صدا بصحرا (پروفیسر مظہر)
جینا آرزوؤں کے زندہ رہنے کا نام مگر ہماری آرزوئیں دم توڑ چکیں، خواہشوں
کی جھلمل اور ہونٹوں کی مسکان کو ’’نیا پاکستان‘‘ نگل چکا۔ منصورِ حقیقت
سرِدار مگر کوئی دیکھنے والا نہ سننے والا، سبھی اپنے ممدوح کی مدح میں
مصروف اور جمہوری روایات سے بے بہرہ ممدوح جس میں ذہنی وفکری گہرائی نہ
گیرائی، بس ضد، انا، خودپرستی وخودنمائی۔حدوں کو توڑتی نرگسیت ایسی کہ
اظہار کے سارے سلیقے اور قرینے بھول چکے۔ ایک طرف سہانے سپنوں کی تعبیرِ
معکوس دوسری طرف یہ ذہنی خلجان کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ ہماری سیاسی
وسماجی اور پارلیمانی روایات میں مخالفین کا احترام لازم لیکن نئے پاکستان
کے دعویداروں نے اِس پر بھی یوٹرن لے لیا۔ وزیرِاعظم ’’ہم تیری ہی عبادت
کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ سے اپنا ہر خطاب شروع کرتے ہیں لیکن
شاید اُنہیں رَب کا یہ فرمان یاد نہیں رہتا ’’آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ
کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو‘‘ (الحجرات)۔ وہ پاکستان میں
ہوں یا غیرملکی دورے پر، اُن کی ہر تقریر میں چور چور، ڈاکو ڈاکو کی تکرار
اور تقریر کا لبِ لباب ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘۔ اُن کا لب ولہجہ اجتماعی
بحران اور ارتعاش پیدا کرتا ہوا۔
واشنگٹن میں، جہاں ساری دنیا کے صحافی اکٹھے تھے، خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم
نے فرمایا ’’میں واپس جا کر نوازشریف سے اے سی واپس لے لوں گا اور گھر کا
کھانا بند کروا دوں گا‘‘۔ اُن کے یہ الفاظ اُس شخص کے بارے میں تھے جو تین
بار ملک کا وزیرِاعظم رہ چکا۔ جسے محض ایک اقامے پر گھر بھیج دیا گیا۔ جسے
ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے سزا سنائی تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے
سزا معطل کر دی۔ العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے جج کی ویڈیو منظرِعام
پر جس میں جج اقرار کر رہا ہے کہ اُس نے دباؤ میں آکر فیصلہ دیا۔ میاں
نوازشریف کے دل میں قانون کا اتنا احترام کہ وہ دیارِ غیر میں اپنی اہلیہ
کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر سزا بھگتنے واپس چلا آیا۔ اُس نے کہا ’’ایک طرف
اپنی رفیقۂ حیات کے ساتھ میرا قلبی اور جذباتی رشتہ تھا دوسری طرف میں کسی
قیمت پر یہ تاثر نہیں دینا چاہتا تھا کہ میں سزا اور جیل سے بچنے کے لیے
کوئی بہانہ تلاش کر رہا ہوں۔ میں نے دوسرے راستے کو چنا۔ یہ ہماری تاریخ کی
واحد مثال ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کا بازو تھامے لمبی قید کاٹنے واپس
آگیا ہو‘‘۔ وزیرِاعظم نے اُس شخص سے اے سی واپس لینے کی بات کی جس کی تین
بار اوپن ہارٹ سرجری ہوچکی، جو شوگر اور گردوں کا مریض ہے اور جس کے بارے
میں خود حکومتی تشکیل شدہ پینل کے ڈاکٹروں کی یہ رائے کہ اُس کی زندگی کے
لیے اُس کا شدید گرمی اور حبس سے بچنالازم۔ یہ اُس شخص کے بارے میں کہا گیا
جس نے تمامتر دباؤ کے باوجود ایٹمی دھماکہ کیا، گیارہ ہزار میگاواٹ بجلی
پیدا کی، ہزاروں کلومیٹر سڑکیں بنائیں اور گیم چینجر سی پیک کی بنیاد رکھی۔
