیے اُس سے وزارت کا قلمدان واپس لے لیا گیا۔ تب وہ روتے روتے نوازلیگ کے پاس گئی ۔ جب وہاں کسی نے گھاس نہیں ڈالی تو تحریکِ انصاف نے گلے لگا لیا اور اب میڈیا پر آنے کی شوقین فردوس عاشق اعوان ہر وقت ’’بونگیاں‘‘ مارتی رہتی ہے۔ اُس کی باتوں کو اپوزیشن تو کیا کبھی حکومت نے بھی سیریس نہیں لیا۔ پپلیئے نے مذید کہا کہ دراصل سلیکٹڈ وزیرِاعظم کو فیاض چوہان، فیصل واوڈا، فوادچودھری، شیخ رشید اور فردوس عاشق اعوان جیسے لوگ ہی مرغوب ہیں کیونکہ وہ اُنہی کی بولی بولتے ہیں۔

جیالا تو یہ کہتے ہوئے رخصت ہوا کہ اِن سے پانچ سالوں میں نیا خیبرپختونخوا تو بن نہ سکا، اب چلے ہیں نیا پاکستان بنانے لیکن ہم سوچ رہے ہیں کہ 72 سالوں میں قائد کا پاکستان بنانے میں ناکامی کے بعد اب ہم کون سا پاکستان بنانے چلے ہیں؟۔ حقیقت یہی کہ قوم کو جو لیڈر بھی ملا، اُس نے یہی کہا ’’جاگدے رہنا ، ساڈے تے ناں رہنا‘‘۔تحریکِ انصاف کی حکومت نے تو ابتداء ہی میں ہاتھ کھڑے کر دیئے اور الزام دھرا پیپلزپارٹی اور نوازلیگ پر کہ وہ خالی خزانہ چھوڑ کر گئے۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، یہاں جو بھی برسرِاقتدار آیا، اُس نے پچھلی حکومت پر یہی الزام لگایا۔ یہ الزام اب اتنا پِٹ چکا ہے کہ کوئی اِس پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ تحریکِ انصاف کے وزیرمشیر تو پہلے 100 دنوں کے اندر ہی ’’کُرلانے‘‘ لگے تھے کہ ’’جاگدے رہنا، ساڈے تے ناں رہنا‘‘۔

نئے پاکستان کی کامیاب ’’تشکیل‘‘ کے بعد اب عمران خاں ’’ریاستِ مدینہ‘‘ بنانے چلے ہیں۔ جیسے تحریکِ انصاف مختلف سیاسی جماعتوں کا ملغوبہ اور ’’کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا‘‘،اُ سی طرح اُس کے منصوبے بھی سیاسی جماعتوں کا چربہ۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کو اُنہوں نے 50 لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں میں بدل دیا۔ پرویزمشرف کے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کو نیا پاکستان بنانے چل نکلے اور ضیاء الحق کے اسلام کی جگہ ’’ریاستِ مدینہ‘‘ لے آئے لیکن ریاستِ مدینہ کے لوازمات سے یکسر بے نیاز۔ دعویٰ تو یہی تھا کہ ہر ادارے میں کفایت شعاری سے کام لیا جائے گا لیکن اخراجات پچھلی حکومتوں سے بڑھ کر۔ جماعت کا نام ’’تحریکِ انصاف‘‘ لیکن انصاف کا دور دور تک نام ونشان نہیں۔ اتنا تو وہ جانتے ہی ہوں گے کہ ریاستِ مدینہ کے کسی بھی امیرالمومنین کے ہاں پروٹوکول کا تصور تک نہیں تھا۔ ایک دفعہ قیصرِ روم کا ایلچی امیرالمومنین حضرت عمرؓ سے ملاقات کے لیے آیا۔ مدینہ منورہ پہنچ کر اُس نے ایک صحابی سے پوچھا کہ اُن کے بادشاہ کا دربار کہاں ہے؟۔ صحابیؓ نے جواب دیا کہ مسلمانوں میں بادشاہ نہیں ہوا کرتے۔ پھر وہ صحابیؓ اُس ایلچی کو مسجدِنبوی تک لے کر گئے جہاں امیرالمومنین حضرت عمرؓ مسجدِ نبوی کی صفائی کے بعد تھک کر وہیں چٹائی پر لیٹے سو رہے تھے۔ وہ ایلچی پکار اُٹھا ’’اصل شہنشاہ تو یہ ہیں‘‘۔کیا بنی گالہ کے محل میں رہنے والے، وزیرِاعظم ہاؤس سے بنی گالہ تک ہیلی کاپٹر میں سفر کرنے والے، چارٹرڈ طیاروں میں گھومنے والے اور بھرپور پروٹوکول سے لطف اندوز ہونے والے وزیرِاعظم عمران خاں ایسا کر سکتے ہیں؟۔ کیا وہ اپنے کندھے پر اناج کی بوری اٹھا کر بیوہ کے گھر جا سکتے ہیں؟۔ کیا وہ دریائے فرات کے کنارے مر جانے والے کتّے کی روزِ قیامت پُرسش سے لرزہ براندام ہو سکتے ہیں؟۔ اگر خلقِ خُدا کا جواب نفی میں ہے تو پھر چھوڑیئے ریاستِ مدینہ کی باتیں کہ یہ سب ’’جاگدے رہنا ، ساڈے تے ناں رہنا‘‘ کے مصداق ہے۔

