ماضی میں پاکستان کی دونوں بڑی
سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)نے جنوبی پنجاب میں متحدہ قومی
موومنٹ کی سر گرمیوں کو محدود کرنے کے لئے اس پر بھتہ خور ی، شدت پسند ی
اور غنڈا گردی کا لیبل لگایا اور اور عوام بھی اعتبار کر کے متحدہ میں
شمولیت سے گریزاں رہے ۔مگر گزشتہ الیکشن کے بعد متحدہ نے دوبارہ جنوبی
پنجاب میں سر گرمیاں شروع کیں تو یہاں کی عوام نے اس بار اسے کھلے دل سے
خوش آمدید کہا ،گزشتہ سال ملتان میں ہونے والے کنونشن کی کامیابی بھی اس
بات کا ثبوت ہے کہ ایم کیو ایم جنوبی پنجاب میں قدم جمانے میں کامیاب ہوگئی
ہے ۔اب تک جنوبی پنجاب میں ایم کیو ایم کے ڈھائی ہزار سے زائد یونٹ قائم ہو
چکے ہیں اور دن بدن متحدہ کا نیٹ ورک وسیع تر ہوتا جا رھا ہے ۔اس بار بھی
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)نے متحدہ قومی موومنٹ کی سر گرمیوں کو
محدود کرنے کے واسطے سابق طریق کار ہی استعمال کیا ہے مگر کچھ خاص اثر نظر
نہیں آرہا۔جنوبی پنجاب میں متحدہ قومی موومنٹ کو پسند کرنے کی ایک وجہ تو
الگ صوبہ تحریک کی حمایت ہے جب کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ متحدہ کے قول فعل میں
اتنا تضاد نہیں جتنا یہاں کے عوام روایتی سیاسی جماعتوں میں بار ہا دیکھ
چکے ہیں ۔اب عوام نے دیکھ لیا ہے کہ متحدہ میں کوئی جعلی ڈگری ہولڈر نہیں
۔۔۔۔۔۔کوئی ٹیکس چور نہیں ۔۔۔۔۔کوئی پانی چور نہیں ۔۔۔۔۔کسی نے قرضے معاف
نہیں کروائے ۔۔۔۔۔متحدہ کے کسی رکن اسمبلی نے سینکڑوں ایکڑز پر محیط محلات
نہیں بنائے ۔۔۔۔۔۔اب عوام نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ متحدہ کا کوئی ایم این
اے یا ایم پی اے پروٹوکول نہیں مانگتا۔۔۔۔۔اب عوام نے یہ بھی دیکھ لیا ہے
کہ متحدہ کا ایم این اے یا ایم پی اے جلسے جلوس میں عام کارکن کی طرح دریاں
بچھاتا نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔اب عوام نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ متحدہ میں ٹکٹ
سرمایہ یا جاگیر دیکھ کر نہیں بلکہ عام کارکن کو دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔اب عوام
نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ متحدہ میں ٹکٹ پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں لے کر
نہیں دیا جاتا بلکہ ورکنگ میرٹ پر دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اب عوام نے یہ بھی دیکھ
لیا ہے کہ متحدہ نے حکومتی جماعت کا ساتھی ہونے کے باوجود ہر اُس فیصلے پر
واک آﺅٹ اور احتجاج کیا جس سے پاکستان کے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا نظر
آیا ۔۔۔۔۔اب عوام نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ متحدہ کے کارکن عہدوں کے لئے
آپس میں نہیں لڑتے ،یہی وجہ ہے کہ روایتی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی بیان
بازی پر کان دھرے بغیر لوگ متحدہ کی طرف کِھچے چلے آرہے ہیں ۔ایم کیو ایم
کے قائد الطاف حسین کا باقی جماعتوں کے لیڈروں کے مقابلے میں یہ پلس پوائنٹ
ہے کہ وہ نہ ماضی میں اقتدار کی کُرسی پر بیٹھے اور نہ ہی آئندہ اپنے لئے
صدارت یا وزارت کی خواہش رکھتے ہیں۔سو وہ وطن میں رہیں یا باہر ،اس ایشو پر
اگر کوئی تنقید کرتا ہے تو اس کو محض تنقید برائے تنقید کہا جاسکتا ہے۔
باقی رہی بات شدت پسندی اور غنڈا گردی کی تو ہر ذی شعور پاکستانی یہ بات
سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے کہ دھونس دھاندلی سے کوئی ایک سیٹ تو جیتی جاسکتی
ہے 25ایم این اے اور 51ایم پی اے نہیں بنائے جا سکتے ۔اب اگر مسلم لیگ (ن)
کے قائد میاں نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے
پارٹی پالیسی تبدیل نہ کی ، اگر اقتدار اور اختیارات سرمایہ داروں اور
جاگیر داروں کے ڈیروں سے نکال کر اپنی اپنی پارٹی کے کارکنوں میں منتقل نہ
کئے تو جنوبی پنجاب ایم کیو ایم کا قلعہ بن جائے گا ۔کیونکہ جنوبی پنجاب کے
تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان،جاگیرداروں کی عوام دشمن سیاست اور تھانے
کچہری کے لامحدود مسائل اُلجھے لوگ،مہنگائی اور پولیس گردی کا شکار بھولے
بھالے دیہاتی ،تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم خواتین ،سب کے سب الطاف
حسین کی طرف اُمید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ۔لیکن یہ وقت ثابت کرے گا
کہ الطاف حسین ان کی توقعات پر پورا اُترتے ہیں کہ نہیں ۔ |