تب عالمی ماہرینِ اقتصادیات کہہ رہے تھے کہ پاکستان ایٹمی قوت کے ساتھ ہی
ساتھ اقتصادی قوت بھی بننے جا رہا ہے۔ یہ اُس شخص کے بارے میں کہا گیا جو
اخلاقیات کے سارے قرینے جانتا ہے۔ بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو میاں صاحب
اپنی انتخابی کمپین بند کرکے گڑھی خدا بخش پہنچ گئے۔ عمران خاں زخمی ہوئے
تو انتخابی کمپین ادھوری چھوڑ کر عیادت کے لیے شوکت خانم ہسپتال پہنچ گئے۔
یہ وہی ہسپتال ہے جس کی زمین اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ میاں نوازشریف نے الاٹ
کی اور خود نیازی صاحب نے تسلیم کیا کہ میاں خاندان نے پچاس کروڑ روپیہ بھی
عطیہ کیا۔ اُسی وزیرِاعظم سے اے سی کی واپسی کا اعلان اور وہ بھی دیارِ غیر
میں مجمعٔ عام کے سامنے۔
وزیرِاعظم کے حواری اُن سے بھی چار قدم آگے، تکذیب و تکفیرکے عادی، پگڑیاں
اچھالنے میں یکتا۔ جگت بازی اور انتہائی غیرپارلیمانی زبان استعمال کرنے
والے ایک ہی ’’چھتری‘‘ کے نیچے۔ ڈال ڈال، پات پات پھدکنے والوں کا ایسا
ہجوم جو ’’قابلِ فروخت‘‘ کا اشتہار سینوں پر سجائے ہوئے۔ جَلاوطنی کاٹنے کے
بعد وطن لوٹنے والے میاں نوازشریف نے اَز راہِ تفنن کہا ’’لوگ کہتے تھے قدم
بڑھاؤ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو پیچھے
کوئی بھی نہ تھا‘‘۔ لکھ کے رکھ لیجئے کہ بھان متی کا یہ کنبہ نیازی صاحب کے
ساتھ بھی یہی سلوک کرے گا، جب وہ اقتدار میں نہ ہوئے۔ پارلیمنٹ بہ مثل
بازیجۂ اطفال، باہم جوتم پیزار۔ کاروبارِ حکومت مفلوج، معیشت میں جمود اور
عالم یہ کہ ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘۔ سادگی، احتساب اور
ریاستِ مدینہ، سب ڈرامے۔ قوم کی غالب اکثریت سمجھ چکی کہ حالات کا سدھار
اِن ’’کٹھ پتلیوں‘‘ کے بس کا روگ نہیں۔ لمحۂ فکریہ اُن کے لیے جن کے ہاتھ
میں اِن کٹھ پتلیوں کی ڈور۔ سوال مگر یہ کہ اِس عالمِ افراتفری میں کشمیر
کی بیٹی کے سر پر ردا کون رکھے گا؟۔
کشمیر پر پارلیمنٹیرین کانفرنس میں آزادکشمیر کے وزیرِاعظم راجہ فاروق حیدر
کی آواز کے زیروبم سے عیاں تھا کہ اُن کے اندر جذبات کا طوفان موجزن اور
آنسو بہہ نکلنے کو بیتاب۔ اُنہوں نے بھرائی ہوئے آواز میں کہا ’’سری نگر کی
بیٹیاں صبح اُٹھ کر کھڑکیاں دروازے کھول کر پوچھتی ہیں کہ کیا پاکستانی فوج
آگئی ہے؟‘‘۔ اُنہوں نے حکمرانوں سے سوال کیا ’’کیا آپ آخری کشمیری کے مرنے
کا انتظار کر رہے ہیں؟۔ یاد رکھیں اگر آتشِ چنار بجھ گئی تو کشمیر کے بچے،
بوڑھے آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کا
وقت گزر چکا، اب عملی اقدامات کا وقت ہے ‘‘۔ ایک انٹرویو میں آزادکشمیر کے
صدر مسعود خاں نے کہا ’’مقبوضہ کشمیر پر حملہ دراصل پاکستان پر حملہ ہے۔ ہم
حالتِ جنگ میں ہیں، اب ہمیں پاکستان اور کشمیر کا دفاع کرنا ہے‘‘۔ لیکن
طرفہ تماشہ یہ کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو ہضم کر چکا اور ہم ’’اب کے مار‘‘
کی پالیسی اپنائے ہوئے۔ وزیرِاعظم کہہ رہے ہیں کہ اب اگر بھارت نے جارحیت
کی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ کیا قوم بھارتی جارحیت بھول جائے؟۔ کیا
کشمیر کا اُس وقت یہی حل آپ کے مدِنظر تھا جب آپ نے کہا تھا ’’مودی جیت گیا