یہ سب تو پاکستان کے اندرونی معاملات ہیں جنہیں قوم بھگت رہی ہے لیکن حکمرانوں نے تو کشمیریوں کے ساتھ بھی ’’جاگدے رہنا ، ساڈے تے ناں رہنا‘‘ کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ وزیرِاعظم سمیت حکومتی زعماء یہی کہتے رہتے ہیں کہ اگر بھارت نے جارحیت کی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گالیکن آزادکشمیر کے صدر مسعود خاں کا بیان قابلِ توجہ۔ وہ کہتے ہیں ’’مقبوضہ کشمیر پر حملہ دراصل پاکستان پر حملہ ہے اور ہم حا لتِ جنگ میں ہیں۔ اب ہمیں کشمیر اور پاکستان کا دفاع کرنا ہے‘‘۔ آزادکشمیر کے صدر کا بیان واضح کہ بھارت جارحیت کر چکا، اب ہمیں جواب دینا ہے۔ اگر ہر جمعے کو یومِ یکجہتیٔ کشمیر منانے کا مطلب بھارتی جارحیت کا جواب ہے تو پھر مقبوضہ کشمیر کو تو بھول ہی جائیے۔ 13 ستمبر کو مظفرآباد میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا ’’جنرل اسمبلی اجلاس میں کشمیر پر ایسا سٹینڈ لوں گا جو کبھی کسی نے نہیں لیاہوگا‘‘۔ اطلاعاََ عرض ہے کہ اِسی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے کہا تھا کہ کشمیری کہتے ہیں ’’Leave kashmir you Indian Dogs ‘‘ (بھارتی کُتّو! کشمیر سے نکل جاؤ)۔ اِس سے زیادہ سخت الفاظ تو کوئی استعمال کر ہی نہیں سکتا۔ پاکستان کے ہر سربراہ نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اقوامِ متحدہ کا ضمیر جھنجھوڑنے کی بھرپورکوشش کی لیکن سب عبث، بیکار۔ اب خاں صاحب کون سی ایسی بات کہنے جا رہے ہیں جس سے اقوامِ متحدہ کا ضمیر جاگ اُٹھے گا؟۔ بہتر یہی کہ مظلوم کشمیریوں کو یہ پیغام دے دیں ’’جاگدے رہنا ، ساڈے تے ناں رہنا‘‘
 

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642770 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More