مشرق وسطیٰ میں گریٹ وار کی تیاریاں

امریکا اور ایران کے درمیان تنازع طویل ہوتا جارہا ہے اور امریکی صدر فیصلہ نہیں کرپارہے کہ وہ ایران پر حملے کے احکامات دیں یا نہیں ۔ دراصل امریکا کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ کمزور ممالک پر حملہ و جارحیت کی ہے اور بے شمار انسانوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا ہے ۔ اپنی مصنوعی طاقت کے زعم میں مبتلا امریکا اس وقت ایران کے ڈٹے رہنے پر پریشان ہے اسی لئے اسرائیل کے دباو کے باوجود ایران پر حملے کی ہمت نہیں کر پارہے ۔ 40 برسوں سے حالت جنگ میں رہنے والے ایران نے امریکا کو ایسا کھلا چیلنج دیا ہوا کہ ایران کے مخالفین سمجھ نہیں پا رہے کہ امریکا ایران کا حریف ہے یا حلیف ؟ ۔ جی سیون کانفرنس میں امریکی صدر نے ایران سے مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا تھا ، لیکن ایرانی صدر نے پابندیاں ہٹانے سے قبل کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار کردیا تھا ۔ حالیہ دنوں ایران نے امریکا سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کے آخری امکان کو بھی مسترد کردیا ۔ یہ ایک بڑا فیصلہ ہے جس نے امریکا کی رٹ کو چیلنج کیا ہوا ہے ۔ امریکا نے ہمیشہ کرائے کے فوجی کا کردار ادا کیا ہے ۔ عراق پر جب امریکا نے چڑھائی کی تھی تو عرب ممالک نے امریکی چڑھائی کے سارے اخراجات برداشت کئے تھے ۔ افغانستان پر بھی جارحیت کرتے وقت امریکی صدر بش کے دماغ میں غلط فہمی تھی کہ چند دنوں میں یہ پہاڑی علاقے میں رہنے والے( جو پہلے ہی سوویت یونین وار اور آپسی خانہ جنگی کے سبب زبوں حال ہوچکے ہیں )، جلد ہتھیار ڈال دیں گے ، لیکن افغان جنگ ، امریکی کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ بن گئی ہے اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکا ، فتح کے نزدیک بھی نہیں آسکا ۔ بچے کچے فوجیوں کو لے کر افغانستان سے نکلنے کی کوشش کو خود موجودہ امریکی صدر نے ناکام بنا دیا ۔

سعودی تیل تنصیبات پر حملے کے بعد امریکا نے سعودی عرب کی حفاظت کے لئے پیش کش کی ۔ لیکن سعودی عرب کا فی الحال کوئی ارادہ نظر نہیں آرہا کہ کرائے پر فوجی حاصل کئے جائیں ۔ امریکا اور اسرائیل ایران کی جنگی قوت کا مقابلہ کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں ، یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے قدامت پسند قومی سلامتی کے مشیر بولٹن کو برطرف کردیا کیونکہ ان کے مشیر ایران پر حملے کا کہتے لیکن امریکی صدر صرف ٹویٹر پر جنگ کرنے کو ترجیح دے رہے تھے ۔ جان بولٹن کو بھی صدر ٹرمپ نے اسی لئے برطرف ہوئے کیونکہ بولٹن ، ایران پر حملے کرنے کے سخت حامی تھے ۔ ایران اس وقت عظیم مشرق وسطیٰ میں ایک اہم و سخت جنگی حریف کے طور پر نمودار ہوا ہے جس کے پشت پر روس ، شام اور اب ترکی بھی کھڑے ہیں ۔ عراق میں ایرانی جنگجووں کے کامیابی اور پھر شام میں ایرانی مفادات کی کامرانی نے اسرائیل کو سخت خوف زدہ کیا ہوا ہے ۔ کیونکہ دوسری جانب شام میں نو برس کی جنگ کے بعد انقرہ میں روس ، ترکی اور ایران کے درمیان بالا آخر امن معاہدہ طے پا گیا جس کے تحت 2020 یا 2021 کومملکت شام میں نئے نظام کے تحت انتخابات کرائے جائیں گے ۔ امریکی صدر شام کی جنگ میں بھی عرب ممالک پر گرجے تھے کہ امریکی فوج کے اخراجات برداشت کئے جائیں ۔ امریکا عربوں کی جنگ مفت نہیں لڑ نا چاہتا ۔ امریکی صدر ٹرمپ سعودی عرب پر بھی ناراض ہیں کہ ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا جارہا ۔ امریکا ، ہر صورت عرب ممالک کو دباو میں لاکر اپنے مفادات کو پورا کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن عرب ممالک کو غالباََ اندازہ ہے کہ امریکا کوئی بھی بات و کام بغیر کسی مطلب کے نہیں کرتا ۔ امریکا اگر کسی ملک کا ساتھ دیتا ہے تو بھی اس میں اس کے فروعی مفادات ہوتے ہیں اور اگر کسی ملک کے خلاف بات کرتا ہے تو بھی اس میں امریکا کا کوئی نہ کوئی مفاد چھپا ہوتا ہے ۔ امریکا کی دو عملی کا وتیرہ پوری دنیا پر عیاں ہے ۔