تو مسٔلہ کشمیر حل ہو جائے گا‘‘۔ بھارت مگر اب آزاد کشمیر پرنظریں جمائے
ہوئے۔ بھارتی وزیرِخارجہ سبرامینم جے شنکر نے کہا ’’توقع ہے کہ ایک دن
پاکستانی مقبوضہ کشمیر ہمارے زیرِ اختیار ہوگا‘‘۔ آرٹیکل 370 اور 35-A کے
خاتمے کے بعد بھارتی وزیرِدفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا ’’اب پاکستان سے
مذاکرات ہوں گے تو صرف پاکستانی مقبوضہ کشمیر پر‘‘۔ اکھنڈ بھارت کا خواب
دیکھنے والے آر ایس ایس کا نمائندہ نریندر مودی اور اُس کے حواری عالمی
رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے تگ ودَو میں مصروف لیکن ہمارے ہاں
اتحاد ویکجہتی مفقود۔ عین اُس وقت جب کشمیر پر پارلیمنٹیرین کانفرنس کا
انعقاد ہو رہا تھا، نیب نے پیپلزپارٹی کے سیّد خورشید شاہ کو گرفتار کر لیا
جس پر پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے کانفرنس کا بائیکارٹ کر دیا۔ اِس سے پہلے
مریم نواز کے گرد نیب کا شکنجہ اُس وقت کسا گیا جب اُس نے مظفرآباد میں
کشمیر پر ریلی نکالنے کا اعلان کیا۔ ایم کیو ایم کے فروغ نسیم (وزیرِقانون)
نے آرٹیکل 149 کا شوشہ چھوڑ کر پیپلزپارٹی کے اندر اضطراب کی لہریں پیدا
کیں۔ سندھ کے وزیرِاعلیٰ مراد علی شاہ کو نیب نے طلب کر رکھا ہے، حکومتی
حلقے کہتے ہیں کہ اُنہیں بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔ عقیل وفہیم اہل الرائے
فیصلہ کریں کہ مورخ حکومت اور چیئرمین نیب کی اِس’’ مِلّی بھگت‘‘ کے بارے
میں کیا لکھے گا؟۔
مظفرآباد کے جلسے میں وزیرِاعظم نے فرمایا ’’کسی نے اُن کی طرح مسٔلہ کشمیر
نہیں اٹھایا تھا‘‘۔ صاحب! دعائیں دیں مودی کو جس کی حماقتوں سے کشمیر کا
مسٔلہ ایک دفعہ پھر ابھر کر سامنے آگیا وگرنہ اپنے ایک سالہ دورِ حکومت میں
آپ نے کب کشمیر کی بات کی تھی۔ آپ نے کہا ’’بھارت مقبوضہ کشمیر میں بری طرح
پھنسا ہوا ہے۔ رہی سہی کسر میں جنرل اسمبلی میں نکال دوں گا‘‘۔ عرض ہے کہ
جنرل اسمبلی میں پاکستان کے ہر سربراہ نے مقبوضہ کشمیر پر بھرپور آواز
اٹھائی لیکن اقوامِ عالم کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، اب آپ کون سا ہمالیہ
سَر کرکے لوٹنے والے ہیں؟۔ رہی کشمیر کی بات تو کشمیر کی تحریک اب اُن ساٹھ
فیصد نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو ظلم وجبر اور وحشت وبربریت کے مناظر دیکھ
دیکھ کر جوان ہوئے ہیں۔ یہ نسلِ نَو ’’ابھی یا کبھی نہیں‘‘ پر عمل پیرا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کرفیو کے باوجود مزاحمتی تحریک جاری ہے۔ 8 جولائی 2016ء کو
برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد جھوم کے اُٹھنے والے دریاؤں کے سامنے
لازمۂ انسانیت سے تہی مودی کا ہر حربہ ان شاء اﷲ ناکام ہوگا۔ دسمبر 2016ء
میں آزادکشمیر کے صدر محترم مسعود خاں نے ہمارے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا
’’جو جوان شہید ہو رہے ہیں اُن کے جنازے پاکستانی پرچم میں لپیٹے جا رہے
ہیں۔ انقلاب کا رنگ گہرا سبز ہے جو پاکستانی پرچم کی علامت ہے۔ وہ ایک قسم
کا اشارہ دے رہے ہیں کہ ہم تو مقید ومحبوس ہیں لیکن آپ تو آزاد ہیں‘‘۔
محترم! ہم کب آزاد ہیں۔ ہم تو ٹھہرے غلام ابنِ غلام جن کا کہا صدا بصحرا۔
|