پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر ڈیورنڈ لائن
کہلاتا ہے جو کہ 2240 کلو میٹر کے وسیع علاقہ پر محیط ہے دنیاکی بڑی بڑی
سپر پاورز افغانستان پر قبضہ کی سوچ رہے ہیں اور یہ سوچ آج کی نہیں بلکہ یہ
سوچ 1860 ء سے پروان چڑھی ہوئی ہے مگر ان سُپر پاورز کی بد قسمتی ہے کہ وہ
آج تک افغانستان پر قبضہ نہیں جما سکے ۔ افغانستان کبھی بھی اپنی جنگ کا
حصہ نہیں رہا ہے بلکہ دنیا کی معشیت پر قابض چند ممالک کی حمائت میں جنگ
میں کودتا رہا جس کی مثال امریکہ اور روس کی سرد جنگ ہے جو کہ 1979 ء سے
شروع ہوئی اور نو سال تک لڑی گئی بالآخر 1989 ء میں اس کا اختتام ہوا اس
جنگ ،میں امریکہ ، پاکستان ، برطانیہ اور سعودی عرب کی حکومتوں نے کھل کر
افغان مجاہدین کو استعمال کیا اور یوں روس کو منہ کی کھانی پڑی اگر اُس
دہائی سے پیچھے جائیں تو 1885 میں روسی افواج نے آمودریا کے جنوب میں واقع
متنازعہ نخلستان پنج دہ پر قبضہ جما لیاپنج دہ جنگ کے بعد 1885-87 میں
انگریز، روس اور افغان نمائندگان پر مبنی ایک مشترکہ امن کمیشن بنایا گیا
جس کے تحت روس اور افغانستان کے مابین سرحد کا تعین کیا گیا اور روس کا اثر
رسوخ سرد جنگ کے خاتمے تک افغانستان میں قائم رہا1978 کے ثور معاہدے کے بعد
27 اپریل1978 کو افغانستان کا قیام عمل میں آیااور یوں روس اور افغانستان
کے مابین 5 دسمبر1978کو روس افغان امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ افغانستان ایک
پُر امن ملک رہا ہے جس میں اسلام کا نفاذ رہا اور اسلامی طرز حکومت کی
بنیاد پر ہی افغان شہریوں کو مساوات پر عدل فراہم کیا جاتا رہا مگر امریکہ
کو افغانستان میں اسلامی قانون اور روس کے ساتھ اچھے روابط ایک نظر بھی
نہیں بھا رہے تھے چنانچہ تذبذب کے شکار امریکہ نے افغانستان میں سی آئی اے
کی مدد سے افغاانستان میں دہشت گردوں کی باقاعدہ تربیت گاہیں قائم کر کے
امن کے داعی افغانستان میں دہشت گرد سرگرمیوں کا آغاز کر دیا اور آپریشن
سائیکلون کی آڑ میں افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کو جواز بنا کر
قتل عام شروع کر دیا گیا افغانستان کی کشیدہ صورتحال کو بھانپتے ہوئے روس
نے افغان امریکہ جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا اور تب روس کی بروقت مداخلت پر
امریکہ کو جنگ بندی کا اعلان کرنا پڑا۔ حالیہ امریکہ افغان جنگ کو شروع
ہوئے18 سال کا عرصہ ہو چکا ہے مگر امریکی فوج بے تحاشہ جنگی سازو سامان
ہونے کے باوجود ابھی تک افغان طالبان کو پسپا نہیں کر سکی ایک سروے کے
مطابق افغان طالبان کا افغانستان کے80 فیصد علاقے پر قبضہ ہے اور ہزاروں کی
تعداد میں امریکی فوجی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اب
تک تقریبا 40 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم صرف افغانستان میں لگا چکا ہے مگر
افغانی طالبان کے حوصلوں کو نہیں توڑ سکا اس ساری صورتحال میں امریکی عوام
امریکی حکومت سے اپنی فوج کے انخلاء کا مطالبہ کر رہی ہے مگر امریکہ ہٹ
دھرمی کی سیاست کر رہا ہے کیونکہ اگر امریکہ افغانستان سے یوں اپنے فوجیوں
کا انخلاء کرتا ہے تو اُسے دنیا میں شدید ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے
