ملک کا ایک میڈیا گروپ ایک عرصہ سے ”امن کی
آشا“ کا راگ الاپتے ہوئے ناممکن کو ممکن میں تبدیل کرنے کی سعی ناکام میں
مصروف ہے اور یہ جدوجہد پاکستان کے ورلڈ کپ کرکٹ دوہزار گیارہ کے سیمی
فائنل میں بھارت کے مد مقابل ہونے کی خبر کے ساتھ ہی ایک بار پھر تیز ہوتی
دکھائی دی ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات یقینی طور پر منافع بخش ہی
ہوتے ہیں لیکن جب ان تعلقات میں منافقت کا عنصر شامل ہوجائے تو ”آشا“ کے
”نراشا“ میں بدلتے کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی لیکن شاید یہ بات بھارت کے ساتھ
دوستی اور تعلقات کو معمول پر لانے والوں کی سمجھ میں نہیں آرہی اور وہ
مسلسل ایک اینٹ کی مسجد بنائے اپنے تیئیں”اذان مجاہد“ دینے میں جتا ہوا
ہے۔ممکن ہے سرحد کے اس پار بیٹھے ہمارے ان دوستوں کو ”زیر پوائنٹ“ کے پار
جانے کا موقع نہ ملا ہو اور وہ اپنی سنی سنائی معلومات ہی کے بل بوتے پر
واہگہ کے اس پار سب شانت ہی دیکھ رہے ہوں لیکن جو احباب بھارت یاترا کر چکے
ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہاں غیر ملکیوں خصوصاً پاکستانیوں کو کون کون
سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ واہگہ بارڈر عبور کرتے ہی اٹاری سے قبل ”
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں آپ کو خوش آمدید“ کا بورڈ تو آویزاں
ہے لیکن سرحدی حدود سے لیکر اس پار کے کسی بھی شہر تک پہنچنے کے لئے ایک
پاکستانی کو کس طرح کا پل صراط عبور کرنا پڑھتا ہے دو مرتبہ خود ہم پر بھی
آشکار ہوچکا ہے۔سفارتی اور سفری دستاویزات تو خیر ثانوی سے بات ہے امن کی
آشا لے کر اس پار جانے والوں کو جب نراشا گھیرتی ہے تو چھٹی کا دودھ تک یاد
دلا دیتی ہے۔
پاکستان کے بھارت نواز طبقے تمام سابقہ پاک بھارت تنازعات کا ذمہ دار
پاکستان کو قرار دے کر بھارت کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی پالیسی اپنانے پر زور
دیتے ہیں اور انہی”غلطیوں“ کے ازالے کو بنیاد بناکرامن کا راگ الاپنے بھارت
کا رخ کرتے ہیں لیکن سرحد پار پہنچتے ہی تمام سپنے اور خوش فہمیاں اسی طرح
جھاگ ہوجاتی ہیں جس طرح بھارت کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے۔
ہمارے ملک کے بعض دانشور بھارتی ہٹ دھرمی سے آگاہی اور تضحیک آمیز رویوں کا
سامنا کرنے کے باوجود ہمیشہ ہی سے اپنی ڈگر پر قائم ہیں اور کبھی بیک ڈور
تو کبھی کرکٹ ڈپلومیسی کے نام پر اپنی خواہشات کی تسکین کا سامان کرتے ہیں
اور یہی سلسلہ ایک روز بعد(بدھ کو) موہالی میں لگنے والے میدان سے پہلے
عروج پر پہنچ گیا ہے لیکن کھیل میں بھی ڈپلومیسی تلاش کرنے والے ہر معاملے
میں تعصب دکھانے والے بھارت کی جانب سے پاکستان کو دنیائے کرکٹ میں تنہا
کرنے کی سازشوں پر ایک ضرور ڈال لیں کیونکہ ابھی نہ تو بھارت کی جانب سے
دہشتگردانہ دھمکیوں کو زیادہ دن گزرے ہیں اور نہ ہی ممبئی حملوں کی
پاکستانی تحقیقات کے نتائج ہماری یادداشتوں سے محو ہوئے ہیں جبکہ اپنے
شمالی علاقوں اور آئے روز ہونے والی بدامنی کی وارداتوں میں بھارت کے ملوث
ہونے بارے بھی اب کوئی شبہ باقی نہیں رہا لیکن کرکٹ ڈپلومیسی کا شور مچانے
