بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سعودی عرب کاقومی دن ہر سال 23ستمبر کو منایا جاتا ہے اوردنیا بھر کے مسلم
ملکوں میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔امسال بھی اس دن کی مناسبت سے
مسلم خطوں و علاقوں میں سرزمین حرمین شریفین کی سلامتی واستحکام کیلئے
خصوصی دعائیں کی جائیں گی۔ اس سلسلہ میں سفارت خانوں میں خاص طور پر ہر سال
پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات چونکہ
شروع دن سے انتہائی مضبوط اور مستحکم رہے ہیں اس لئے وطن عزیز پاکستان کا
ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا
کیوں نہ ہو سرزمین حرمین الشریفین کیلئے ہمیشہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے
دعائیں کرتا ہے اور سعودی عرب کا نام سنتے ہی محبت، اخوت اور ایثارو قربانی
کا جذبہ اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگتا ہے۔پاک سعودی تعلقات اگرچہ ابتدا سے
ہی خوشگوار رہے ہیں لیکن شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت زیادہ فروغ
ملا‘انہوں نے پاکستان سے تعلقات بڑھانے اور صرف دونوں ملکوں کو قریب کرنے
کیلئے ہی نہیں پوری امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے زبردست کوششیں کیں جس پر دنیا
بھر کے مسلمان انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورسبھی مسلم حکمرانوں کو
ان جیسا کردار ادا کرنے میں کوشاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب ان چند
ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ ہرمسئلہ پر کھل کر پاکستان کے موقف کی
تائید و حمایت کی ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران سعودی عرب نے
پاکستان کی وسیع پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ
پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے
اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا
بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی
تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی
تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام
برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کردیا گیا اور ان کی جگہ
پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے
شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب
سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔
شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب زدگان کی کھل کر
مالی امداد کی، دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے
لیے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی وطن عزیز سے
علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم
کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔شاہ فیصل کی وفات کے بعد بھی
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔ خادم الحرمین
الشریفین شاہ عبداﷲ پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا بھرپور استقبال
کیا جس سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہاکہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر
سمجھتے ہیں۔2005ء میں آزاد کشمیر و سرحد کے خوفناک زلزلہ ،2010ء اور اس کے
بعد آنے والے سیلابوں کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی
بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا او ر روزانہ کی بنیاد پر
امدادی طیارے پاکستان کی سرزمین پر اترتے رہے ۔ چند برس قبل سوات میں جب
دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کیا گیا تو کئی سکول تباہی سے دوچار ہو گئے ۔
سعودی عرب نے یہاں 23ملین ڈالر کی خطیر رقم سے تباہ شدہ اسکول دوبارہ بحال
کئے اور طلباء کو واپس ان تعلیمی اداروں میں آکر تعلیم حاصل کرنے کا موقع
مل رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بحال کئے گئے ان سکولوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر
وائرل ہوئی تو اسے دنیا بھر میں بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ خادم الحرمین
شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکی خصوصی ہدایات پر سعودی ترقیاتی فنڈ کی
جانب سے یہ تمام اخراجات کئے گئے۔ اسی طرح شمالی علاقہ جات کے مختلف علاقوں
میں وقتا فوقتا سیلابی ریلوں کی وجہ سے کئی پل ٹوٹ گئے جنہیں سعودی عرب کی
طرف سے بڑی مالیت خرچ کر کے تعمیر کروایا گیا ہے۔حالیہ برسوں میں جب
پاکستان بہت زیادہ مالی مشکلات سے دوچار ہوا تو سعودی عرب کی طرف سے ہماری
ملکی معیشت مستحکم رکھنے کیلئے مختلف اوقات میں پاکستان کو اربوں ڈالرز دیے
گئے ، تیل فراہم کیا گیا اور بڑے پیمانے پر پاکستان میں سرمایہ کاری کے
معاہدے کئے گئے۔ برادر اسلامی ملک کا یہی وہ بے لوث تعاون ہے جس کی وجہ سے
اسلام پسند اور محب وطن حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی اخوت
پر مبنی کردارسے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگا ہ کیا جائے اور اس کیلئے وہ
اپنا کردار بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔ وطن عزیزپاکستان اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم
سے ایٹمی قوت ہے۔جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنا تھے اور امریکہ ویورپ
سمیت پوری دنیا کا دباؤ تھا کہ پاکستانی حکومت ایٹمی دھماکوں سے باز رہے۔اس
مقصد کے تحت دھمکیاں بھی دی گئیں اور لالچ بھی دیے جاتے رہے۔ یہ انتہائی
مشکل ترین صورتحال تھی مگر ان حالات میں بھی سعودی عرب نے اس وقت کی حکومت
کا حوصلہ بڑھایا اور اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اس طرح اگر
یہ کہاجائے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں میں سعودی عرب کابھی بہت بڑا کردار
ہے تو یہ بات غلط نہ ہو گی۔ یہ ساری رپورٹ سعودی اخبار المدینہ میں تفصیل
سے شائع ہو چکی ہے۔
سعودی عرب کو اﷲ تعالیٰ نے تیل کے ذخائرکی دولت سے نواز رکھا ہے ۔اسلامی
ممالک کے مسائل حل کرنے کے لیے اقتصادیات، تعلیم اور دوسرے موضوعات پر
ماہرین کی عالمی کانفرنسیں طلب کرنے جیسے اقدامات کر کے سعودی عرب کی ہمیشہ
یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مسائل بہتر طور پر سمجھ سکیں اور انہیں
حل کرنے کے لیے مشترکہ طریق کار طے کرسکیں۔ سعودی عرب کی مالی امداد سے
دنیا بھرمیں اسلام کی تبلیغ کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔سعودی عرب میں
مختلف اسلامی ممالک سے جو طلباء تعلیم کی غرض سے آتے ہیں انہیں نہ صرف مفت
کتابیں و رہائش فراہم کی جاتی ہے بلکہ انہیں 800سعودی ریال وظیفہ بھی دیا
جاتا ہے۔ حج کیلئے لاکھوں مردوخواتین میں ان کی مادری زبانوں میں قرآن پاک
اور دیگر اسلامی لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں کتاب و سنت کی
دعوت جس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے اس میں سعودی عرب کا کردار کلیدی نوعیت
کاہے۔ تعلیم اور صحت کے منصوبوں پر سعودی حکومت بے پناہ خرچ کرتی ہے۔ مسلم
ملکوں کو درپیش فتنہ تکفیر اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے بھی سعودی عرب پیش
پیش ہے اور پاکستان و سعودی عرب مل کر اس فتنہ پر قابو پانے کی کوششیں
کررہے ہیں۔ سعودی عرب کی زیر قیادت 41مسلم ملکی اتحاد کے قیام کے بعد خاص
طور پر مسلمانوں کا دینی مرکز سعودی عرب مسلم امہ کی قیادت کرتا دکھائی
دیتا ہے۔ اس اتحاد کابہت بڑا مقصدایسے تکفیری گروہ جو مسلمانوں پر کفر کے
فتوے لگا کر مسلم معاشروں میں قتل و غارت گری پھیلارہے ہیں‘ ان کی دہشت
گردی ختم کرنا ہے اور یہ اس وقت کابہت بڑا مسئلہ ہے۔ مسلمان ملکوں کو
بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات درپیش ہیں اور دہشت گردی کا یہی و ہ فتنہ ہے
جو پوری مسلم امہ کو اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب
خاص طورپر اندرونی دہشت گردی کا شکاررہے ہیں۔پاکستان کو چونکہ آپریشن ضرب
عضب میں زبردست کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اس لئے سب مسلمان ملکوں کی جانب سے
وطن عزیز پاکستان کی اس اتحاد میں شمولیت پر خوشی محسوس کی گئی ہے۔پاکستان
اور سعودی عرب کے مابین گہرے اور دیرینہ تعلقات ہیں جو ہمیشہ قائم و دائم
