کرکٹ کو سیاست کی نظر ِبد سے
بچایا جائے.....
ٓگزشتہ سال اگر سری لنکن کھلاڑیوں پر حملہ نہ ہوا ہوتا تو آج 2011کے کرکٹ
ورلڈ کپ کے میچوں کا انعقاد پاکستان میں بھی ہو رہا ہوتا مگر شائد ہمارے
پڑوسی ملک بھارت کو پاکستان کی میزبانی پسند نہ آئی اور اُس نے ایک سازش کے
تحت ایسا گیم کھیلا کہ پاکستان کو کرکٹ ورلڈ کپ کے سلسلے میں ہونے والے
میچوں کے لئے سیکیورٹی کے لحاظ سے ایک غیر محفوظ ملک قرار دلوا کر اِسے
کرکٹ کے ورلڈکپ کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے سے کٹوا کر ہی دم لیا اور خود
اپنے یہاں کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی کر کے وہ کچھ حاصل کر رہا ہے جس کا اِس
نے سوچ رکھا تھا اگر چہ یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کو خود بھارتی بھی تسلیم
کرتے ہیں کہ بھارت کو سانحہ ممبئی کے بعد کسی بھی لحاظ سے ایک محفوظ ملک
قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ آج بھی یہ خیال کیا جارہا ہے کہ سانحہ ممبئی
کے بعد سے بھارتی علیحدگی پسند اور اِتنہاپسند جو تنظیمیں ہیں وہ پہلے سے
کہیں زیادہ متحرک ہوگئی ہیں جن کا نیٹ ورک توڑنے میں بھارتی حکمران اور
بھارتی ایجنسیاں اور فورسز کے ادارے بھی ناکام ہوگئے ہیں جس کا اعتراف
بھارتی حکمران اور یہاں کی فورسز خود بھی کرچکی ہیں مگر اِس کے باوجود بھی
اِن کا یہ کہنا ہے کہ بھارت سیکیورٹی کے لحاظ سے ایک محفوظ ترین ملک ہے
انتہائی مضحکہ خیز ہے....بہرکیف! بھارت نے پاکستان کو 2011 کے کرکٹ ورلڈکپ
کی میزبانی نہ دلانی تھی وہ پاکستان کو نہ دلاکر اپنے اِس مشن میں کامیاب
ہوگیا ہے۔ ایسے میں میرا بھارتی حکمرانوں اور بھارتی اپوزیشن سمیت بھارتی
سے یہ کہنا ہے کہ وہ کرکٹ کو کرکٹ ہی رہنے دیں اِسے اپنی مفاد پرستانہ
سیاست کی نظر بد سے بچائیں تاکہ جنوبی ایشیا کے عوام کو کرکٹ کے حوالے سے
کوئی اچھا انٹرٹینٹمنٹ مل سکے اور اگر بھارت نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے
کرکٹ کا سہارا لیا پھر کرکٹ کا میدان ،کرکٹ کا میدان نہیں رہے گا بلکہ پاک
بھارت کا کوئی مچھلی بازار نما ایوان بن جائے گا جہاں ایوانِ نمائندگان
کرکٹ کو بھول کر اپنے اپنے ملکوں کے درینہ مسائل حل کرنا شروع کردیں گے۔
اگرچہ میں آج اِس مخمصے میں ضرور مبتلا ہوں کہ شائد پہلی مرتبہ بھارت نے
اپنے تئیں کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا لیتے ہوئے امن کا چھکا لگانے کی جو سعی
کی ہے اِسے بھی دنیا خوب جانتی ہے کہ اِس بہانے بھارت پاکستان سے کون ،کون
سے فائدے حاصل کرنا چاہے گا جس کے لئے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پاکستان
اور بھارت کے درمیان 30 مارچ بروز جمعرات کو بھارتی پنجاب کے شہر موہالی
میں ہونے والے کرکٹ ورلڈکپ کا سیمی فائنل میچ دیکھنے کی دعوت دی ہے جس سے
یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت یہ سب کچھ اپنے سیاسی اور جغرافیائی مفادات
حاصل کرنے کے خاطر کر رہا ہے اور بھارت اپنے ایسے ہی مفاد پرستانہ عمل سے
دنیا کو دیکھانے کے لئے کوششیں کر رہا ہے کہ دنیا یہ دیکھ لے کہ بھارت
جنوبی ایشیا میں امن کا کتنا بڑا علمبردار ہے کہ وہ پاکستان کی جانب
خیرسگالی کا خوش دلی سے ہاتھ بڑھا رہا ہے جبکہ حقیقت اِس کے بلکل برعکس ہے
اور دنیا کو اِس بھارتی نقاب کے پیچھے چھپے ہوئے اُس چہرے کو بھی دیکھنا
چاہئے کہ بھارت کوئی بھی ایسا موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جب دنیا کی
نظریں کسی نہ کسی وجہ سے پاکستان اور بھارت پر مرکوز ہوتی ہیں ایسے مواقعوں