گا۔ امریکہ کی مثال اُس گھس بیٹھئے کی ہے جو کسی بھی دعوت میں جا گھستا ہے
اور پھر وہیں پر اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کرتا ہے خود کو امن کا سفیر
سمجھنے والا امریکہ اب تک ان گنت جنگیں کر چکا ہے تاریخ کے اوراق میں
امریکہ کی پہلی جنگ جو کہ Colonial War کے نام سے جانی جاتی ہے یہ جنگ
برطانیہ کے تسلط سے آزادی کے نام پر مقامی قبائل کے خلاف لڑی گئی جو کہ
1620 ء سے 1774 ء تک رہی اس کے بعد مقامی فوج کے خلاف آزادی جنگ لڑی گئی جو
کہ 1775 ء سے 83 ء کی دہائی تک جاری رہی 1783 ء سے1812 ء تک مختلف جنگیں
لڑی گئیں جن میں NorthwestIndian War, Quasi-War, Barbary Wars, Tecumseh's
War اور Creek War شامل ہیں۔1846 ء سے 1848 ء تک امریکہ میکسیکو سے حالت
جنگ میں رہا 1861 ء سے لے کر 1865 ء تک امریکہ سول نافرمانی کی تحریک کا
شکار رہا آزادی کے بعد سے لے کر اب تک امریکہ تواتر کے ساتھ جنگی جنون میں
مبتلا ہے خواہ وہ 1865 ء کی امریکن انڈین جنگ ہو یا 1898 ء کی امریکن اور
سپین کی جنگ ہو ، 1899 ء سے 1902 ء تک کی امریکن فلپائن جنگ ہو یا 1898 ء
سے 1935 ء تک کی Banana War ہو، 1917 ء سے 1918 ء کی پہلی جنگ عظیم ہو یا
1918 ء سے 1919 ء تک کی Russian Revolution کی جنگ ہو 1920 ء کی Naval
disarmament ہو یا پھر 1930 ء کا Neutrality Acts ہو 1941–1945 کی جنگ عظیم
دوم ہو یا 1945–1991کی سرد جنگ ہو 1950–53 کی کوریا کے خلاف جنگ ہو یا پھر
1958 کے Lebanon crisis ہوں 1964–1975 میں ویتنام کے خلاف امریکی معرکہ
آرائی کر رہے ہوں یا Grenada، Beirut، Libya، Panama، Persian Gulf War،
Somalia، Haiti اور Yugoslavia کی جنگ ہو امریکہ بہادر نے ہر طرف اپنی ٹانگ
اڑائی اور اپنے سپر پاور ہونے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نا جانے دیا جب
امریکہ کو کوئی خاطر خواہ فوائد حاصل نا ہوئے تب امریکہ نے دہشت گردی کو
جواز بنا کر ترقی پذیر ملکوں کی جانب اپنی توپوں کا رُخ کر لیا 2001 ء سے
لے کر اب تک دوسروں ممالک میں دہشت گردوں کی موجودگی کا جواز بنا کر امریکہ
نے پوری دنیا میں امن قائم کرنے کا بھدا ڈھونگ رچایا ہوا ہے اور اسی آڑ میں
افغانستان، فلپائن، عراق، شام، اور لیبیا میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے
کارندوں کی موجودگی جو کہ اصل میں امریکہ کی اپنی ہی منظم کردہ تنظیم ہے کو
سامنے رکھتے ہوئے ان ممالک پر دھاوا بول دیا اور آج بھی اسی منظم سازش کے
تحت امریکہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرتا پھر رہا ہے جس پر عالمی برادری
نے بھی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک مل
بیٹھ کر اسلامی ممالک میں امریکہ کی دراندازی اور بلا جواز جنگ گردی کو
روکنے کے لئے ٹھوس لائحہ عمل طے کریں اور عالمی سطح پر امریکہ کو عالمی
دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے سر جوڑ کر کوشش کریں تا کہ امریکہ کی اس نام
نہاد دہشت گردی کی جنگ کو لگام ڈالی جا سکے نہیں تو وہ وقت دور نہیں جب
امریکہ اسی طرح دہشت گردی کو جواز بنا کر ایک ایک کر کے تمام اسلامی ممالک
پر قابض ہو جائے گا اور پھر اسلامی ملکوں کے پاس سوائے ہاتھ ملنے کے کوئی
اور چارہ نہیں رہے گا۔
|