والوں کو ہم تھوڑا سا پیچھے لے جانا چاہیں گے تاکہ صورتحال سمجھنے میں
آسانی رہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو دنیا بھر میں شدت پسندی کا”تمغہ“ دیا جارہا
تھا بھارت نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی ٹھانی ۔ نائن الیون کے بعد
جوں جوں حالات مشکل ہوتے گئے وہ ممالک جو پاکستان کو ہر لحاظ سے کمزور کرنا
چاہتے تھے، انہوں نے اپنی اپنی ٹیموں کو پاکستان آنے سے بالکل ہی منع کر
دیا جن میں بھارت سرفہرست تھا ۔ ممبئی ڈرامے کے بعد، سری لنکا کی کرکٹ ٹیم
کی پاکستان آمد در اصل سری لنکا کی طرف سے پاکستان کی تنہائیوں میں اسکی
ایک ہمت افزائی اور ڈپلومیٹک تعاون کے مصداق تھا۔ یہ موقع تھا جب پاکستان
اپنے کھیل کے میدانوں کو دہشت گردی سے آزاد ہونے کا اعلان کر سکتا تھا ،
یہی نہیں ، بلکہ اس سے دنیا بھر میں پاکستان کے وقار کو بلند کرنے کا موقع
بھی میسر آنے والا تھا اور قوم کے اصل رجحانات سے بیرونی دنیا کو آگاہ کرنا
بھی ممکن تھا لیکن ”را“ کو ہماری ممکنہ کامیابی کھٹکنے لگی اور اس سے تعصب
کی انتہا کرتے ہوئے ہمارے معزز مہمانوں کو نشانہ بنا ڈالا جس کے بعد جو ہوا
وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں اور یہ بھی اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم ورلڈ کپ کی
میزبانی سے بھی محروم رہ گئے۔ پاکستانی ٹیم کی حالیہ کامیابیوں نے بڑی حد
تک عالمی غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے اور اطلاعات کے مطابق کرکٹ کی جاری
عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد سری لنکا پھر دورہ پاکستان پر رضامند ہوگئی ہے
جو یقینی طور پر قابل ستائش جذبہ ہے لیکن بدقسمتی دیکھیئے کہ ہم اس کو
سراہنے کے بجائے اپنی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں سے تعلقات کا شور مچائے
جارہے ہیں ۔
بہت سوں کو بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی صدر آصف علی زرداری اور
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو پاک بھارت سیمی فائنل دیکھنے کی دعوت بھی
نہیں ٹکنے دے رہی اور وہ اس دعوت کو بھی بڑا”بریک تھرو“ قرار دیتے ہوئے
کرکٹ ہی کو خطے میں قیام امن اور تعلقات کی بحالی کا پیش خیمہ گردان رہے
ہیں۔ اس حوالے سے بھی ذرا سا پیچھے جائیں تو کرکٹ کو امن کی ضمانت کے طور
پر سب سے پہلے سابق صدر ضیا الحق نے استعمال کیا تھا لیکن و ہ چاہتے ہوئے
بھی بھارت کے ساتھ رفاقت کی خواہش کو پروان نہ چڑھا سکے۔بن بلائے مہمان بن
کر ضیا الحق کا ہندوستان کرکٹ میچ دیکھنے چلا جانا، خود بھارت کے لئے ایسا
مشکل مر حلہ تھا، جہاں بھارتی قیادت کسی طور بھی یہ نہ کہہ سکی کہ ضیا الحق
کوئی بھارت دشمن پروگرام کو پروان چڑھا رہا ہے۔ بھارت جہاں مذاکرات کے
دروازے بند کرنا چاہتا تھا، وہاں اسکی قیادت کو با دل نخواستہ پاکستانی صدر
کو اپنی دھرتی پر خوش آمدید کہنا پڑا۔ اس کرکٹ ڈپلومیسی سے وقتی طور پر تو
پاکستان نے ایک دوست مزاج قوم کا تصور دنیا بھر کے سامنے تسلیم کرایا جبکہ
ساتھ ہی ہندوستان کو الزام تراشی کے سلسلہ میں محدود کر دیا لیکن اندرا