رہیں گے ۔پاکستان اور سعودی عرب کی سیاسی و عسکری قیادت کے اہم فیصلوں سے
جہاں دہشت گردی ختم کرنے کیلئے کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہیں تمام مسلمان
ملکوں کے مابین اتحاد ویکجہتی کیلئے کی جانے والی کوششیں بھی اﷲ کے فضل و
کرم سے ثمر آور ثابت ہو رہی ہیں۔
ٍ
وزیر اعظم عمران خان نے چند دن قبل سعودی عرب کا انتہائی اہم دورہ کیا اور
خادم الحر مین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز، ولی عہد محمد بن سلمان اور
دیگر سعودی حکام سے خصوصی ملاقاتیں کی ہیں۔ عمران خان نے سعودی حکام سے
ملاقاتوں کے دوران حال ہی میں سعودی عرب میں تیل سپلائی کرنے والی آرامکو
کمپنی کی تنصیبات پر حملوں کی شدید مذمت کی اور واضح طور پر کہا کہ پاکستان
مشکل کی گھڑی میں برادر ملک کے ساتھ ہے اور اس کی سلامتی کا تحفظ کیا جائے
گا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یو این اجلاس میں شرکت سے قبل میں چاہتا تھا
کہ سعودی عرب کو کشمیر سے متعلق حقیقی صورتحال سے آگاہ کیا جائے۔ملاقاتوں
کے دوران برادر ملک سعودی عرب کی طرف سے بھی یقین دہانی کروائی گئی کہ وہ
ہمیشہ کی طرح اب بھی پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور مظلوموں کی مدد کیلئے
برادر ملک کسی طور پیچھے نہیں رہے گا۔ سعودی عرب کے پاکستان میں موجودہ
سفیرنواف بن سعید المالکی اور میڈیا سیکشن کے انچارج علی خالد الدوسری اس
وقت انتہائی متحرک شخصیت کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کی کاوشوں سے پاک
سعودی تعلقات دن بدن مزید مضبوط ہو رہے ہیں اور ان کے مابین باہمی تعلق
مزید پختہ ہو رہا ہے۔ موجودہ سعودی سفیر بہت خوبصورت انداز میں دونوں ملکوں
کے مابین برادرانہ تعلقات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔نواف بن سعید المالکی
پاکستان میں ملٹری اتاشی کے طور پر گرانقدر خدمات سر انجام دے چکے ہیں اس
لئے وہ حکمرانوں سے لیکر سیاسی و مذہبی جماعتوں اور عوام کے مزاج کو بخوبی
سمجھتے ہیں۔ سفارتی حلقوں میں ان کی پہچان ایک سنجیدہ طبع اور نفیس شخصیت
کے طور پر ہے۔ جن لوگوں کو انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ یہ بات
تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک سفیر اور سعودی
عرب جیسے اسلامی ملک کے نمائندہ میں ہونی چاہئیں۔اس لئے یہ بات یقین سے کہی
جاسکتی ہے کہ اسلام آباد میں ان کی موجودگی سے پاک سعودی تعلقات تعلقات
مستقبل میں اورزیادہ پختہ و مضبوط ہوں گے۔سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر
اسلام آباد میں تعینات سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے اپنے پیغام میں
کہا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتا ہے اور ہر مشکل وقت
میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ سعودی عرب پاکستان کی اقتصادی ترقی کا
بھی خواہاں ہے اور سی پیک منصوبہ کی مکمل حمایت کرتا ہے جو ان شاء اﷲ پورے
خطہ میں اقتصادی استحکام لیکر آئے گا۔مملکت سعودی عرب پاکستان کی سعودی
ویژن 2030منصوبہ میں شرکت کا خواہشمند ہے اور اس منصوبہ کے مقاصد کے حصول
کی خاطر تمام شعبوں میں باہمی اشتراک عمل کا حامی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
اکتالیس ملکی اتحادکسی کیخلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے بنایا
گیا ہے۔ سعودی سفیر کے پیغام میں پاکستان کیلئے جن نیک خواہشات کا اظہا
رکیا گیا ہے ہم اس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔اسی طرح ہم سعودی عرب
کے قومی دن کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان
بن عبدالعزیزاور پوری سعودی قوم کو مبارکبادپیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں
کہ اﷲ تعالیٰ سعودی عرب کو اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں سے محفوظ ومامون
رکھے اور دین اسلام کی سربلندی اور کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت کیلئے
قائدانہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
|