کافرستان میں چند روز۔۔۔۔عابد صدیق۔۔قسط نمبر 6

اگلی رات ہم رات گئے چترال شہر واپس پہنچے، جہاں ہم پہلے ٹھہرے تھے وہیں پر قیام کیا، دن بھر کی تھکاوٹ کے باعٖث جلد ہی سو گئے۔ اگلے دن ہم نے چترال شہر اور گرد و نواح کی جگہیں دیکھنی تھیں۔ صبح جلد بیداری حسب معمول ہوتی تھی، وہیں دو ”موٹے“ گروپ ممبران نے انگڑائیاں لیتے لیتے دو گھنٹے اور گزار لیے، یوں گیارہ بجے کے قریب ہم لوگوں نے سامان گاڑی میں رکھا اور گیسٹ ہاؤس کو خیر آباد کہہ دیا، کیونکہ اگلی رات ہمارا پڑاؤ دیرشہر تھا جہاں سے دوسرے روز ہم نے کمروٹ ویلی جانا تھا۔ ہوٹل سے نکلنے کے بعد ہم سیدھے ”کشمیر بیکرز اینڈ سویٹس“ کئے تاکہ پہلے دن کے میزبان محمد زاہد سے الوداعی ملاقات کی جا سکے۔ وہ اتنی آسانی سے ہمیں خیر آباد کہنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے ہم سے اس دن کی مصروفیات کا شیڈول پوچھا، پھر اپنے بیٹے مبشر کو بلایا اور ہمارے سا تھ بٹھا لیا۔ مبشر حال ہی میں پشاور سے بی ایس کر کے فارغ ہوا تھا۔ شکل و صورت سے اس قدر تیز لگ نہیں رہا تھا جتنا بعد میں ثابت ہوا۔ ایک تو وہ پشتو، چترالی، ہندکو، اردو اور پہاڑی یہ ساری ہی زبانیں روانی سے بولتا ہے، سیر و سیاحت اس کا شوق ہے اور چترال کی ثقافت، کلچر پر اسے خاص عبور حاصل ہے۔ وہ پورا دن بطور گائیڈ ہمارے ساتھ رہا۔ پہلے تو اس نے شہر کا چکر لگوایا پھر ہمیں اس قلعہ کی طرف لے گیا جو چترال کی ریاست کے مالکان کی اب بھی ملکیت ہے۔ قلعہ جانے سے پہلے ہم دریا کے کنارے اس ہوٹل پر گے جو ان ہی مالکان کی ملکیت ہے اور وہ بھی ایک تاریخی عمارت ہے۔ ”پامیر“ کے نام سے منسوب ہوٹل دریا کے کنارے واقع علاقے پر قائم ہے اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ ہوٹل کے عملہ نے ہمیں ”مسکراہٹ“ کے ساتھ خوش آمدید کہا (خوشدلی یا مسکراہٹ کا میں بار بار ذکر اس لیے کرتا ہوں کہ یہ چیز بشمول ہمارے بہت ساری جگہوں میں نایاب ہو چکی ہے)۔ مبشر نے ہوٹل عملہ کے ایک فرد سے قلعہ دیکھنے سے متعلق ہماری خواہشات سے آگاہ کیا جس نے 10 منٹ میں ہی انتظام کر کے قلعہ کے عملہ کو ہماری آمد اور قلعہ کے اندرونی حصہ کو دکھانے کے لئے کہا۔ ہم لوگ واپس قلعہ کی طرف آئے۔ مین گیٹ پر ہمیں پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑا کیونکہ قلعہ کا عملہ وہاں فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہوتا ہے اور جب مہمان قلعہ کی سیر کو جاتے ہیں تو خواتین کو قلعہ سے باہر دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے، یہ ایک تاریخی عمارت ہے، کئی سو کنال پھیلی اس عمارت کے باہر والی دیوار یں ایک خاص ترکیب سے پتھر، لکڑی اور مٹی سے تعمیر کی گئی ہیں، کئی سو سال پرانی اس عمارت کو قدرتی آفات سے مکمل طور پر محفوظ بنایا گیا ہے۔ قلعہ کا بیرونی دروازہ لکڑی کا بنایا گیا یہ لیکن اسے کھولنے اور بند کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ نے وقت پر پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو تب ہی اسے آرام سے کھولا جا سکتا ہے۔ ”شہزادہ فاتح الملک علی ناصر اس وقت چترال کے موجودہ علامتی”مہتر“ قلعہ سمیت چترال ریاست کی دیگر پراپرٹی کے مالک ہیں ۔ ان کو اپنے والد ہنر بائنس سیف الملوک ناصر مرحوم کے انتقال 8۱کتوبر2011ء کے بعد مہتر بنایا گیا۔ چترال شاہی قلعہ میں ایک روایتی دربار منعقد کیا گیا جس میں بیرونی مہمانوں خے علاوہ کٹور شاہی خاندان کے تقریبا تمام افرادشریک ہوئے۔ دربار میں شہزادہ خوش احمد الملک نے انہیں روایتی تلوار پیش کی اور پگڑی پہنائی، نیز دیگر روایتی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ ان کو علامتی طور پر مہتر چترال مقرر کیا گیا۔ شہزادہ فاتح الملک ناصر27نومبر1983 کو پیدا ہوئے انہوں نے بکنگھم یونیورسٹی لندن سے ایل ایل بی اور میامی یونیورسٹی امریکہ سے ایل ایل ایم کی ڈگریاں حاصل کیں۔ یہاں ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہیکہ 1969 ء کے بعد چترال انتظامی طور پر مکمل اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ ہے اور مالاکنڈ ڈویژن کا ایک ضلع ہے۔ ایسے میں یہاں مہتر مقرر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اصل میں چترال ایک تاریخی ریاست رہی ہے یہاں کٹور خاندان کی حکومت رہی ہے1919میں جنگ بریکوٹ کی کامیابی پر شجاع الملک اور ان کے خاندان کے بادشاہوں کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ ان کو ہنر بائنس کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ 1969 ء میں جب اس ریاست کا خاتمہ ہوا اور چترال کو ایک ضلع کا درجہ دیا گیا تو اس خاندان کے ساتھ حکومت پاکستان کا ایک معاہدہ ہوا۔ جس میں اس خاندان کی املاک کے تحفظ کے ساتھ ان کو کچھ ادائیگیوں کا معاہدہ بھی شامل تھا۔ اب حکومت پاکستان سے ان معاملات کو ڈیل کرنے کے لئے تاجپوشی کی روایت کو برقرار رکھا گیا“۔ (بحوالہ ریاست چترال کی تاریخ اور طرز حکمرانی از محمد یونس خالد)مہتر بہت کم اس قلعہ میں آتے ہیں وہ عام طور پر اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔چترال میں ان کی املاک کی دیکھ بھال کے لیے عملہ تعینات ہے جبکہ خاندان کے کچھ اور لوگوں کو بھی دیکھ بھال کا اختیار دیا گیا ہے۔قلعے کا بیرونی اور اندرونی حصہ از خود ایک تاریخ ہے۔کئی سو سال پہلے جب ٹیکنالوجی محدود تھی زیادہ تر کام ہاتھوں سے کیا گیا ہے۔اس قلعہ میں مہمان خانہ،جیل،لائبریری اور میوزیم کے علاوہ ایک وسیع و عریص ڈائنگ ہال بنا یا گیا تھا۔جہاں ایک زمانے میں بڑا کھانا دیا جاتا تھا جس میں خاندان کے لوگوں کے علاوہ دیگر امراء شریک ہوتے تھے۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن قدرے محدود پیمانے پرہے۔مہتر جب اس قلعہ میں آتے ہیں تو سنئیر شہری ان سے ملنے آتے ہیں۔قلعہ کے ساتھ ہی شہر کے وسط میں ایک تاریخی مسجد بھی ہے۔اس مسجد کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔سیاح جب بھی چترال آتے ہیں اس مسجد کو دیکھنے ضرور آتے ہیں۔اور نوافل ادا کرتے ہیں۔(جاری ہے)
 

Abid Siddique
About the Author: Abid Siddique Read More Articles by Abid Siddique: 34 Articles with 42535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.