گاندھی اور صدر ضیاءالحق کی اموات کے بعد ہندوستان نے یکدم ایسی چھوڑی کہ
دنیا دیکھتی رہ گئی۔
بھارت ایک طرف تو امن پسند ہونے کا داعی ہے اور دوسری طرف ممبئی حملوں کے
بعد سے کرکٹ جیسے بے ضرر کھیل سے اجتناب کر رہا ہے۔ خطے کے عوام امن کی آشا
کر رہے ہیں اور بھارت کی حکومت بیک وقت پاکستان اور چین سے لڑنے کے لیے
تیار بیٹھی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ بھارت کے مذموم عزائم سے پردہ اٹھتا
جا رہا ہے۔جبکہ بھارت کی بلوچستان اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے مداخلت، ممبئی
حملوں کے الزام کی آڑ میں پاکستان پر حملے کی خواہش ، تعلقات معمول پر لانے
سے انکار، کرکٹ کھیلنے سے انکار یہ سب ایک ہی سازش کے تانے بانے ہیں۔ باہمی
تعلقات کو معمول پر لانے میں ہمیشہ ہی پاکستان کے بجائے بھارت کی ہٹ دھرمی
آڑے آتی ہے اور یہ سلسلہ کرکٹ میں بھی اسی شدت کے ساتھ جاری ہے جس شدت کے
ساتھ سیاسی یا سفارتی سطح پر بھارت پاکستان مخالف پروپیگنڈہ۔ پاکستان کے
شدت پسند مذہبی عناصر کا حکومت میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ
بھارتی حکومت شیو سینا کی مرضی کے خلاف نہیں چل سکتی،حکومت ہی کیا بھارت کے
متمول طبقے اور غیر مذہبی عناصر بھی شیو سینا کے احکامات کے سامنے سرنگوں
کرنے میں عار نہیں سمجھتے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت آئی پی ایل کی نیلامی میں
پاکستانی کھلاڑیوں کی تذلیل ہے۔ آئی پی ایل کی نیلامی میں پاکستانی
کھلاڑیوں سے اچھوتوں جیسا سلوک ہوا۔ بھارت کے روشن خیال اداکاروں اور
دولتمند کاروباری حضرات نے خالص ہندووانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا۔ آئی پی ایل
جو ٹوئنٹی ٹوئنٹی طرز پر کھیلا جاتا ہے اسکے لیے کھلاڑی دنیا بھر کی کرکٹ
ٹیموں سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ آئی پی ایل میں ٹوئنٹی ٹوئنٹی کی فاتح ٹیم کے
بارہ کھلاڑیوں میں سے ایک کی بھی بولی نہ لگنا کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا
شاہد آفریدی جن کی بولی ڈھائی ملین ڈالر سے شروع ہونا تھی ان کے لئے بھی
کسی نے بولی نہ دی۔ جبکہ ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی پولارڈ اور نیوزی لینڈ کے
کھاڑی شین بونڈ کو ساڑھے سات ملین ڈالر کے عوض خریدا گیا ان میں سے ایک بھی
شاہد آفریدی کے پلے کا کھلاڑی نہیں۔ اگر پاکستانی کھلاڑیوں کو آئی پی ایل
میں کھلانا منظور نہیں تھا تو فرنچائز کو معلوم ہونا چاہیے تھا یا آئی پی
ایل کو پہلے ہی یہ بات واضح کر دینا چاہیئے تھی تاکہ نہ تو پاکستانی
کھلاڑیوں کی سبکی ہوتی اور نہ ہی بھارتی قوم کا متعصب رویہ سامنے آتا لیکن
اس وقت بھی ہم نے صرف تصویر کا ایک ہی رخ دیکھا اور نتیجتاً آج عالمی کپ
مقابلوں میں بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں ، گزارش ہے تو صرف اتنی کہ کھیل کو
سیاسی اکھاڑہ بنانے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بجائے صرف کھیل ہی رہنے دیا
جائے کہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کرنے والے لاتوں کے بھوت ہے جو
کسی بھی صورت کھیل یا باتوں سے نہیں مانیں گے۔ |