کیلاش قبیلے میں جس طرح شادی کی رسم ادا کی جاتی ہے اسی
طرح موت پر بھی جشن منایا جاتا ہے۔اس قبیلے کا خیال ہے کہ جس طرح انسان
پیدا ہوتا ہے تو اس کی پیدائش یا دنیا میں آمد پر خوشی منائی جاتی ہے اس
طرح وہ جب اس دنیا سے جاتا ہے تو ہمیں اسی طرح جشن منانا چائیے۔چنانچہ اس
رسم کے تحت جب اس قبیلے میں کسی مرد،خاتون یا بچے کی موت واقع ہو جاتی ہے
تو اس کی میت کو کمیونٹی ہال یا جسے دوسرے لفظوں میں عبادت گاہ کہا جاتا ہے
وہاں رکھ دی جاتی ہے۔پوری کمیونٹی وہاں اگھٹی ہوتی ہے۔میت دو یا اس سے دن
بھی رکھی جاتی ہے۔کمیونٹی اپنا حصہ جنس کی شکل میں ڈالتی ہے۔ان دو دنوں میں
کم سے کم تیس یا چالیس بکرے ذبح کیے جاتے ہیں اور ساتھ بیل بھی۔سب مل کر
کھانا کھاتے ہیں۔جشن مناتے ہیں روایتی رقص کی محفل ہوتی ہے۔پھر جلوس کی شکل
میں میت کو قبرستان تک لے جایا جاتا ہے۔کیلاش قبیلے کے لیے علیحدہ سے
قبرستان بھی بنایا گیا ہے جہاں میت کی تدفین ہوتی ہے۔کچھ سال پہلے تک میت
کی تدفین نہیں ہوتی تھی۔میت کو تابوت میں رکھ کر کھلا چھوڑا جاتا تھا۔میت
کے ساتھ سگریٹ اور کرنسی نوٹ بھی تابوت میں چھوڑے جاتے تھے۔کئی عرصے تک
کمیونٹی کے لوگ میت کا دیدار کرتے رہتے تھے لیکن اب یہ طریقہ بدل دیا
ہے۔میت کو تابوت میں رکھ کر تدفین کر دی جاتی ہے جس طرح مسلمان کرتے
ہیں۔لیکن جس چارپائی پر جنازہ لے جایا جاتا ہے اسے اسی قبر پر رکھ دیا جاتا
ہے۔ بعد میں مرنے والے کے ورثاء میوزیم میں مرنے والے کی یاد میں لکڑی کا
ایک مجسمہ سے ہاتھ بناتے ہیں اس پر بھی لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔یہ
مجسمہ بعد میں میوزیم کی ہی ملکیت ہوتا ہے۔سیاح جب اس گاؤں میں جاتے ہیں تو
وہ اس قبرستان میں ضرور جاتے ہیں۔ہم نے بھی یہ ساری چیزیں خود دیکھی ہیں تو
یقین آیا ہے۔قبرستان میں کئی سو سال پرانے دیار کے درخت ہیں۔اس قدر قد آور
درخت پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ان درختوں کو بھی یہ قبیلہ مقدس سمجھتا ہے
لہذاانہیں کاٹا نہیں جاتا بلکہ حفاظت کی جاتی ہے۔ا س طرح کے درخت قبرستان
کے علاوہ اور جگہوں پربھی پائے جاتے ہیں جو تین تین سو سال پرانے بتائے
جاتے ہیں۔شادی اور موت کے علاوہ دیگر رسم و رواج بھی منفرد ہیں۔کیلاش قبیلے
میں اگر کوئی لڑکی حاملہ ہو جائے تو اسے آخری آیام میں گھر سے نکال دیا
جاتا ہے۔اس طرح خواتین کے مخصوص ایام میں بھی انہیں گھروں میں رہنے کی
اجازت نہیں ہوتی۔اس طرح کی خواتین کے لیے ایک علیحدہمرکز بنایا گیا ہے
جسے”بشالی“ کہا جاتا ہے۔اس مرکزمیں ہر طرح کی سہولیات ہوتی ہیں۔ایک وقت میں
درجن بھر خواتین کو یہاں رکھا جا سکتا ہے۔وہی بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔دیگر
خواتین ”مخصوص آیام“ کے دن بھی وہا ں پر ہی پورے کرتی ہیں۔ان خواتین کے لیے
کھانا اور دیگر روز مرہ کی اشیاء اپنے اپنے گھروں سے جاتی ہیں۔گھر کا جو