پر بھارت اپنی ڈپلومیسی سے دنیا کو یہ باور کرانے کی ہر بار کوشش کرتا ہے
کہ بھارت تو پاکستان کے ساتھ اپنے اچھے روابط قائم رکھنے کا خواہاں ہے مگر
پاکستان بھارت کی ہر اچھی پیشکش کو ٹھکرا کر آگے نکل جاتا ہے۔اور بھارت کی
کسی بھی امن پیشکش کا جواب نہیں دیتا کیونکہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ بھارت
کی اِس پیشکش کے پس پردہ کون سے عوامل پوشیدہ ہیں اور بھارت اپنے اِس
دکھاوے کی عمل سے کیا کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اَب چونکہ ماضی کے مقابلے
میں پاکستان میں جمہوریت ہے اور پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہونے کے علاوہ بھی
اور دیگر حوالوں سے بھارت کے مدمقابل کھڑا ہے تو ایسے میں پاکستان کے صدر
اور وزیراعظم کو یہ بات اچھی طرح سے سوچ سمجھ لینی چاہئے کہ یہ بھارتی
وزیراعظم کی اِس پیشکش کا جواب یوں دیں کہ یہ بھارت بھی نہ جائیں اور کام
بھی ہوجائے اور اِس طرح سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹنے پائے۔
اگرچہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جب پاکستان نے باضابطہ طور پر ایٹمی دھماکہ
نہیں کیا تھا اور دنیا کی نظر میں ایٹمی طاقت بن کر نہیں اُبھرا تھا اُس
دوران ضیاءالحق مرحوم کی پاکستان پر حکمرانی تھی اُس وقت ملک پر ایک آمر
صدر کی حاکمیت کی وجہ سے پاکستان کو دنیا کے جمہوریت پسند ممالک نے ناپسند
ملک قرار دیا تھا جس کی وجہ سے پاکستان دنیا میں تنہا ہوکر رہ گیا تھا
چونکہ بھارت پاکستان کو اپنا پرانا حریف سمجھتا ہے پاکستان کی اِس تنہائی
کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنانا شروع
کردیا تھا اور اِسی دوران بھارت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ
میچوں کا ایک سلسلہ جاری تھا تو ایسے میں جب ضیاءالحق مرحوم کے کانوں میں
بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملے کی بھنک پڑی تو اِسی کرکٹ ڈپلومیسی(جس کا
سہارا لیتے ہوئے آج بھارتی وزیراعظم نے ہمارے صدر اور وزیراعظم کو خود سے
بھارت آنے اور ایک ساتھ کرکٹ میچ دیکھنے کی دعوت دی ہے) ایسی ہی کرکٹ
ڈپلومیسی کا سہارا لیتے ہوئے اُس وقت کے ہمارے ملک کے آمر صدر ضیاءالحق
مرحوم کرکٹ میچ شروع ہونے سے صرف چند گھنٹے قبل بھارت کی جانب سے پاکستان
پر کئے جانے والے حملوں کو رکوانے کے خاطر اپنے امن مشن پر اچانک بھارت
پہنچ گئے اِن کے یوں بھارت آنے پر بھارتی حُکمرانوں سمیت اپوزیشن رہنماؤں
کو نہ صرف حیرانگی ہوئی تھی بلکہ ضیاءالحق مرحوم نے بھارتی حکمرانوں کے
ساتھ کرکٹ میچ دیکھ کر بھارتیوں کی پاکستان پر حملے کی اُس منصوبہ بندی کو
بھی ناکام بنا دیا تھا جس کو اُس وقت کے بھارتی حکمران حتمی شکل دے چکے تھے
اور یوں پاکستان بھارت کی جانب سے زبردستی مسلط کی جانے والی جنگ سے بچ گیا
تھا اُس وقت ضیاءالحق مرحوم کا یہ سب کچھ کرنا مجبوری تھا اگر وہ کرکٹ
ڈپلومیسی سے کام نہ لیتے تو ممکن تھا کہ بھارتی اپنے جنگی جنون کے ہاتھوں
مجبور ہو کر پاکستان پر حملہ کردیتے مگر اَب جبکہ حالات بلکل مختلف ہیں آج
پاکستان بھی ایک ایٹمی ملک بن چکا ہے ایسے میں بھارت اس سے جنگ کا کبھی
متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ بھارتیوں کی ہمیشہ سے ہی یہ فطرت رہی ہے کہ یہ
اپنے سے کمزروں کو دباتے اور طاقتور سے ڈرتے اور چاپلوسی سے اپنا مطلب
نکالتے ہیں۔اور آج ایک بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی ضیاءالحق مرحوم
والی کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا لے کر اپنا سیاسی اور جغرافیائی مطلب نکانے
کوشش کر رہے ہیں۔ |