ایران اپنے مخصوص مفادات کے تحت عراق ، شام ، لبنان ، یمن ،اردن اور افغانستان سمیت کئی ممالک میں اثر رسوخ قائم کیا ہوا ہے ۔ ایک طویل خطے پر ایران نے اپنے مفادات کے لئے بھرپور تیاریاں کیں ہوئی ہیں ۔ امریکا کے لئے یہ بالکل آسان فیصلہ نہیں کہ وہ ایران پر اکیلا حملہ ٓاور ہوسکے ۔ اس لئے ایران کے خلاف وہ ایک نیا عالمی اتحاد بنانے کی تیاری میں مشغول ہے لیکن جس طرح امریکی صدر نے امریکا ۔ ایران معاہدہ کو ختم کرکے ایران پر دباو ڈالنے کی کوشش کیں کہ وہ نئے معاہدے پر راضی ہوجائیں ۔ اس عمل کو سلامتی کونسل کے کئی ممالک نے نا پسند کیا ہے ۔ یورپی ممالک نے امریکی اقدامات کو جلد بازی قرار دیا ۔ گو کہ اس وقت عظیم مشرق وسطیٰ میں ایران کی وجہ سے خانہ جنگیاں طول پکڑ چکی ہیں ، اور کروڑوں مسلمانوں کو مہاجرت کا سامنا ہے ۔ لیکن اس کی واحد وجہ مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان یک جہتی و اعتماد کا فقدان رہا ہے جس کا فائدہ بیرونی طاقتوں نے اٹھایا ۔

شام ، ایرانی تیل کی مصنوعات کی فروخت کا اہم مارکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ شام میں ایران کی موجودگی، دراصل ایران کی معاشی بقا کے لئے ضروری ہے ، اسی لئے امریکا نے ایران کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لئے سمندری ناکہ بندی کی ہوئی ہے لیکن ایران امریکی اقدامات کو کسی خاطر میں نہیں لا رہا ۔ یہ امریکا کے لئے بڑی سبکی کا سبب بن رہا ہے اور چاہنے کے باوجود وہ ایرا ن کے خلاف جنگ میں اترنے سے مکمل خاءف نظر آتا ہے ۔ کیونکہ ایران نے امریکی مفادات کے قریب ایسے حصار بنا چکا ہے کہ اگر امریکا ، ایران پر حملے کی غلطی کرتا ہے تو شاید اس کو پچھتانے کا موقع بھی نہ ملے ۔

قیاس یہی کیا جارہا ہے کہ امریکا ایک ایسا کندھا چاہتا ہے جس پر بندوق رکھ اپنے مفادات کو حاصل کرسکے ۔ لیکن ابھی تک تمام تر کوششوں کے باوجود امریکا کو ناکامی کا سامنا ہے لیکن اس کی کوششیں جاری ہیں ۔ آنے والے دنوں میں دیکھنا ہوگا کہ امریکا اور ایران کے درمیان سنگین محاذ آرائی کا ایندھن کون بنتا ہے اور ایران کے خلاف امریکا ، کس کا کندھا استعمال کرتا ہے ۔ سعودی تیل تنصیبات حملے کے بعد امریکا کی خواہش ہوگی کہ سعودی عرب ، ایران کے خلاف میدان میں اترے ، جس کا واضح مطلب امریکا کو استعمال کرنا ہوگا اور اس کے جنگی اخراجات برداشت کرنے ہونگے ۔ اب یہ سعودی حکمرانوں پر منحصرہے کہ وہ خطے میں ایک نئے گریٹ وار سے کس طرح نبر الزما ہوتے ہیں ۔ تحمل و برداشت کے ساتھ مستقبل میں درپیش حالات کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ہی عرب ممالک کو اپنی مملکت اور معاشی صورتحال کا فیصلہ کرنا ہوگا ۔ ان کے لئے یہی بہتر ہے کہ اگر امریکا نے جنگ لڑنی ہے تو وہ خود لڑے ۔ امریکا کو اپنی لڑائی لڑنے کے لئے کسی بھی ملک کا کندھے فراہم نہ کرنا عظیم مشرق وسطیٰ و تما م مسلم امہ کے حق میں بہتر ہے ۔ عظیم مشرق وسطی میں گریٹ وار کی نئی تیاریوں سے صرف مسلم امہ کو نقصان ہوگا اور ملت اسلامیہ مزید کمزور سے کمزور ہوتی چلی جائے گی جو ایک اچھا شگون نہیں ہوگا ۔
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 296766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.