فرد یہ اشیاء بشمول کھانا لے کر مرکز میں جاتا ہے وہ مرکز میں ایک خاص جگہ
رکھ کر چلا جاتا ہے جہاں سے متعلقہ خواتین اٹھا کر لے جاتی ہیں۔کھانا لے
جانے والا مرد ہو یا عورت وہ کسی خاتون کو ہاتھ میں اس طرح نہیں پکڑا سکتے
کہ جس میں چھو جانے کا امکان ہو۔یہ جدید طرز کا مرکز ایک برطانوی غیر
سرکاری ادارے نے تعمیر کروا کر دیا ہے،اب اس کی دیکھ بھال کمیونٹی خود کرتی
ہے۔اس طرح کے مرکز کی تعمیر سے پہلے خواتین کو اپنے گھروں میں ہی ایک کمرے
میں علیحدہ کر دیا جاتا تھا لیکن یہ ایک مشکل کام تھا۔بیمار خواتین اکیلا
پن محسوس کرنے سے نفسیاتی مریضہ ہو جاتی تھیں کیونکہ اس دوران کئی ڈاکٹر
بھی چک نہیں کر سکتا تھا۔اب مرکز (بشالی)میں رہنے سے خواتین میں اکیلے پن
کا احساس نہیں رہتا۔صوبائی یا وفاقی حکومتیں اس علاقے کو کوئی زیادہ اہمیت
نہیں دیتی ہیں۔غربت یہاں ہے لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں۔سرکاری نوکریاں اس
قبیلے کے لیے نہ ہونے کے برابر ہیں۔خاص کر اب جو نئی نسل ہے وہ کاروبار کی
جانب زیادہ راغب ہو رہی ہے۔خواتین اس فیلڈ میں زیادہ آرہی ہیں کیونکہ کیلاش
مرد ویسے بھی کام کم ہی کرتے ہیں۔گھروں میں تیار کی جانے والی اشیاء گھروں
کے اندر اور بازار میں بھی فروخت کیا جاتا ہے جس سے انہیں خاصی آمدن ہوتی
ہے۔جانوروں کی فروخت کا میں نے پہلے ہی ذکر کیا ہے کہ مویشی بڑی تعداد میں
پالے جاتے ہیں اور پھر انہیں ان تہواروں میں ذاتی استعمال کے علاوہ فروغت
بھی کرتے ہیں جو ان کی کمائی کا بڑا ذریعہ بنتے ہیں۔ایک پرانی عمر کے بزرگ
نے بتایا کہ پہلے پہل ہم اخروٹ کا درخت گرویرکھ کر قرض لیتے تھے اب ایسا
نہیں کرتے۔اب وہاں پر ایک این جی او نے چھوٹے قرضے آسان شرائط پر دینے کا
کام شروع کیا ہے جو معمولی شرح منافع پر جاری کیے جاتے ہیں۔اس علاقے میں
مسلمان بھی کاروبار کرتے ہیں بلکہ درمیانی درجے کے بے شمار گیسٹ ہاؤسز ہیں
جو مسلمان ہی کرتے ہیں لیکن بھائی چارے کی فضاء کمال کی ہے۔اک دوسرے سے بے
حد تعاون کرتے ہیں۔کئی مسلمان اور کیلاش قبیلے کے لوگ مل کر گائیڈ کا کام
بھی کرتے ہیں۔یہ گائیڈ پاکستان بھر آنے والے سیاحوں کو اس علاقے کے جغرافیہ
اور تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں اور کلچر اور ثقافت سے متعلق بھی آگاہی دیتے
ہیں۔سیاحوں کو چترال کی مین شاہراہ سے وہاں تک پہنچنے میں جو بڑی رکاوٹ ہے
وہ ناہموار سڑک ہے۔مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ 2015 سے پہلے یہ سڑک قدرے ٹھیک
تھی لیکن سیلاب کی وجہ سے بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی بلکہ کئی جگہوں پر تو
بند ہی ہو گئی تھی پھر پاک آرمی نے اسے بحال کیا اور قابل استعمال بنایا۔ہم
لوگ مغرب کے وقت وہاں سے واپس چلے اور رات گئے واپس چترال پہنچے۔(جاری ہے)
|